علی عمران ہینگ ٹل ڈیتھ - پانچویں خاص قسط
(Muhammad Jabran, Lahore)
سربلیک کوبرا اِن ایکشن
ہوٹل سٹار ون میں اس وقت کافی گہما گہمی تھی۔ڈائننگ ہال میں ڈی جے راکی نے
خوب محفل سجائی ہوئی تھی۔ لوگوں کو اس کی ہلکے ہلکے میوزک میں دلفریب آواز
بہت بھلی لگ رہی تھی۔ جوزف بھی ڈائننگ ہال میں موجود تھا اور جام پر جام
پئیے جارہا تھا۔اسے اپنے باس علی عمران کا غم لگا ہوا تھا، جس نے اسے اندر
سے چور کردیا تھا۔وہ پیتا جارہا تھا اور بہتا چلا جارہا تھا۔ اس نے اپنے
باس سے وعدہ کیا تھا کے وہ آئندہ کبھی نہیں پئیے گا مگر اب وہ سب کچھ بھول
جانا چاہتا تھا۔صرف شراب میں مدہوش ہونا چاہتا تھا، کیونکہ شاید وہی اس کا
غم ہلکا کر رہی تھی ۔ آخر وہ بھی انسان تھا،اس کے بھی جذبات و احساسات
تھے،اسی میں ڈوب کر اس نے ایک بڑا گھونٹ حلق میں اتارا تو اس کی بوتل خالی
ہوگئی ۔ ویٹر اس کے لئے ایک اور بوتل لے آیااور اتفاق سے ڈی جے نے بھی غم
کے بارے میں مدہم موسیقی میں دل کو کاٹ کھانے والے فقرے کہے جو جوزف سمیت
دیگر لوگوں کے بھی وجود کو ہلا گئے۔
"دوستو ! غم اس جونک کا نام ہے جو ایک بار اگر انسان سے چمٹ جائے تو پھر اس
کے جسم کا پورا خون نچوڑے بغیر نہیں چھوڑتی۔ انسان کو غم اپنے محبوب کا بھی
ہوتا ہے، حالات کا بھی اور کبھی کبھار کسی "اپنے "سے پچھڑنے کا بھی ۔وہ
کوئی " اپنا "محبوب تو نہیں ہوتا مگر اس کا غم ہمیں اپنے محبوب کی جدائی سے
بھی زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ وہ ہمارا دوست بھی ہوسکتا ہے، ہمارا استاد بھی
اور کبھی کبھار ہمارے والدین میں سے بھی کوئی۔ غم ہماری زندگی کا ایک ایسا
لازمی جزو ہے جو ہر شخص کو زندگی میں ایک بار نہیں بلکہ باربار ہوتا ہے۔یہ
انسان کی روح کو تڑپاتا ہے، اس کو اندر سے رلاتا ہے اس کو جلا کر کوئلہ
کرتا ہے اور اسے خاک میں ملا دیتا ہے۔ غم کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کے یہ مر
د و عورت کی تقسیم میں پڑے بغیر دونوں کو یکساں محسوس ہوتا ہے۔ اس سے ہمیں
ایک اور بات بھی پتہ چلتی ہے اور وہ یہ کے یہ اندھا ہوتا ہے اور اس کی کاٹ
اور توڑ پھوڑ سب کے لئے برابر ہوتی ہے ۔ پھر انسان کو احساس ہوتا ہے کے اس
کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ۔ بے شک انسان کےہاتھ میں کچھ نہیں اگر یہ غم نہ
ہوتو انسان زمین پر خدا بن جائے اور غم ہی ہے جو بہت سوں کو احساس دلاتا ہے
کہ وہ صرف اپنے پروردگار کے سامنے محتاج اور اسی کے سامنے بے بس ہیں۔ بہت
سے لوگ زمین پر آئے جنہوں نے خدائی کا دعویٰ کیا مگر خدا نے ان کو بھی غم
دیا تاکہ انہیں بھی احساس ہو کے خدا صرف ایک ہے اور وہی معبود برحق ہے۔
کیونکہ ہمارے حقیقی خدا کو کبھی غم نہیں ہوتا وہ اس سے پاک ہے۔تو دوستو اس
