علی عمران ہینگ ٹل ڈیتھ - آٹھویں قسط

فورسٹار ایک کا رمیں بیٹھے آندھی طوفان کی طرح وجاہت عباسی کے ہل پوائنٹ پر واقع اس کے فارم ہاؤس پرسر بلیک کوبرا سے ٹکرانے کے لئے جارہے تھے۔ ڈرائیونگ سیٹ پر نعمانی بیٹھا ہواتھا ،برابر والی سیٹ پر صدیقی جبکہ انکے پیچھے خاور اور چوہان براجمان تھے۔آج عمران کا فل کورٹ میڈیا ٹرائل تھا اور انکی کوشش تھی کے وہ کسی طرح سے سربلیک کوبرا پر قابو پاکر ،اس کی تحویل میں موجود اس رات کی میٹنگ والی خفیہ ریکارڈنگ حاصل کرلیں۔ تاکہ وہ ریکارڈنگ عدالت میں پیش کرکے ، احمد منیر کو مجبور کیا جاسکے کے وہ عدالت کے سامنے جواب دہ ہو ۔
اس ریکارڈنگ سے وہ علی عمران کو سزا سے تو نہیں بچا سکتے تھے، مگر انہیں تھوڑی بہت اُمید ضرور تھی کے وہ اس ریکارڈنگ سے اور احمد منیر کی عدالت میں پیشی سے کیس کی نوعیت پر کچھ نہ کچھ فرق ضرورڈال سکتے تھے۔اس ریکارڈنگ سے عدالت کو سوچنے پر مجبور کیا جاسکتا تھا کے سر داور کے قتل کا علی عمران سے ہٹ کر کوئی دوسرا رخ بھی ہوسکتا ہے۔
فورسٹارز کو یہ بھی ڈر تھا کے سر بلیک کوبرا اگر فارم ہاؤس پر نہ ہوا تو اسے تلاش کرنا پھر تقریباً ناممکن ہوجائے گا۔یہ اندھیرے میں تیر چلانے کے مترادف تھااور انکے پاس یہ آخری موقعہ تھا۔اس کی کامیابی کی بھی کوئی خاص امید نہیں تھی، مگراس کے بغیر اور کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔
ہل پوائنٹ پاکیشیا کے کیپیٹل سے کوئی آدھے گھنٹے کے فاصلے پر تھا، جہاں پر بہت سے فارم ہاؤسز،ہٹس ا ور دیگر رہائشی مکانات تھے مگر ایک دوسرے سے ہٹ کر تھے۔ اس وقت صبح کے سات کا عمل تھا اور دو گھنٹے بعد فیڈرل کورٹ آف جسٹس کی کاروائی شروع ہوجانی تھی۔انکے پاس زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ گھنٹہ تھا۔ فارم ہاؤس کی چند خاص نشانیاں انہوں نے وجاہت عباسی سے پوچھ لیں تھیں ۔ کار میں ہرقسم کا ضروری اور جدید ترین اسلحہ موجود تھا۔اس کے علاوہ انہوں نے سوپر لینز بھی آنکھوں میں اتارے ہوئے تھے۔ کچھ دیر بعد انکی کار ہل پوائنٹ پر پہنچ گئی ، جسے مصنوعی طور پر کئی بڑی چٹانوں کو ملا کر پھر ان پر گاس، درخت اور دیگر پودے لگا کر خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔
ٹھنڈی ہوا سے لمبی لمبی گاس اور درختوں کے پتے لہراتے ہوئے بہت دلکش لگ رہے تھے۔سورج کبھی کبھی بادلوں کی اوٹ سے نکل کراپنی موجودگی کا احساس دلاتا تھا اور پھر تھوڑی دیر جھانک کر دوبارہ بادلوں میں خود کو چھپا لیتا تھا۔ہل پوائنٹ کے درمیان ہری بھری گاس کو کاٹتی ہوئی ایک پختہ سڑک تھی ،جس پر ڈرائیونگ کا اپنا ہی لطف تھا۔
ہل پوائنٹ تفریح کے لئے ایک بہترین جگہ تھی،یہاں اکثر فیملیز آکر چٹھیاں گذارتی تھیں۔ دو پرائیوٹ کمپنیوں نے حکومت سے باقاعدہ لائسنس لیکر اپنا بزنس بنایا ہوا تھا۔ یہ کمپنیاں یہاں پر لوگوں کو کرائے پر ہٹس اور فارم ہاؤسز دیتی تھیں۔ کچھ وجاہت عباسی جیسے لوگ جن کی دولت کی کوئی حد نہیں ہوتی تھی ،وہ اپنے لئے سالانہ کی ایڈوانس پیمنٹ کر کے بکنگ کروالیا کرتے تھے۔
نعمانی نے کار مین سڑک سے موڑ کر ہل پوائنٹ والی سڑک پر ڈال دی ۔ کوئی دس منٹ کی ڈرائیو کے بعد وجاہت عباسی کا فارم ہاؤس آگیا۔جو بہت ہی خوب صورت چاکلیٹ کلر کا انگریزی طرز پر بنا ہوا تھا۔اس کا احاطہ بہت وسیع تھا ،جبکہ ارد گرد بہترین تراشے ہوئے درختوں سے وہ گھرا ہوا تھا اور اس کے آس پاس کوئی آبادی نہیں تھی۔نعمانی نے کار فارم ہاؤس سے قبل ہی ایک درخت کی اوٹ میں روک لی۔
وہ چاروں بہت محتاط انداز میں گاڑی سے نکلے ، ان سب نے سیاہ رنگ کے چست لباس پہنے ہوئے تھے۔ وہاں بالکل خاموشی تھی، ایسا لگتا تھا جیسے کوئی بھی نہ ہو۔صدیقی نے آئی کوڈ لینگوئج سے سب کو اپنی حکمت عملی سے آگاہ کیا اور پھر اس نے سب سے پہلے خاور اور چوہان کو بے ہوش کردینے والی گیس گنز کے ساتھ روانہ کردیا۔خاور درختوں اور اونچے اونچے پودوں کی اوٹ لیتا ہوا فارم ہاؤس کے مین ڈور کی جانب برھنے لگا۔ جبکہ چوہان ایک لمبا راستہ اختیار کرتے ہوئے فارم ہاؤس کی بیک سائیڈ پر آگیا۔ دونوں خاور اور چوہان نے اپنی اپنی پوزیشنز لے لیں۔