مرض کا صر ف ایک ہی علاج ہے۔ خدا سے لو لگانا، اسی کے آگے جھکنا اور اسی سے
مدد مانگنا۔ بطور مسلمان ہمارا ایمان بھی یہی اور ہماری عبادت بھی یہی۔"
ڈی جے راکی کی بات ختم ہوتے ہی میوزک کی آواز ہلکی سی تیز ہوگئی اور جوزف
نے ایک اور گلاس ختم کر ڈالا۔ کچھ دیر بعد ایک اور میوزک کے ساتھ ڈی جے پھر
شروع ہوا:
"دوستو! غم کی بات ہورہی تھی، جس کے ساتھ میں زندگی کو جوڑتے ہوئے چند
الفاظ آپ کی نظر کروں گا۔۔۔۔۔۔ اگر زندگی کا کوئی مقصد نہ تو زندگی فضول
ہے۔ غم اور تکلیفیں انسان کی زندگی میں ساتھ ساتھ چلتے ہیں مگر ہمیں ان ہی
میں کھوئے رہ کر اپنا قیمتی وقت برباد نہیں کرنا چاہیے۔خدا نے انسان کو اگر
اس دنیا میں بھیجا ہے تو اس کے پیچھے کوئی مقصد ہے۔جس نے وہ مقصد پا لیا،
گویا اس نے زندگی گزارنے کی اصل وجہ تلاش کرلی۔خدا ظالم نہیں، وہ کبھی نہیں
چاہے گا کے اس کا بندہ زندگی اور آخرت میں ناکام ہوجائے۔ لحاظہ ہمیں اپنی
زندگی کے اوائل سے ہی اپنی زندگی کی راہ متعن کر لینی چاہیے۔زندگی بہت
قیمتی اور بہت تھوڑی سی ہے۔ یہ سگارکی اس راکھ کی طرح ہے جو آہستہ آہستہ
ضائع ہوکر ایش ٹرے میں جارہی ہے۔ بس فرق صرف اتنا ہے کے انسانوں کی ایش ٹرے
مٹی کی بنی ہوتی ہے جبکہ سگار اور سگر ٹ کی ایش ٹرے گلاس کی ہوتی ہے۔ ہم
چاہیں تو اپنی زندگی کو ون ویلنگ کرکے جوانی کے جوش میں آکر بربادکردیں۔
چاہیں تو مخلوق خدا کی مدد کر کے گزار یں اور اگر چاہیں تو کانوں میں ہینڈ
فری لگا کر گانے سنتے گزار دیں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ پس یہی فیصلہ ہم نے کرنا ہے اور
بہت سوچ سمجھ کر کرنا ہے ، خدا نے اختیار بھی ہمیں سونپ دیا ہے۔" ڈی جے
راکی نے اپنی بات ختم کی تو جوزف ایک اور بوتل ختم کرچکا تھا۔ اس کی آنکھیں
لال ہوگئیں تھی اور وہ ہلکا ہلکا جھول رہا تھا مگر پھر بھی اس کے ہوش و
حواس بحال تھے۔ اتنے میں ایک نہایت ہی خوب صورت مقامی نوجوان جس نے ڈارک
گرین کلر کا تھری پیس سوٹ اور شائنگ لائٹ کلر کی ٹائی لگائی ہوئی تھی ایک
دم سے جوزف کی ٹیبل پر ظاہر ہوا۔
"ہیلو مسٹر جوزف! سوری آپ کو میں نے ڈسٹر ب کیا، میرا نام عامر ہے اور مجھے
آپ سے ایک بہت ضروری کام ہے۔ کیا میں آپ کے قیمتی وقت میں سے تھوڑا سا ٹائم
لے سکتا ہوں؟۔۔۔۔" اس نے اپنا تعارف کروایا اور جوزف سے اس کی ٹیبل پر
بیٹھنے کی اجازت چاہی اتنے میں ویٹر آیا ایک بلیک ہارس کی بوتل سرو کی اور
چلا گیا۔ جوزف نے منہ اٹھا کر بغور اس کا جائزہ لیا اور پھر سر کے اشارے سے
اسے بیٹھنے کی اجازت دے دی۔ وہ نوجوان جس نے اپنا نا م عامر بتایا تھا
شکریہ کرتا ہوا اسکے سامنے بیٹھ گیا۔ جبکہ جوزف اس دوران بوتل کھول کر اسے
گلاس میں بھرنے لگا۔
"مسٹر جوزف آپ کا بے حد شکریہ کے آپ نے مجھے اپنے ساتھ بیٹھنے کی اجازت دی۔
دراصل مجھے ایکسٹو نے بھیجا ہے۔۔۔۔۔" عامر نے قدرے آگے جھکتے ہوئے ، نہایت
راز داری سے پختہ لہجے میں بات کی تو جوزف نے چونک کر اس کی جانب دیکھا۔
"مسٹر جوزف آپ تو جانتے ہیں کے علی عمران صاحب ان دنوں سخت مشکل میں ہیں
لحاظہ ایکسٹو کے انڈر کور ایجنٹ کی حیثیت سے آج کل میں ٹاپ سیکرٹ کام کررہا
ہوں۔اسی سلسلے میں انہوں نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے۔۔۔۔۔۔ ایک انتہائی ٹاپ
سیکرٹ چیز مجھے آپ کو دینی ہے۔ " عامر کا لہجہ آہستہ آہستہ بے حد پراسرار
ہوتا جا رہا تھا۔ جوزف اسے مزید غور سے دیکھنے لگا اس کی سمجھ میں کچھ نہیں
آرہا تھا۔
"مسڑ جوزف ابھی جو چیز میں آپ کو دینے والا ہوں وہ علی عمران صاحب کی زندگی
بچانے کے لئے آگے چل کر تُرپ کے پتے کا کام دے گی۔لحاظہ آپ نے اس کا خاص
خیال رکھنا ہے اور اس کی کانوں کان کسی کوخبر نہ ہو۔ میں امید کرتا ہوں کے
آپ میری بات پر بالکل ویسے ہی عمل کریں گے جیسے ایکسٹو نے مجھے ہداہت دی
ہے۔ وہی ہداہت میں آپ کو دوں گا۔۔۔۔۔" عامر نے اپنی بات مکمل کی اور پھر
اپنے کوٹ کی اندرونی جیب سے ایک "ڈی۔ وی ۔ڈی " نکال لی جس پر بلیک مارکر سے
"ٹاپ سیکرٹ" لکھا ہو تھا۔ اس نے وہ ڈی ۔ وی ۔ ڈی جوزف کے ہاتھ میں پکڑاتے
ہوئے کہا:
"اس کو آپ نے بالکل کھول کر نہیں دیکھنا ۔ یہ ڈی۔وی۔ ڈی وقت آنے پر کھلے گی
کیونکہ اس میں پاکیشیا کا ایک بہت بڑا راز ہے، جو علی عمران صاحب کی زندگی
بچانےکا ضامن بنے گا اور مجھے پورا یقین ہے کے ایکسٹو نے اگر آپ پر بھروسا
کیا ہے تو ضرور کوئی وجہ ہوگی ۔ امید ہے آپ انکے اعتماد کو ٹھیس نہیں
پہنچائیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔ کوڈ ۔۔۔ بلیک زیرو ۔۔۔" یہ کہتے ہی اس نے اپنی دائیں
آنکھ ہلکی سی دبائی اور پھر کرسی سے اٹھتا ہوا جوزف کے پہلو میں آیا، اس
کاکندھا دو تین بار تھپکایا اور وہاں سے چلا گیا۔
٭٭٭٭٭٭
انڈر ولڈ میں بھی ان دنوں علی عمران کی گرفتاری اور پرائم چینل کی نان سٹاپ
نشریات کا خوب چرچا تھا ۔ ٹائیگر بھی اپنے فلیٹ پر موجود ہونٹ چباتاہوا
پرائم چینل کی لائیو نشریات دیکھ رہا تھا اور اندر ہی اندر پیچ و تاب کھا
تے ہوئے سوچ رہا تھا کہ اس سارے ڈرامے میں اس کی انڑی کب ہوگی۔اسے میڈیا
والوں پر بھی سخت غصہ آرہا تھا کیونکہ جو ان کے دل میں آرہا تھا وہ بولے
چلے جارہے تھے۔ وہ احمد منیر کو خوب اچھی طرح جانتا تھا۔ اس سے کئی دفعہ
رسمی ملاقات بھی ہوچکی تھی۔ ایک پل کے لئے اس کے دل میں آیا کے اس کو اُٹھا
لے اور اس کی خوب چھترول کرکے اس کو سبق سکھا دے ۔ مگر ایسا ممکن نہیں تھا
یہ پرانا دور نہیں ، جہاں وہ جو کچھ مرضی کرلے کوئی پوچھنے والا نہیں