جبکہ اس دوران صدیقی اور نعمانی وہیں کار کے پاس ہی موجود تھے۔ بظاہر فارم ہاؤس اور اسکے آس پاس اب تک کسی قسم کی کوئی نقل و حرکت نہیں ہوئی تھی ۔ مگر وہ سر بلیک کوبرا کے معاملے میں کسی قسم کا کوئی رسک نہیں لینا چاہتے تھے۔صدیقی نے اُن دونوں کی پوزیشنزکا جائزہ لیا اور پھر کچھ دیر بعداپنی گھڑی کے ڈائل پر ایک بٹن پریس کیا تو دوسری طرف خاور اور چوہان کی گھڑیوں پر ٹک ٹک کی مدہم آواز آنے لگی ،جو انکی ہتھیلیوں پر ضربیں لگارہی تھی۔ یہ اشارہ تھا کے شوٹ اس کے بعد، خاور نے اپنی گن ایڈجسٹ کی اور پھر ٹریگر پر انگلی رکھ کر اسے دبا دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے کوئی چیز دھویں میں لپٹی اُڑتی ہوئی فارم ہاؤس کے اندر جاگری، یہی عمل فارم ہاؤس کی بیک سائیڈ پر بھی ہوا اور چند لمحوں میں دھویں نے پورے فارم ہاؤس کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس دھویں کی رینج محدود تھی لحاظہ اس کا اثر خاور اور چوہان کو نہیں ہوا۔
کوئی پانچ منٹ کے بعد جب اس گیس کا اثر بالکل ختم ہوگیا ،تو انتہائی تیز رفتاری سے صدیقی اور نعمانی ایک دوسرے کے آگے پیچھے اپنے کندھے جھکائے، ہتھیار لئےدوڑتے ہوئے آئے اور فرنٹ ڈور پر پہنچ گئے۔ جبکہ اس دوران خاور ایک لمبا چکر کاٹ کر ڈورتا ہوافارم ہاؤس کی بیک سائیڈپر آگیا۔چاروں نے ایک ساتھ انتہائی پھرتی سے دھاوا بولا تھا، صدیقی اور نعمانی دونوں مین ڈور کے دائیں بائیں کھڑے تھے اور پھر نعمانی نے مین ڈور پر ضرور سے لات ماری اور سب سے پہلے صدیقی اپنی سائلنسر لگا پستول لئے اندر داخل ہوا۔ جبکہ بیک سائیڈ پر سب سے پہلے چوہان جمپ لگا کر فارم ہاؤس کی دیوار چڑھا اور پھر اس سے زیادہ پھرتی سے دوسری طرف ایک خوبصورت صحن میں کودا اور پھر رول ہوتا ہوا اچھل کر کھڑاہوتے ہی اپنی جیب کی اندرونی جیب سے سائلنسر لگا پستول نکال لیا۔اس کے پیچھے خاور نے بھی وہی عمل دہرایا۔
دوسری طرف صدیقی اور نعمانی اندر داخل ہوگئے تھے اور بہت محتاط انداز میں ایک ایک کرکے ہر کمرے کو چیک کر تے جارہےتھے۔ اس اثناء میں خاور چوہان بھی آگئے اور پھر کچھ ہی دیر میں انہوں نے پورا فارم ہاؤس چیک کرلیا وہاں کوئی نہیں تھا البتہ بیڈ روم میں ڈریسنگ ٹیبل کے اوپر ایک خنجر کاغذ کے پرزے میں ٹیبل کی سطح پر گھونپا ہوا تھا۔ صدیقی نے خنجر کھینچ کر اس کی نوک سے وہ کاغذ نکالا تو ایک عبارت انکا منہ چڑا رہی تھی۔ جس کو پڑھتے ہی صدیقی نے غصے سے کاغذ اپنے ہاتھ میں مروڑ کر اسے زمین پر دے مارا۔ عبارت تھی
ویل ٹرائے مسٹر صدیقی ! سوری بٹ سی یو اِن کورٹ""
٭٭٭٭٭٭٭٭
فیڈرل کورٹ آف جسٹس کے روم نمبر تین میں اس وقت خاصی گہماگہمی تھی۔کیونکہ یہاں پر ہی عمران کا آج تاریخ میں پہلی بار فل کورٹ میڈیا ٹرائل ہونے والا تھا۔ یہ خصوصی عدالت سر داور کے قتل پر حکومت پاکیشیا کی جانب سے ایک صدارتی آرڈینس کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی۔ جس کے اختیارات تو بہت وسیع تھے مگر اسے ایک ہی روز میں اپنی تمام کارورائی مکمل کرنے کا حکم ملا تھا ۔اس کے علاوہ اس عدالت کو مجبور کیا گیا تھا کے وہ اپنے فیصلے پر بھی جلد از جلد ایک دو روز میں عملدرآمد کروائے۔ فیڈرل کورٹ آف جسٹس کے احاطہ کی اسکیورٹی ہائی الرٹ تھی، اس کی حفاظت کے لئے باقاعدہ فوج طلب کرلی گئی تھی۔ روم نمبر تین میں عام افراد کے جانے پر پاپندی تھی، سوائے ان کے جو علی عمران کے عزیز تھےیادیگر اہم شخصیات جن کو حکومت کی طرف سے اجازت نامے ملے ہوئے ہونگے۔
جج صاحب کے علاوہ باقی سب لوگ آگئے تھے۔ یہ ایک انتہائی جدید ترین کورٹ روم تھا، جسے شاندار انداز میں سجایا گیا تھا۔ یہ کورٹ روم ایک ریلنگ کی مدد سے دوحصوں میں منقسم تھا۔ دیواروں پر بہت ہی قیمتی پردے لگے ہوئے تھے ،جبکہ فرش پر بھی بیش قیمت قالین مزین تھا۔ چھت پر بہت سی ماڈرن ،بڑی اور چوڑی لائیٹس فکس تھیں اس کی خوب صورتی میں اضافے کے لئے مزید چھوٹی چھوٹی کئی سفید لائیٹس دیواروں پر کہیں کہیں لگی ہوئی تھیں۔
جج صاحب کی اُونچی ریوالونگ چیئر کے دائیں جانب بڑا ساپاکیشیا کا جھنڈا ایک موٹے ڈنڈے سے لگا ہوا تھا ، تاہم بائیں جانب اسی طر ح کے ڈنڈے کے ساتھ فیڈرل کورٹ آف جسٹس کا جھنڈا موجود تھا۔ جج صاحب کی چیئر کے سامنےجو بڑی سی میز رکھی ہوئی تھی ، اس پر کاغذات کا پلندہ ، مائیک ، لکڑی کا ہتھوڑا ،ایک عقاب کا مجسمہ جس کی چونچ میں ترازُو لٹکا ہوا تھااور ایک قلم دان کے تین خانوں میں تین مختلف رنگوں کے قلم سجے ہوئے تھے ۔ اس میز کے دو بڑے خانے تھے ، ایک خانے میں چھوٹی سی ایل سی ڈی اور دوسرے خانے میں ایک چھوٹا ساکمپیوٹر رکھا ہو ا تھا۔ ۔ جج صاحب کی چیئر کے پیچھے دیوار پر فیڈرل کورٹ آف جسٹس کا دیدہ زیب لوگو کندہ ہوا تھا۔ جج صاحب کی چیئر اور میز کو ایک چھوٹی اُونچائی والے پارٹیشن سے الگ کیا ہوا تھا، اس پورشن کے بعد ایک اور پورشن جو جج صاحب والے پورشن سے جڑا ہوا تھا وہاں پر دو کمپیوٹر ز کے سامنے کورٹ رپورٹر اور کورٹ کلرک بیٹھےہوئے تھے۔ان کے ساتھ ایک بہت بڑی ایل سی ڈی ایک اسٹینڈ پر لگی ہوئی تھی جس پر" فیڈرل کورٹ آف جسٹس "کے الفاظ انگریزی زبان میں جھوم رہے تھے۔ان کا رخ عدالت میں آئے ہوئے دیگر لوگوں کی جانب تھا۔ ۔ان سے تھوڑے فاصلے پر ان کے دائیں جانب ایک پارٹیشن سے چھوٹا ساکیبن بنا ہوا تھا جس میں ایک چیئر پر علی عمران شال لپیٹ کر نظریں جھکائے بیٹھا ہوا تھا جبکہ اس کے پیچھے جوزف اور جوانا کھڑے ہوئے تھے۔ ان کے بالکل سامنے ویسا ہی ایک کیبن بناہوا تھا جس کی چیئر خالی پڑی ہوئی تھی ، اسے وٹنس اسٹینڈکہا جاتا تھا۔ اس سے تھوڑے فاصلے پر ایک بہت بڑی میز کے پیچھے کرسیوں پر وکیلوں کی ایک بہت بڑی تعداد بیٹھی ہوئی تھی ۔ جبکہ انکی بیک پر ایک بڑی سی ریلنگ سے پارٹیشن کرکے لوگوں کے لئے آرام دہ صوفے رکھے ہوئے تھے جنہیں مختلف قطاروں میں بانٹا ہوا تھا۔ ان قطاروں کو درمیان سے ایک چھوٹے راستے سے منقسم کیا ہوا تھا۔ دائیں ، بائیں کوئی دس دس قطاریں تھیں ۔
عدالت میں اس وقت کیپٹن فیاض ، سر سلطان، پاکیشیا سیکرٹ سروس کے تقریباً تمام ارکان میک اَپ میں موجود تھے۔ اس کے علاوہ اماں بی اور ثریا بھی موجود تھیں ۔ اس فل کورٹ میڈیا ٹرائل کی لائیو کورج کے لئے میڈیا کے بے حساب کیمرے اور رپورٹرز کے علاوہ پاکیشیا کے چوٹی کے صحافی بھی موجود تھے۔
علی عمران کاکیس پاکیشیا کے تمام بڑے وکیلوں نے میڈیا اور عوام کے دباؤ کے پیش نظر لینے سے انکار کردیا تھا۔ لحاظہ عمران کی طرف سے ایک سرکاری وکیل شرجیل اقبال وکیل ِدفاع کی حیثیت سے وکالت کررہے تھے ۔ جبکہ ان کے مقابل حکومت کی جانب سے پاکیشیا کے سب سے بڑے وکیلوں میں سے ایک وکیل کاشف حسین وکیل استغاثہ کی حیثیت سے موجود تھے۔
اتنے میں جج صاحب والا گلاس ڈور آٹومیٹک انداز میں کھلا اور اس میں سے ایک بڑی مونچھوں والاشخص نمودار ہوا اور سیڑھیاں چڑھ کر جج صاحب والے پورشن میں آکر ایک اعلان کرنے لگاجس کو سننے کے لئے سب متوجہ ہوگئے۔
"حضراتِ گرامی ! اب سے کچھ دیر میں چیف جسٹس جناب جسٹس ایس کے ملک صاحب تشریف لے آئیں گے ، آپ سب سے گذارش ہے کہ جب وہ آئیں تو ان کے احترام میں سب لوگ کھڑے ہوجائیں گے۔اس کے بعد عدالتی کاروائی باقاعدہ شروع ہوگی تو آپ سب لوگ عدالت کے احترام میں مکمل خاموش رہیں گے تاکہ عدالتی کاروائی بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہے۔ عدالت کا احترام آپ سب پر فرض ہے، اگر اس دوران کسی نے بھی عدالتی تقدس کو پامال کرنے کی کوشش کی تواس پر عدالت کی جانب سے بھاری جرمانہ عائد کیا جائے اور کوئی سخت سزا بھی دی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ میڈیا کے لوگوں سے عرض ہے کہ وہ عدالتی کاروائی کے دوران کسی بھی قسم کی رکاوٹ کا باعث نہیں بنیں گے۔تبصرہ یا تنقید کرنے کی اجازت نہیں ہوگی اور نہ عدالتی کاروائی کے دوران کسی بھی قسم کی مداخلت کی اجازت دی جائے گی۔شکریہ۔۔۔۔" اتنا کہتے ہی وہ شخص وہاں سے چلا گیا۔ البتہ اس دوران دونوں وکیل چل کر علی عمران والے اسٹینڈ اور وٹنس اسٹینڈ کے درمیان آکر ساتھ ساتھ کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے وکیلوں والا گاؤن پہنا ہوا تھا۔
تھوڑی دیر میں جج صاحب تھری پیس سوٹ کے اوپر اپنا جج والا گاؤن پہنے پر وقار انداز میں چلتے ہوئے آکر اپنی کرسی پر بیٹھ گئے۔ ان کے احترام میں سب لوگ عمران سمیت کھڑے ہوگئے البتہ دونوں وکیلوں نے تعظیماً اپنے سر تھوڑے سے نیچے جھکائے اور پھر جج صاحب کے بیٹھتے ہی باقی سب لوگ بھی بیٹھ گئے۔ جج صاحب کاسر بالوں سے عاری تھا، البتہ ان کی کنپٹیوں پر سفیدی موجود تھی ۔ انکی ناک پر ہر وقت نظر کا چشمہ موجود رہتا تھا۔پورے پاکیشیا میں انہیں نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ انہیں فیڈرل کورٹ آف جسٹس کا چیف جسٹس بنے ابھی ڈیڑھ برس ہوا تھا اور انکے کئی اہم فیصلوں کو میڈیا سمیت عوامی سطح پر کافی پذیرائی ملی تھی ۔ان کی عمر پچپن برس رہی ہوگی اور ان کو سروس میں آئے ہوئے کوئی تیس برس ہوچکے تھے۔ شروع شروع میں انہوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز وکیل کی حیثیت سے کیا تھا اور پھر رفتہ رفتہ ترقی کرتے کرتے وہ پاکیشیا کی سب سے بڑی عدالت فیڈرل کورٹ آف جسٹس کے چیف جسٹس بن گئے تھے۔آج بھی وہ بہت اہم کیس میں جج کی حیثیت سے موجود تھے۔