ہوتاتھا۔ احمد منیر پرائم چینل کے اسٹودیو میں بیٹھ کر اپنا تجزیہ پیش
کررہا تھا جبکہ اس کے ساتھ ایک وفاقی وزیر بھی بیٹھے ہوئے تھے۔اس لائیو
نشریات کو اینکر شازیہ ہوسٹ کررہی تھی ۔ احمد منیر وفاقی وزیر سے بحث کر
رہا تھا۔
"دیکھیں سر ، علی عمران گرفتا ر ہوچکا ہے، یہ ہمارے ہاتھ میں سنہری موقعہ
ہے کہ انصاف ہوجائے، اس سے قبل بھی کئی دفعہ مختلف موقعے آئے جب مجرم ہاتھ
میں آئے مگر کچھ بھی نہیں ہوسکا۔"
"احمد منیر صاحب ! آپ کی بات بالکل بجا ہے ، اسی لئے صدر صاحب نے ہائی لیول
میٹنگ کال کی ہے اور مجھے پوری امید ہے کے بہت جلد اہم فیصلے ہوجائیں
گے۔۔۔۔" وفاقی وزیر نے احمد منیر کو یقین دہانی کرائی۔
"سر صرف آپکی یقین دہانیوں سے کچھ ہونا ہوتا تو اب تک ہوچکا ہوتا۔ ویسے آپ
کا انٹیلی جنس والوں کی نااہلی کے بارے میں کیا خیال ہے؟ ان کو اطلاع ہونے
کے باوجود وہ سر داور کو نہیں بچا سکے۔ آپ کے خیال میں کیپٹن فیاض صاحب کو
اپنے عہدے سے مستعفی نہیں ہوجانا چاہیے ؟" احمد منیر نے ایک اور چھبتا ہوا
سوال کیا ۔
"دیکھیں ابھی تو وہ اس کیس کی انوسٹی گیشن کررہے ہیں،درمیان میں اس قسم کی
باتیں کرنا میرے خیال میں اس وقت مناسب نہیں ہوگا۔ ایک بار ان کی مکمل
رپورٹ آجانے دیں ہم ان کے اوپر ایک کمیشن بنا دیں گے جو یہ تعین کرے گا کہ
آیا انٹیلی جنس والے اس معاملے میں کتنے غیر ذمہ دار ثابت ہوئے ہیں۔" وفاقی
وزیر نے احمد منیر کے سوال کا جواب دیا تو احمد منیر وفاقی وزیر کی مزید
کلاس لینا ہی چاہتا تھا کے ایک دم اینکر شازیہ بول اُٹھی۔
"جی ناظرین ! پر ائم چینل کی آپ یہ پاکیشیا کی سب سے بڑی نشریات دیکھ رہے
ہیں۔ مجھے جانے کو تو بالکل دل نہیں کر رہا مگر کیا کریں ہمیں وقفہ بھی
لینا پڑتا ہے جو اس چینل کی ضرورت ہے۔کہیں مت جائیے گا خواتین و حضرات ایک
چھوٹا سا وقفہ اور وقفے کے بعد آکر ہم گفتگو کا پھر یہیں سے آغاز کریں گے"
اس کے ساتھ ہی ٹائیگر نے ایل سی ڈی کی آواز میوٹ کردی اور اپنا موبائل فون
اُٹھا کر انڈر ولڈ میں موجود اپنے خبری کے نمبر ڈائل کرنے لگا۔اس کا نام
وکی جیکسن تھا اور وہ پاکیشیا میں سب سے بڑے سینما ہاؤس "گولڈ وائٹ "کا
مالک تھا۔ بظاہر وہ یہ کام کرتا تھا مگر درپردہ اس کے انڈر ولڈ میں ذرائع
بہت وسیع تھے۔ اس نے اپنے خبریوں کا ایک پورا جال بچھایا ہوا تھا جو
پاکیشیا کے اہم اہم پوائنٹس پر موجود رہتا تھا۔ یہ دراصل بیس پچیس افراد کا
ایک نیٹ ورک تھا جواہم جگہوں پر موجود رہتا تھا اور طرح طرح کی خبریں اکھٹی
کرتارہتا تھا۔ وہ تمام خبریں اپنے باس وکی جانسن کو دیتے تھے اور پھر وہ
آگے ٹائیگر جیسے لوگوں کو مہنگے داموں سیل کردیا کرتا تھا۔ اس کا خفیہ گروہ
صرف معلومات اکھٹی کرنے تک ہی محدود رہتا تھا کہیں بھی کسی پنگے میں نہیں
پڑتا تھا اور نہ ہی کھبی کسی غیر قانونی کا م میں آج تک ملوث رہا تھا ، اس
کی معلومات بھی سو فیصدی درست ہوتی تھیں۔وہ بہت اصول پسند واقع ہو ا تھا
کبھی اپنے گاہک کو دھوکا نہیں دیتا تھا۔بس یہی بات ٹائیگر کو اس کی بہت
پسند تھی۔ ٹائیگر سے اس کا یارانہ پانچ برس پرانا تھا اور ایک بار ٹائیگر
نے اس کی جا ن ڈاکوؤں سے بچا ئی تھی جو اس کے سینما ہاؤس میں گھس آئے تھے
اور گن پوائنٹ پر اس کو لوٹنا چاہتے تھے مگر اتفاق سے ٹائیگر اس دن اسکے
آفس میں موجود تھا ۔ اس نے ڈاکوؤں کو مار مار کر ان کا بھرکس نکال دیا تھا
پس اسی دن سےوکی اس کا گرویدہ بن گیا تھا۔ لحاظہ وہ ٹائیگر سے اس دن کے بعد
کوئی پیسے نہیں لیتا تھا مگر ٹائیگر ہمیشہ اس کو اسکی محنت کا پورا صلہ
دیتا تھا اور وکی اکثر اسے کہاکرتا تھا کے کبھی مجھے بھی اپنی خدمت کا موقع
دے دو تو جواب میں ٹائیگر محض مسکرادیتا تھا۔ کال ملتے ہی دوسری طرف سے وکی
کی چہکتی ہوئی آواز آئی۔
"او میرے ٹائیگر یار بہادر کی کال آئی ۔۔۔۔۔ کیسے ہو یار ۔۔۔۔ بڑے عرصے بعد
ہماری یاد آئی۔۔۔۔"
"ہاں میں خیریت سے ہوں او ر ااس وقت ایک اتنہائی اہم پرابلم میں الجھا ہوا
ہوں۔ مجھے تمہاری سخت ضرورت ہے۔۔۔۔۔" ٹائیگر نے اپنے ماتھے کو کرچتے ہوئے
کہا
"حکم کرو یار بہادر! ہم تو تمہارے خادم۔۔۔۔۔"
"تم پرائم چینل کی لائیو نشریات دیکھ رہے ہو؟ احمد منیر کو جانتے ہو؟"
"ارے کیا بات کر رہے ہو ۔ ٹائیگر یار بہادر، جب سے یہ لائیو ٹرانس مشن شروع
ہوئی ہے ہم نے تو سونا ہی چھوڑ دیا ہے۔ہاں احمد منیر کو میں جانتا ہوں۔
کیوں حکم کرو اسے اٹھانا ہے کیا؟ " وکی نے آخری بات مذاق میں کی تھی ورنہ
یہ بات ٹائیگراچھی طرح جانتا تھا کہ یہ مرنے مانے اور اٹھانے والا کام یہ
نہیں کرتا۔
"نہیں اٹھانا تو نہیں ہے مگر یہ کافی بدک رہا ہے اور مجھے اس کی یہ اچھل
کود پسند نہیں۔۔۔۔۔۔ تم ذرا یہ معلوم کرو کے یہ گزشتہ ایک ہفتے سے کس کے
پاس اٹھتا بیٹھتا رہا ہے اور اس کے ارادے کیا ہیں۔ کیونکہ یہ جس طر ف جارہا
ہے وہاں اب صرف جنگ ہی ہوسکتی ہے اور کچھ نہیں۔"
"میں سمجھ گیا یار، تم بے فکر رہو، بس مجھے صرف ایک گھنٹہ دے دو میں اس کی
مکمل جنم کنڈلی نکال کر تمہارے سامنے رکھ دیتا ہوں۔" یہ کہتے ہی لائن ڈراپ
ہوگئی اب ٹائیگر کے لئے ایک گھنٹہ گذارنا مشکل ہوگیا تھا۔مگر اس نے جیسے
تیسے گذارہ تو وکی کال آگئی۔
"یار انتہائی سنسنی خیز معلومات ملی ہیں ، مگر بہت معذرت کے ساتھ نامکمل
ہیں لیکن جو ملی ہیں وہ سن لو۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ان دنوں انڈر ولڈ میں ایک نہایت ہی
پراسرار شخصیت آئی ہوئی ہے۔ کوئی نہیں جانتا کے اس کے ارادے کیا ہیں۔وہ
اپنے سائے سے بھی محتاط رہتا ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اس کے ذرائع