جبکہ اس دوران شرجیل اقبال وہاں سے چلتے ہوئے اپنی نشست کی جانب بڑھ گئے البتہ کاشف حسین وہیں موجود رہے۔
"پلیز کاشف صاحب سٹارٹ دی پروسیڈنگز۔۔۔۔۔" چیف جسٹس صاحب نے کاشف صاحب کو عدالت کی کاروائی شروع کرنے کا کہا۔سب لو گ خاموشی سے متوجہ ہوکر کاشف صاحب کی جانب دیکھنے لگے، جو پراسیکیوشن لائیر تھے۔
آنرایبل چیف جسٹس صاحب! یہ جو شخص اس وقت فیڈرل کورٹ آف جسٹس کے سامنے ملزم کی حیثیت سے موجود ہے۔۔۔۔۔" وکیل استغاثہ کاشف حسین نے عمران کی طر ف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
"اس نے اپنے دو پرسنل گارڈز کی مدد سے گذشتہ ہفتے اس ماہ کی گیارہ تاریخ کو رات دو بج کر پانچ منٹ پر پاکیشیا کے سب سے بڑے سائنسدان سر داور کو نہایت بے دردی کے ساتھ قتل کردیا۔ اس سفاک ملزم کو کیپٹن فیاض نے اسی رات موقعہ واردات پر رنگے ہاتھوں گرفتار بھی کرلیا۔ اس شخص نے پوری کوٹھی کا کمانڈ اینڈ کنڑول سسٹم تباہ کردیا تھا اور وہاں کے کیمروں میں ریکارڈ ہونے والی فوٹیج اس نے ایک ڈی وی ڈی میں سیو کرکے اس فوٹیج کی تمام میموری کمانڈ اینڈ کنڑول سسٹم سے ڈیلیٹ کردی۔ پھر اسی ڈی وی ڈی کو اس نے جوزف اور جوانا کے ہاتھ رانا ہاؤس بھجوادیا۔ جوزف نے یہ ڈی وی ڈی ایک محفوظ لاکر میں لے جاکر رکھ دی جسے بعد ازاں کیپٹن فیاض کے کامیاب ریڈ نے ریکور کروایا۔ عمران بھی وہاں سے فرار ہونے ہی والا تھا کے کیپٹن فیاض نے بروقت کاروائی کرتے ہوئے اسے آلئہ قتل سمیت اسے گرفتار کرلیا۔۔۔۔ " وکیلِ استغاثہ کاشف حسین نے کیس کی تمام تفصیلات عدالت کے گوش گزار کیں ۔ابھی ان کی بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کے جوزف نے چیختے ہوئے کہا۔
"یہ یہ جھوٹ ہے ، اس عدالت کو گمراہ کیا جارہا ہے۔۔۔۔ میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں۔۔۔۔" جوزف نے آپے سے باہر ہوتے ہوکہا تو چند پولیس آفیسرز دوڑتے ہوئے آئے اور انہوں نے جوزف کو بڑی مشکلوں سے کنڑول کرتے ہوئے اس کے ہاتھ پیچھے لے جاکر ہتھکڑیوں میں جکڑدیئے۔
"مسڑ جوزف اگر اب آپ نے عدالت کی کاروائی میں مداخلت کرنے کی کوشش کی تو یہ عدالت آپ کو توہین عدالت کے زمرے میں سخت سزا دینے سے بھی گریز نہیں کرے گی۔ یہ آپ کے لئے لاسٹ وارنگ ہے۔۔۔۔۔" اس بار جج صاحب نے غصے سے ڈانٹتے ہوئے جوزف کو لاسٹ وارننگ دی۔ البتہ جوزف برا سامنہ بنا کر بے بسی سے جج صاحب کی جانب دیکھنے لگا۔ شاید زندگی میں پہلی بار وہ اتنا مجبور و بے بس ہوا تھا۔
"کاشف حسین صاحب یہ تو وہی الزامات ہیں جنہیں ہم میڈیا کے ذریعے پہلے ہی جانتے ہیں ،آپ یہ سب کچھ ثابت کیسے کریں گے؟۔۔۔۔" جج صاحب نے اس بار قدرے نرم لہجے میں وکیلِ استغاثہ کاشف حسین کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
"جی آنرایبل چیف جسٹس صاحب ! میں اُسی جانب آرہا ہوں۔ یہ رہا وہ مڈر آف ویپن جس سے سرداور کو انتہائی بے دردی سے قتل کردیا گیا اور اس پر علی عمران کے فنگر پرنٹس بھی موجو د ہیں اور یہ ہے انٹیلی جنس بیورو کی فورنسک ٹیم کی رپورٹ۔۔۔۔"وکیلِ استغاثہ کاشف حسین نے اپنے ہاتھ میں ایک خنجر لہراتے ہوئے کہا جو ایک ٹرانس پیرنٹ لفافے میں بند تھا اور اس کے اوپر "ثبوت" کے الفاظ انگریزی زبان میں لکھے ہوئے تھے۔ اس کے ساتھ ایک رپورٹ جو فورنسک والوں کی طرف سے انگریزی زبان میں دی گئی تھی وہ انہوں نے کورٹ کلرک کے حوالے کردی اور پھر اس نے وہ سب کچھ جج صاحب کو پکڑا دیا اور جج صاحب اسے پڑھنے لگے۔
"میں اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے سب سے پہلے کوٹھی کے گارڈ جان محمد کو "وٹنس اسٹینڈ " میں بلانے کی اجازت چاہتا ہوں۔۔۔۔" وکیلِ استغاثہ کاشف حسین نے جج صاحب سے اس کیس کے پہلے وٹنس کو بلانے کی اجازت چاہی۔
"اجازت ہے۔۔۔۔" جج صاحب نے اجازت دیتے ہوئے کہا۔ اتنی دیر میں دائیں جانب سے پانچویں قطار میں موجود ایک گارڈ جو اس وقت بھی وردی میں تھا چلتا ہوا "وٹنس اسٹینڈ " کے اندر کرسی پہ جاکر بیٹھ گیا۔اسے سب سے پہلے قرآن مجید پر حلف لیا گیا کہ وہ جو کہے گا سچ کہے گا اور سچ کے سوا کچھ نہیں کہے گا۔