سرکاری سطح تک وسیع ہیں، اس کا یہاں کوئی راز دار نہیں ہے۔ ایک پل میں ایک
جگہ ہوتا ہے تو دوسرے پل میں دوسری جگہ ، بہت کم گو ہے زیادہ تراپنے کا م
سے کا م رکھتا ہے۔یہ احمد منیر اس کے ساتھ کئی بار دیکھا گیا ہے۔ نہ جانے
ان کا آپس میں رشتہ کس نوعیت کا ہے۔ بس اس سے زیادہ معلوم نہیں
ہوسکا۔۔۔۔۔۔۔"
"مگر یار اس کا کوئی نام وغیرہ بھی توہوگا اور احمد منیر اور اس کی آخر ی
ملاقات کہاں ہوئی تھی اور اس ملاقات کی کوئی خاص بات کوئی خاص کلیو؟"
"اس کے لئے مجھے دو گھنٹے کا وقت چاہیے ، امید ہے اس بار کامیابی ہوگی۔" یہ
کہتے ہی دوسری طرف سے پھر لائن کٹ گئی۔ٹائیگر نے وقت گذاری کے لئے اپنے
موبائل میں گزشتہ پیغامات پڑھنے شروع کردئیے۔جبکہ اس دوران ایل سی ڈی میوٹ
تھی۔ ایک گھنٹے بعد وہ بیزار ہوا تو اس نے موبائل ایک سائڈ پر رکھتے ہوئے
ریموٹ اٹھا کر چینل تبدیل کرنا شروع کردئیے۔ایک چینل پر آکر اس کی انگلی رک
گئی،یہ ایک انگریزی چینل تھا جس پر جیٹ لی کی بہت زبردست فائٹ مووی چل رہی
تھی۔ ۔۔۔۔دوسرا گھنٹہ ابھی گذرا نہیں تھا کے اس کاموبائل رنگ کرنے لگا۔ اس
نے موبائل اٹھا کر اس پر ایک بٹن پریس کیا اور کان سے لگا لیا۔
"یار مزید سنسنی خیز معلومات ملی ہیں اور امید ہے اس میں سے تمہارے لئے
لائن آف ایکشن مل سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ صحافی احمد منیر اور وہ پراسرار
آدمی، علی عمران صاحب کی گرفتاری والی رات، لیٹ نائٹ ہوٹل سٹار سی ون کے
ایک میٹنگ روم موجود تھے۔یہ تو پتہ نہیں چلا کے ان کی میٹنگ کس نوعیت کی
تھی مگر ایک بات جو قابل ذکر ہے اور وہ یہ کہ میٹنگ سے قبل ایک بڑا بریف
کیس اس پراسرار شخص کے ہاتھ میں تھا مگر میٹنگ کے بعد وہ بریف کیس احمد
منیر کے ہاتھ میں آگیا تھا اور دونوں وہاں سے الگ الگ رستوں پر ہو لئے تھے۔
بظاہر ان کا آپس میں رشتہ حیران کن طور پر پیر مرید والا لگتا ہے۔اس کے
علاوہ اس شخص کا نام تاحال معلوم نہیں ہو سکا سوری مجھے آدھا گھنٹہ اور دے
دو۔" یہ کہتے ہی پھر لائن ڈراپ ہوگئی۔ ٹائیگر کو کافی اہم کلیو مل گیا اور
وہ تھا ان کی ہوٹل سٹار سی ون میں آخری ملاقات والا۔ اس نے فیصلہ کر لیا
تھا کے اب وہ ایکشن میں آجائے کہیں ایسا نہ ہو کے دیر ہوجائے ۔ لحاظہ وہ
نہا کر اور بہترین تراش کا سوٹ پہن کر جوں ہی فارغ ہوا تب تک ٹونی کی کال
بھی آگئی۔
"یار مبارک ہو ! بہت بڑی کامیابی ملی ہے۔ اس پراسرار شخص کا نام اس کی
شخصیت کی طرح انتہائی پراسرار اور خطرناک ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "سر بلیک
کوبرا"۔۔۔۔۔ اور اس سے بھی زیادہ اچھی خبر یہ ہے کے ابھی کچھ دیر قبل اسے
ہوٹل سٹار سی ون میں ہی دیکھا گیاہے ۔ وہ ساتویں منزل پر اسنوکر کلب میں