"مسٹر جان محمد! اُس دن کیا ہوا تھا اور تم زندہ کیسے بچ گئے ؟ حالانکہ تمہارے دیگر ساتھی سوائے ایک کے باقی سب اس ہفتے کی رات مارے گئے تھے۔یہ عدالت سچ جاننا چاہتی ہے کے اس رات کیا ہوا تھا سب کچھ سچ سچ بتا دو۔۔۔۔" وکیلِ استغاثہ کاشف حسین نے جان محمد سے عدالت کے سامنے سب کچھ سچ بولنے کے لئے کہا۔
"جی جناب ! اس رات ڈیڑھ بجے ہم کوٹھی کی پچھلی سائیڈ پر مجھ سمیت کوئی دس گارڈز ڈیوٹی دے رہے تھے کہ ہمیں سگریٹ کی طلب ہوئی۔ آپ تو سمجھ سکتے ہیں کہ سگریٹ او ر چائے کے بغیر ہم سے ڈیوٹی نہیں ہو پاتی۔ اتفاق سے اس وقت ہمارے پاس سگریٹ موجود نہیں تھی۔ لہذا ہم دو گارڈ ز میں اور اللہ وسایا کوٹھی کے پچھلے گیٹ سے پاس ایک جنر ل سٹور سے سگریٹ لینے چلے گئے۔ جو سر داور کی کوٹھی سے دو گلیاں چھوڑ ایک اور بلاک میں ہے۔ ہمیں واپسی پر کوئی بیس منٹ لگ گئے ،لیکن جب ہم کوٹھی پہنچے تو کوٹھی حیرت انگیز طور پر مکمل اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ہم اپنے کواٹر کی جانب گئے جو کوٹھی سے تھوڑا ہٹ کر ہے تو کیا دیکھتے ہیں کے ہمارے ساتھی ایک کواٹر میں بہت بری طرح سے ایک دوسرے کے اوپر رکھے ہوئے مرے پڑے ہیں۔ ہم وہاں سے دوڑ کر کوڑے ایک بڑے ڈرم کے پیچھے چھپ کر کوٹھی کا مشاہدہ کرنے لگے کہ کچھ دیر بعد یہ دو حبشی کوٹھی کے پچھلے دروازے سے برآمد ہوئے اور ایک بڑی سی کار میں بیٹھ کر وہاں سے چلے گئے۔۔۔۔" گارڈ جان محمد نے اپنا بیان عدالت کے سامنے دیا۔
"جان محمد ! تم اس کوٹھی کے چوکیدار نہیں تھے وہاں کے گارڈ تھے ، وہاں کی حفاظت تمہارے ذمے تھی تو پھر تم نے آگے بڑھ کر کوٹھی میں جانے کی کوشش کیوں نہیں کی۔؟" شرجیل اقبال جو علی عمران کے ڈیفنس لائیر تھے انہوں نے ایک دم سے کھڑے ہوتے ہوئے جان محمد سے سوال کیا۔
"صاب ہم غریب آدمی ہے۔ ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ بیوی بیمار ہے ، ہمیں جو مل جاتا ہے سرکار سے وہ ہم سے خرچ ہوجاتا ہے۔ ہمیں بہت ڈر اور خوف آیا کے کہیں ہم اندر گئے تو کوئی ہمیں مار نہ دے اس لئے نہیں گئے۔" جان محمد نے ہاتھ جوڑ کر منت بھرے لہجے میں کہا۔
"چلو ڈر کی وجہ سے تم اندر نہیں گئے لیکن اس کے بعد کیپٹن فیاض کے ریڈ کے ٹائم تم کہاں غائب ہوگئے تھے؟ تمہیں پوری کالونی میں تلاش کیا گیا مگر تم وہاں نہیں تھے۔ پھر آخر تم تھے کہا ں؟" وکیلِ دفاع شرجیل اقبال نے ایک چھبتا ہوا سوال کیا۔
"آپ کی مشکل میں آسان کردیتا ہوا ۔ مسڑ ڈیفنس لائیر۔۔۔۔" اس سے قبل کے گارڈ جان محمد جواب دیتا، وکیلِ استغاثہ کاشف حسین نے ایک دم گفتگو کے درمیان کودتے ہوئے مسکرا کر کہا۔ ان کو مسکراتا دیکھ کر وکیلِ دفاع شرجیل اقبال بھی مسکرائے اور انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں بولنے کا موقعہ دیا۔
"وہ دونوں چونکے بہت ڈر گئے تھے اس لئے انہوں نے وہاں سے چھپ جانے میں ہی عافیت سمجھی۔۔۔۔ وہ وہاں سے تین گلیاں چھوڑ ایک بیورو کریٹ جناب صبحان احمد صاحب کے یہاں چلے گئے جن کے اپنے گارڈز جان محمد اور اللہ وسایا کے دوست ہیں ۔ وہ ڈر کی وجہ سے دو تین دن وہیں رہے پھر ان کے دوستوں کے سمجھانے پر انہوں نے خود کو کیپٹن فیاض کے حوالے کردیا۔ اسی لیے وہ دو تین دن غائب رہے تھے جس کا ذکر کیپٹن فیاض نے اپنی پریس کانفرینس میں بھی کیا تھا۔۔۔۔" وکیلِ استغاثہ کاشف حسین نے جان محمد کی جانب سے وضاحت کی اور پھر گارڈ جان محمد کو روانہ کرکے دوسرے گارڈ اللہ وسایا کو بھی بلایا گیا اس نے حلف کے بعد وہی بیان دیا جو پہلے گارڈ جان محمد دے چکا تھا۔ اس کے بعد بیورو کریٹ صبحان احمد کو بلایا گیا، جس نے ان دونوں گارڈز کے بیا ن کی تصدیق کی۔ان سب کے بعد وکیلِ دفاع شرجیل اقبال پھر اٹھے اور جج صاحب کے سامنے مسکراتے ہوئے کہنے لگے۔
"مجھے لگتا ہے ، میرے فاضل دوست کچھ بھول رہے ہیں۔ کیا میرےمَوُکِل علی عمران ایک پوری کوٹھی کا کمانڈ اینڈ کنڑول سسٹم تنہا تباہ کرسکتے ہیں؟۔۔۔۔۔ کیا اُن میں اتنی صلاحیت ہے کو وہ یہ سب کچھ کرسکیں۔۔۔۔۔" وکیلِ دفاع شرجیل اقبال اپنی طرف سے ایک بڑا پیچیدہ نقطہ نکالا۔
"جی بالکل ایسا ہوسکتا ہے ، لگتا ہے شرجیل اقبال صاحب آپ نے اپنا ہوم ورک نہیں کیا ہوا یہ جو آپ کے مَوُکِل ہیں یہ صر ف لوگوں کو قتل کرنا نہیں جانتے بلکہ سائنس کے مضمون میں بھی مکمل عبور رکھتے ہیں۔ موصوف نے اس کوٹھی کا پور ا کمانڈ اینڈ کنڑول سسٹم خود نصب کیا تھا اور جو یہ کام پہلی دفعہ اتنی مہارت سے کر سکتا ہے وہ اس کی تباہی بھی اسی مہارت سے کر سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ کیوں مسٹر علی عمران میں نے سچ کہا نہ کے آپ نے ہی اس کوٹھی کا کمانڈ اینڈ کنڑول سسٹم نصب کرایا تھا؟؟" وکیلِ استغاثہ کاشف حسین جو وکیلِ دفاع شرجیل اقبال کو جواب دے رہے تھےایکدم اپنا رخ علی عمران کیطرف کردیا۔