موجود ہے اور ٹیبل نمبر دس پر تنہا ہی کھیل رہا ہے۔غضب کا پلئیر ہے سب لو گ
اسکی گیم دیکھ کر حیران ہورہے ہیں۔"
"شکریہ دوست ، تمہیں تمہاری محنت کا صلہ مل جائے گا۔۔۔۔ گڈ بائے " ٹائیگر
کی آنکھوں میں گہری چمک تھی۔اس نے فیصلہ کرلیا تھا کے آج وہ اس گیم کی
مسٹری کسی نہ کسی طرح حل کرلے گا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
ٹائیگر اس وقت ہوٹل سٹار سی ون کے اسنوکر کلب کے کاؤنٹر پر سگر یٹ پیتے
ہوئے گہری نظروں سے دور دس نمبر ٹیبل کی جانب دیکھ رہا تھا۔ اس وقت سر بلیک
کوبرا بہت ہی اسٹائلش لگ رہا تھا، وہ ڈارک بلیو کلر کے تھری پیس سوٹ میں
ملبوس تھا اور اس نے اپنے بالوں کو پیچھے سے باندھ رکھا تھا۔اس کا پورا
دھیان گیم کی جانب تھا اور ٹائیگر نے پورے ماحول کا جائزہ لے لیا تھا۔اس
وقت اگر سر بلیک کوبرا پر ہاتھ ڈالا جا تا تواسے کہیں سے بھی کسی قسم کی
مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑتا ۔ٹائیگر کا منصوبہ یہ تھا کے وہ پہلے اس کی
خوب ٹھکائے لگائے گا ، اسے بے ہوش کرے گا اور پھر اسے وہاں سے اٹھا کر اپنے
ایک خفیہ سپاٹ پر لے جائے گا۔ یہ میڈیا کا بندہ نہیں تھا لحاظہ اس پر ہاتھ
ڈالنا کو ئی مشکل نہیں تھا۔ اس نے سگریٹ ختم کی اور کاؤنٹر سے چلتا ہوا
دسویں ٹیبل کی جانب بڑھنے لگا۔اسے گزشتہ بیس سالوں سے انڈرولڈ میں فائٹنگ
کنگ سمجھا جاتا تھا بہت سے لوگ ٹائیگر کے خوف کی وجہ سے اپنا مکروہ دھندہ
بند کرکے پاکیشیا چھوڑ کرجاچکے تھے۔اس سے کوئی بھی خامخواہ پنگا نہیں لیتا
تھا۔
سر بلیک کوبرا بالکل سکون سے اپنی گردن جھکائے گیم کھیل رہا تھا۔ اسے تھوڑا
سا بھی انداز ہ نہیں تھا کہ انڈر ولڈ کی سب سے بڑی موت اس کے قریب چلتی
ہوئی آرہی ہے۔ٹائیگر نے اس کےپاس جاتے ہی سب سے پہلے اس کے گریبان میں ہاتھ
ڈال کر اسے اس کے کالر سے ایک جھٹکے سےسیدھا کیا ہی تھا کہ اس کی نظر سر
بلیک کوبرا کی آنکھوں پر پڑی اور اسے ایک پل کے لئے بالکل ہوش نہ رہا ،پس
وہی لمحہ اس پر بھاری ثابت ہوا۔ سر بلیک کوبرا نے اپنے سر کی مدد سے ایک
زوردار ٹکر اس کے ماتھے پر لگائی ، ٹائیگر کو یوں محسوس ہوا جیسا اس کے
ماتھے پر کسی نے ہتھوڑا دے مار ا ہو۔پھر سر بلیک کوبرا نے اپنادایاں گھٹنا
پوری شدت کے ساتھ اس کے پیٹ میں مارا اور وہ دہرا ہوگیا۔اس کے بعد دیکھتے
ہی دیکھتے وہ ایک دم سے اچھلا اور اپنا بایا ں گھٹنا پوری قوت سے ٹائیگر کی
ناک پر مارا اور ٹائیگر اڑتا ہوا ٹیبل کے اوپر بالز پر گرا اور پھرانہی
بالز کی مدد سے پھسلتا ہوا ٹیبل کی دوسری جانب الٹ گیا۔ سر بلیک کوبرا کی
آنکھوں میں آگ ہی آگ تھی۔ سب لوگ حیران تھے کے یہ سب کچھ پلک جھپکنے میں
کیسے ہوگیا اور کیا ہوگیا۔دیکھتے ہی دیکھتے سربلیک کوبرا نے اپنی اسنوکر