"جی ہاں آپ درست کہہ رہے ہیں کہ میں نے ہی اس کوٹھی کا کمانڈ اینڈ کنڑول سسٹم نصب کیا تھا۔۔۔۔۔" عمران نے اس بات کی تصدیق کی۔
"پوائنٹ ٹو بی نوٹِڈ مائی لارڈایک بات تو ثابت ہوگئی کے جو اس پیچیدہ سسٹم کو ایک بار نصب کر سکتا ہے وہ اسے تباہ کرنا بھی خوب جانتا ہے۔۔۔۔" وکیلِ استغاثہ کاشف حسین نے مسکراتے ہوئے کہا تو دوسری جانب جج صاحب نے اپنے قلم سے وہ بات نوٹ کرلی۔ وکیلِ دفاع شرجیل اقبال نے پھر مسکراتے ہوئے کہا۔
"میرے دوست شاید یہ بھول گئے کے قتل کی کوئی وجہ بھی ہونی چاہیے۔ اگر آپ نے ثبوت اور گواہ پیش بھی کردیئے اور اگر آپ قتل کی وجہ نہ بتا سکے تو عدالت آپ کے تمام گواہوں اور ثبوتوں کو رد بھی کرسکتی ہے۔ کیونکہ وجہ قتل ان سب سے زیادہ ضروری ہے جناب"
"جی جج صاحب قتل کی بالکل وجہ ہے اور وہ بہت سادا سی ہے ۔حسد، شہرت کا نہ ملنا اور اپنی محنت کا سارا صلہ اور کریڈٹ کسی اور کو مل جانا۔ علی عمران کے ساتھ بھی بالکل ویسا ہی ہوا۔ کیونکہ آج تک سرداور کی جانب سے جتنی ایجادات کی گئی ہیں اُن میں علی عمران کا بہت بڑا حصہ ہے اور سچ تو یہ ہے کہ اگر بعض موقعوں پر علی عمران ان کی مدد نہ کرتا تو وہ ریسرچ ہی مکمل نہ ہوتی۔ہم سب یہ جانتے ہیں کے سرداور تین دفعہ کے نیشنل پرائز ونر ہیں اور علی عمران کا نام پہلی دفعہ پوری قوم کے سامنے آیا ہے کیا اس بات سے علی عمران کو جلن نہیں ہونی چاہیے ؟ یہ بالکل عام سی بات اور یہ حسد ہی ہے جو انسان کو عام انسان سے آگے نکل کر ایک قاتل بنا دیتی ہے۔کیا آپ سب لوگ یہ بات جانتے ہیں علی عمران کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں ؟ ہی از ڈاکڑ۔۔۔۔۔۔ نہ صرف یہ بلکہ موصوف نے کرمنالوجی بھی پڑھی ہوئی ہے اور اپنے اسی علم کا انہوں نے بہت فائدہ بھی اُٹھایا ہے۔۔۔۔۔" وکیلِ استغاثہ کاشف حسین نے بھرپور دلائل کے ساتھ لگتا تھا وکیلِ دفاع شرجیل اقبال کے علاوہ جج صاحب کو بھی قائل کرلیا ہے۔ ان دلائل کی اہم بات جج صاحب نے نوٹ بھی کرلی تھی۔
"جج صاحب میں نے اب تک جتنے گواہ اور دلائل اس محتر م عدالت کے سامنے پیش کئے ہیں اس سے صر ف اور صر ف ایک ہی مجرم سامنے آتا ہے ، جس نے پورے پاکیشیا کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں اور وہ ہے مسٹر علی عمران ۔اب میں آنرایبل فیڈرل کورٹ آف جسٹس کے سامنے وہ ثبوت رکھوں گا کہ جس کے بعد عدالت کو اپنا آخری فیصلہ سنانے میں کوئی دقت نہیں ہوگی۔ یہ ثبوت علی عمران کے خلاف اس کیس کے حوالے سے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا ۔یہ وہی ثبوت ہے جسے کیپٹن فیاض نے میڈیا کے سامنے شیئر کرنے سے معذرت ظاہر کی تھی ۔ جی ہاں وہی ڈی۔ وی۔ ڈی جس کے اوپر "ٹاپ سیکرٹ" لکھا ہوا ہے۔جج صاحب آپ کی اجازت سے وہ ڈی۔وی۔ڈی میں پلے کرنا چاہتا ہوں۔" وکیلِ استغاثہ کاشف حسین نے اس بار انتہائی جوشیلے لہجے میں کہا، انکے گال بھی لال ہورہے تھے اور آنکھوں میں خاص چمک آگئی تھی۔ شاید انہیں اپنی فتح قریب نظر آرہی تھی اور لگ رہا تھا کہ وہ جلد ہی قومی ہیرو بننے والے ہیں۔ جبکہ ان کے مقابل وکیل، واقعی ایک سرکاری وکیل ثابت ہورہے تھے کئی پوائنٹس پر اگر وہ جرح کرتے تو وہ عدالت کے سامنے اس کیس کے کئی نئے پہلو لا سکتے تھے۔ کیونکہ اس کیس کے بہت سے پہلو واقعی بہت کمزور تھے جن میں اُلجھا کر وکیلِ استغاثہ کاشف حسین کو پھنسایا جاسکتا تھا۔ مگر شاید قدرت آج بھی عمران پر مہربان نہیں تھی اس کا برا وقت چل رہا تھا جس کا بھرپور فائدہ وکیلِ استغاثہ کاشف حسین اُٹھا رہے تھے۔
"اجازت ہے ۔۔۔۔" جج صاحب نے اپنے سر کو ہلکی سی جنبش دے کر ڈی وی ڈی پلے کرنے کی اجازت دے دی۔
کچھ دیر بعدوکیلِ استغاثہ کاشف حسین نے وہ ڈی۔ وی ۔ ڈی کورٹ کلرک کے حوالے کی ، جو اس نے لے جاکر ایک پلئیر کے اندر ڈالی اور ریموٹ وکیلِ استغاثہ کاشف حسین کے ہاتھ میں تھما دیا۔ ا نہوں نے وہ ریموٹ لیکر اس پر ایک بٹن پریس کردیا۔
ایل سی ڈی کی اسکرین پر سر داور کی کوٹھی کا منظر نظر آنے لگا۔ ویڈیو کی کوالٹی کافی لو تھی مگر پھر بھی لوگ پہچانے دیر رہے تھے۔گارڈز پوری کوٹھی کا چکر لگا رہے تھے ۔ اسکرین پر بار بار منظر بدل رہا تھا اور پھر مختلف کمروں اور راہداریوں سے ہوتے ہوئے اب سر داور کی کوٹھی کے تحہ خانے کا منظر اُبھر کر سامنے آگیا، جس میں سر داور اپنی لیبارٹری میں کام کر رہے تھے اور پھر ایکدم سے کوٹھی کا پچھلا حصہ نظر آنے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اچانک کوٹھی میں دھواں پھیلنے لگاا اور پھر اس دھویں نے پوری کوٹھی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اسکرین پر جلد ی جلدی ٹائم چلنے لگا اور کوئی دس منٹ بعد جب دھواں چھٹا تو وہاں منظر ہی بدل گیا تھا۔ پوری کوٹھی اندھیرے میں ڈوب گئی تھی۔ مگر پھر بھی وہاں طاقت ور کیمروں کی وجہ سے سب کچھ نظر آرہا تھا لیکن ویڈیو کی کوالٹی لو تھی۔ پھر دوسر ا منظر ابھرا تو اس میں عمران جوزف اور جوانا کیساتھ کوٹھی کے اندر موجود تھا اور تمام گارڈز نیچے گرے ہوئے تھے۔ ویڈیو کی آواز نہیں تھی ورنہ منظر میں اور بھی جان پڑ جاتی ۔ کچھ دیر بعد جانے کیا ہوا کے ایک ایک کرکے کیمرے اپنی ورکنگ چھوڑتے گئے اور ا ن کی جگہ اسکرین پر مچھر آتے گئے اور جب سر داور کو کوٹھی میں ہونے والی ان عجیب و غریب حرکات کا علم ہوا تو وہ بھی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آگئے۔ جو کیمرے کام کررہے تھے ان میں جوزف اور جوانا گارڈز کو اپنے کاندھوں پر لادے کوٹھی کے پچھلے دروازے سے ایک ایک کر لے جانے لگے۔اس دوران سر داور کوٹھی کے اوپر والے حصے میں آگئے اور پھر اسکرین پر عمران اور سر داور واضح طور پر ایک ساتھ نظر آنے لگے۔ وہ ایک کمرے میں کھڑے شاید کسی بات پر بحث کر رہے تھے۔ آن کی آن میں وہ بحث شدت اختیار کرتی گئی اور پھر عمران نے جیب سے خنجر نکال لیا اور پھر سب نے وہ بھیانک منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا البتہ ثریا اور اماں بی نے اپنے چہرے دوسری طرف پھیر لئے۔ عمران پر جنون سوار تھا اس نے بہت بے دردی سے خنجروں کے وار سر داور کی چھاتی اور پیٹ پر کئے کہ بے تحاشہ خون بہنے لگا اور پھر وہ وہیں فرش پر گر گئے مگر عمران کی وہشت ختم نہ ہوئی وہ وار کرتا چلا گیا اور پھر ایکدم وہ اٹھا اور کوٹھی کے تحہ خانے کی جانب بڑھ گیا۔ تحہ خانے میں آکر اس کار خ کمانڈ اینڈ کنڑول سسٹم کی طر ف تھا، پھر وہ اس کیبن میں آکر ریوالونگ چیئر پر بیٹھ گیا اور پھر کچھ ہی دیر میں کوٹھی کی تمام کیمرے ایک ایک کرکے بند ہوگئے یہاں تک کے اسکرین بالکل ڈارک ہوگئی تو وکیلِ استغاثہ کاشف حسین نے بٹن پریس کرکے اسکرین آف کردی۔ جج صاحب یہ منظر اپنی ایل سی ڈی پر دیکھ رہے تھے۔ یہ ویڈیو ختم ہوتی ہی سب لوگو ں کی کھسر پھسر شروع ہوگئی تو جج صاحب نے اپنا ہتھوڑا اٹھا کر اسے مارتے ہوئے کہا: " سائلنس اِن دا کورٹ پلیز۔۔۔۔۔"
"جج صاحب میں اب عدالت میں اس ویڈیو کی جانچ پڑتال کرنے والے انٹیلی جنس بیورو کے فورنسک ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ ڈاکڑ شکیل یونس صاحب کو وٹنس اسٹینڈ میں بلانے کی اجازت چاہوں گا۔۔۔۔۔"
"اجازت ہے۔۔۔" جج صاحب نے اجازت چاہی تو ڈاکڑ شکیل یونس چلتے ہوئے وٹنس اسٹینڈ میں موجود کرسی پے جاکر بیٹھ گئے۔
"ڈاکڑ صاحب ذرا آپ عدالت کو بتائیں گے کہ کیا اس ویڈیو کے ساتھ کسی نے چھیڑ چھاڑ تو نہیں کی اور کیا یہ ویڈیو اصلی ہے۔۔۔۔۔۔"
"جی کاشف حسین صاحب یہ ویڈیو بالکل اصلی ہے ،اسکی سائنٹیفک انداز میں تحقیق ہوئی اور میں آپکو اس کی آشورٹی دیتا ہوں۔" ڈاکڑ شکیل یونس نے ٹھوس لہجے میں کہا۔
"ڈاکڑ صاحب! آپ کے چیک کرنے کا سائنٹیفک طریقہ کون سا ہے، ممکن ہے یہ ویڈیو جعلی ہو۔۔۔۔" اس بار وکیلِ دفاع شرجیل اقبال نے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہوئے کھڑے ہوکر مسکراتے ہوئے کہا۔
" جی ویڈیوز کے چیک کرنے کا کام ایک ویڈیو چیکنگ کمپیوٹر سافٹ وئیر کے ذریعے ہوتا ہے اور وہ سافٹ وئیر ہم نے ایکریمیا سے لاکھوں ڈالرز کا منگوایا ہے۔اس کے اندر کسی بھی ویڈیو کو ڈال کر ہم ویڈیو کے اصلی یا نقلی ہونے کا پتہ چلا لیتے ہیں اور سافٹ وئیر کی کوڈنگ اتنی زبردست ہے کہ آج تک اس نے کبھی غلطی نہیں کی۔"