سٹک ایک طر ف پھینکی، پھر اپنا کوٹ اور ٹائی اتار کر ایک ایزی چیئر پر
رکھیں، جبکہ دوسری جانب ٹائیگر کی ناک پھٹ گئی تھی اور اس میں سے شدت کے
ساتھ خون رس رہا تھا۔لیکن ٹائیگر اپنی تکلیف کو برداشت کرتے ہوئے ،پھرتی کے
ساتھ ایک دم سے زمین سے اچھل کر کھڑا ہوگیا جیسے اس کی کمر پر اسپرینگ لگا
ہوا ہو۔
دوسرا منظر سب کے لئے مزید حیران کن تھا۔سر بلیک کوبرا ٹائیگر کے سامنے آکر
زمین پر پیٹ کے بل ایک دم سے گر گیا۔اس کی یہ حرکت ٹائیگر کے لئے بھی
انتہائی غیر متوقع تھی اسے سمجھ نہیں آیا کہ وہ ایک دم سے اس کے سامنے یوں
کیوں لیٹ گیا ہے ۔پھرسربلیک کوبرا نے اپنا سر اٹھا کر سانپ کی طرح پھنکارتے
ہوئے ٹائیگر کی جانب دیکھااور ایک دم سے وہ شُپ کی آواز کیساتھ اُڑتا ہوا
ٹائیگر کی جانب حملہ آور ہو ا۔ ٹائیگر نے ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں یہ
فیصلہ کیا کے سر بلیک کوبرا جوں ہی اس کے قریب آئے گا تو وہ اچانک ایک
سائیڈ پر ہو کر اس کی پشت پر کہنی مارے گا تاکہ سر بلیک کوبرا اپنے زور اور
کہنی کے وار سے اُڑتا ہوا سامنے والی دیوار سے جا لگے ۔مگر اس کی اور
دیکھنے والے دیگر لوگوں کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی اور ان کے منہ کھلے
کےکھلے رہ گئے جب سر بلیک کوبرا فضاء میں ہی تین بار لٹو کی طرح انتہائی
دلکش اندز میں گھوما اور اڑتے ہوئے اس نے ٹائیگر کی کنپٹی پر فلائنگ کک
لگائی جو ٹائیگر کے لئے آخری ہتھوڑا ثابت ہوئی ،وہ ایک دم سے کٹی ہوئی درخت
کی شاخ کی طرح زمین پر گرنے ہی والا تھا کہ سر بلیک کوبرا فضاء میں ہی ایک
بار پھر گھوما اور پلٹ کر اس کے الٹے بازو میں اپنا بازو پھنسا کر دو تین
مخصوص قسم کے جھٹکے دیئے اور کھٹک کھٹک کی آواز کے ساتھ ہی ٹائیگر کا بازو
ٹوٹ گیا ۔ ٹائیگر کی شاید زندگی میں پہلی بار چیخیں نکل گئیں۔ اب سر بلیک
کوبرا زمین پر تھا، اس نے صرف اسی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ وہ بازو چھوڑ کر
اس نے ٹائیگر کو ایک جھٹکے سے گھمایا اور اس کا دوسرا بازو بھی پکڑ کر اس
کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جو وہ پہلے کے ساتھ کر چکا تھا، اب ٹائیگر کا
دوسرا بازو بھی ٹوٹ چکا تھا مگر اس دفعہ اس کی جانب سے کوئی چیخ نہ نکلی۔
سر بلیک کوبرا نے ٹائیگر کو ایک سائیڈ پر پھینکا اور حقارت سے دوسری جانب
تھوکتے ہوئے وہ اپنے کوٹ اور ٹائی کی طرف بڑھ گیا۔
ٹائیگر شاید بے ہوش ہو چکا تھا مگر اب بھی مظلوم شکار کی طرح پھڑ پھڑا رہا
تھااور بلیک کوبرا نے اس سمیت اسنوکر کلب میں موجود سب کو یہ پیغام دے دیا
تھا کے اس کے گریبان کی جانب بڑھنے والے ہر اجنبی ہاتھوں کو وہ توڑ دیا
کرتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
(جاری ہے) |
|