"جی بہت بہت شکریہ ڈاکڑ صاحب امید ہے ہمیں آپ کو مزید تکلیف دینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ تو مسٹر علی عمران تمہارا یہ مکروہ چہرہ سب کے سامنے اس ویڈیو میں نظر آگیا، کیا تم اپنا گناہ قبول کرکے اپنے گناہوں کا کفارہ دینا چاہوگے یامجھے تمہاری زبان کھلوانے کے لئے کوئی اور ثبوت دینا پڑے گا۔۔۔۔۔" وکیلِ استغاثہ کاشف حسین نے پہلے ڈاکڑ شکیل یونس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا پھر وہ بعد میں عمران کو غیرت دلانے لگے۔
"جی جج صاحب میں اپنے اس بھیانک جرم کو قبول کرتا ہوں ۔ اس کے علاوہ اب کوئی چارہ بھی نہیں۔ سچ وہ جو ویڈیو نے دکھا دیا۔ ہاں سر داور کا میں ہی قاتل ہوں اور میرا ساتھ اِن دو حبشیوں نے بھی دیا جیسا کے آپ سب لوگ ویڈیو میں دیکھ چکے ہیں ۔ میں واقعی حاسد ہوگیا تھا،اسی حسد نے مجھے اندھا کردیا۔ یہ اندر ہی اندر میرا خون جلاتا رہا، حسد، شہرت کا نہ ملنا اور اپنی محنت کا سارا صلہ اور کریڈٹ سرداور کو مل جانا۔ان کے انٹرویوز میڈیا پر آنا اور حکومت کی طر ف سے مجھے ایک ٹکہ سا بھی رسپانس نہ ملنا، اس سے میرا خون کھولتا تھا۔کیونکہ آج تک سرداور کی جانب سے جتنی ایجادات کی گئی ہیں اُن میں میرا بہت بڑا حصہ شامل ہے اور سچ تو یہ ہے کہ اگر بعض اہم اور پچیدہ موقعوں پر میں ان کی مدد نہ کرتا تو انکی ریسرچ ہی ادھوری رہ جاتی۔سرداور تین دفعہ کے نیشنل پرائز ونر ہیں اور مجھے حکومت نے کیا دیا کچھ بھی تو نہیں نہ عہدہ نہ جاب ۔ میں آج بھی فارغ ہوں اور اب تو شاید مرتے دم تک ہی فارغ رہوں۔ ہاں میں قاتل ہوں جج صاحب اور مجھے سزا ملنی چا ہیے۔۔۔۔" عمران نے سر اٹھا کر جج صاحب کی طر ف دیکھتے ہوئے اپنا سارا بھیانک جرم قبول کرلیا۔ اس کی آنکھوں میں سرخی آئی ہوئی تھی۔ ثریا ، اماں بی، سرسلطان اور پاکیشیا سیکرٹ سروس کے تمام ممبرز حیران و پریشان تھے کہ عمران کیا کہہ رہا ہے۔ انہیں اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ عمران کا یہ بیان سنتے ہی اماں بی اور ثریا وہاں سے اُٹھ کر کمرہ عدالت چھوڑ کر چلے گئے۔
"مسڑ جوزف اور جوانا کیا آپ بھی اپنا جرم قبول کریں گے؟" اس بار جج صاحب نے جوزف اور جوانا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
"جی ہم زیادہ کچھ نہیں کہیں گے ۔ جو ہمارے باس نے کہہ دیا وہی ہمارے لئے حرف آخر ہے۔ جب انہوں نے جرم قبول کرلیا تو ہم بھی کر رہے ہیں۔۔۔۔"جوانا نے جوزف اور اپنی طر ف سے مختصر جواب دیتے ہوئے کہا۔
"دی پراسیکیو شن رسٹس مائے لارڈ۔۔۔۔۔" وکیلِ استغاثہ کاشف حسین نے اپنا سر جھکاتے ہوئے اپنے دلائل ختم کرتے ہوئے کہا۔اس کے بعد جج صاحب نے سر کو ہلکی جنبش دی اور پھر اپنا قلم اٹھا کر وہ اپنا فیصلہ لکھنے لگے۔ دونوں وکیل اب ساتھ ساتھ کھڑے تھے اور اب فیصلے کی گھڑی پاس ہی آنے والی تھی۔ جج صاحب کوئی پانچ منٹ تک لکھتے رہے اور پھر گویا ہوئے۔
"ابھی ایک بجا ہے، میں نے فیصلہ لکھ کر محفوظ کرلیا ہے۔یہ عدالت وقفہ لے گی اور اب سے ٹھیک دو گھنٹے بعد اس کیس کا حتمی فیصلہ سنا دیا جائے گا۔۔۔۔۔۔۔" جج صاحب نے کہا اور پھر اُٹھ کر وہ کمرہ عدالت سے چلے گئے۔ جبکہ ان کے جاتی ہی باقی سب لوگ بھی کھڑے ہوگئے۔ کوئی دو گھنٹے کے وقفے کے بعد جج صاحب کمرہ عدالت میں اپنا فیصلہ سنانے آئے سب لوگ متوجہ ہوکر انہیں سننے لگے۔
"تمام گواہوں اور ثبوتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ، یہ فیڈرل کورٹ آف جسٹس اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ مسٹر علی عمران نے سرداور کا قتل اپنے حسد کی بنیاد پر کرکے پاکیشیا جیسی عظیم قوم پر بہت بڑا ظلم کیا ہے ۔ سر داور کو جس بے دردی سے قتل کیا گیا ہے ، یہ فیڈرل کورٹ آف جسٹس علی عمران کو بھی اتنا ہی بے دردی سے مارنے کا حکم دیتی ہے۔ علی عمران کو پرسوں یعنی جمعہ کی صبح چار بجے "پرانا قلعہ "میں سب سے پہلے دس منٹ تک برقی چیئر پر بٹھا کر اسے ہائی پاور الیکٹرک شاک دئے جائیں گے۔ پھر اسے وہاں سے اٹھا کرہینگ ٹِل ڈیتھ کردیا جائے گا۔
Mr. Ali Imran will be hanged Till Death. The court is adjourned now…."
جج صاحب نے ہتھوڑا مارتے ہوئے اپنا فیصلہ سنایا اور تیزی سے وہاں سے چلے گئے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
(جاری ہے)
Muhammad Jabran
About the Author: Muhammad Jabran Read More Articles by Muhammad Jabran: 47 Articles with 61263 views
I am M Phil Scholar In Media Studies. Previously, i have created many videos which are circulating all over Social Media.
I am the Author of thre
.. View More