علی عمران ہینگ ٹل ڈیتھ - تیسری قسط

بریکنگ نیوز

سرسلطان اپنے آفس میں نہایت بے چینی کے عالم میں ٹہل رہے تھے۔ ان کے ماتھے پر شکنوں کا جا ل پھیلا ہوا تھا۔ انہیں رات والے سر عبدالرحمان اور کیپٹن فیاض کے خفیہ آپریشن کی اطلاع مل چکی تھی ۔سر داور کے نہایت سفاکانہ قتل اور علی عمران کا موقعہ واردات پر رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کا شدید غم تھا۔اس آپریشن کی مکمل رپورٹ صدر صاحب تک بھی پہنچ چکی تھی اور انہوں نے اس پر گہرے غم و غصے کا اظہار بھی کیا تھا۔ توقع تھی کے وہ بہت جلد ایک اعلیٰ سطحی اجلاس طلب کرتے ،جس میں ایکسٹو کی شمولیت بھی ممکن تھی۔
سرسلطان کو اس میں کوئی بہت ہی گہری سازش نظر آرہی تھی اور انہیں اس بات کا بھی اندیشہ تھا کہ جب یہ رپورٹ میڈیا پر لیک ہوگی یا سینٹرل انٹیلی جنس بیورو والے خود پریس کانفرنس کرکے اطلاع دیں گے تو میڈیا نہ جانے کیسا طوفان کھڑا کردے گا اور اس کے بعدپورے ملک میں ایک ہیجانی کیفیت پیداجائے گی۔عمران نےجواپنی پوری زندگی لگا کر پاکیشیاسیکرٹ سروس جیسے معتبر ادارے کو کھڑا کیا تھا کہیں وہ سب کچھ ہی خاک میں نہ مل جائے۔ سرداور کی موت کی خبر کو بہت دیر تک دبایا نہیں جاسکتا تھا۔کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی ٹائم پربات کھلنی ہی تھی اور پھرعمران پر میڈیا ٹرائل شروع ہوجانا تھا۔ اس کی خوب کردار کشی ہونی تھی ۔ جس کی زد میں آکر کوئی بھی بچ نہیں سکتا تھا۔ عمران اُس کشش ثقل کا نام تھا جس سے بہت سے لوگ جڑے ہوئےتھے۔بہت سے گھرانے اور ادارے اس سے وابستہ تھے۔ عمران اس مالا کا نام تھا جس نے سب کو ایک لڑی میں پرویا ہوا تھا۔ سب کچھ تہس نہس ہوجانا تھا، یہ صرف اکیلےعمران کی نہیں بلکہ پورے پاکیشیا کی شکست ہوتی۔ اس وقت پاکیشیا کی سلامتی کوشدید خطرہ لاحق تھا۔
پھر پاکیشیا سیکرٹ سروس پر انگلیاں اُٹھتیں، اس کے چیف ایکس ٹو پر طر ح طرح کے سوالات اُٹھا ئے جاتے ۔ یہ بات اب چھپ نہیں سکتی تھا۔ حالانکہ عمران کے بارے میں کسی کو یہ مکمل پتہ نہیں تھا کے وہ سیکرٹ سروس کے لئے کس حیثیت سے کام کرتا ہے ۔ مگر یہ اکیسویں صدی کا میڈیا اور چینلز کا دور تھا اس سے کچھ چھپا نا کا فی مشکل تھا۔
عمران اس وقت انٹیلی جنس والوں کی کسٹڈی میں تھا، جبکہ سر داور کی لا ش کا پوسٹ ماٹم بھی انٹیلی جنس والوں کی فورنسک ٹیم کر رہی تھی۔ابھی تک سر داور کی فیملی کو سرداور کے قتل کے حوالے سے کوئی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔ تمام معاملات کا کنٹرول اس وقت انٹیلی جنس والوں کے ہاتھ میں تھا اور اس کیس کی انوسٹی گیشن کیپٹن فیاض خود کررہا تھا جبکہ اس کی نگرانی براہ راست سر عبدالرحمان کے ہاتھوں میں تھی۔سرسلطان کی خواہش تھی کے کسی طرح سے ان پر ایکسٹو کی طرف سے دباؤ ڈلوا کر یہ کیس سیکرٹ سروس کو ٹرانسفر کرالیا جائے۔ مگر بظاہر ایسی صرف خواہش رکھی جاسکتی تھی ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا تھا۔
وہ بلیک زیروسے بار ہا رابطہ کرنے کی کوشش کررہے تھے مگر اس کی جانب سے تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا تھا۔ تنگ آکر انہوں نے بلیک زیرو کے پرسنل نمبر پر ٹیکسٹ میسج بھی بھیج دیا ۔ انہیں مزید تشویش لاحق ہوگئی تھی، اسی وجہ سے وہ اپنی کرسی سے اُٹھ کر ٹہلنے لگے تھے۔
سر داور ان کے فیملی فرنڈ تھے اور ان کی آپس میں کافی بے تقلفی تھی ۔بے پناہ مصروفیات کے باوجود وہ انکے یہاں کبھی کبھار ویک اینڈ پر پہنچ جایا کرتے تھے اور انہیں ان کی لیباٹری سے نکال کر پاکیشیا کے سب بڑ ے کنگزگالف کلب لے جایاکرتے جہاں پر گالف کورس میں ہلکی پھلکی گیم ہوجایا کرتی تھی۔ دوپہر کے کھانے میں فاسٹ فوڈ ہوتا تھا جو وہ وہیں رسٹورنٹ پر کھا کر گھر روانہ ہوجاتے تھے۔ وہ دنوں کنگز کلب کے وی آئی پی ممبر تھے، ا ن کے ساتھ فُل پرٹوکول بھی ہوتا تھا جو گھر سے گا لف کلب اور پھر گالف کلب سے گھر تک ساتھ ساتھ چلتا تھا۔ بس اب یادیں ہی باقی رہ گئی تھیں، جو موم بتی کی لو کی طرح آہستہ آہستہ اند ر ہی اندر پگھل رہیں تھیں۔
٭٭٭٭٭٭٭
پرائم نیوزچینل کے نیوز اسٹوڈیو میں اس وقت اینکر شازیہ کلیم اپنے ساتھی اینکر اجمل جامی اور دیگر اسٹاف کے ساتھ کیمرے کے پیچھے موجودگرما گرم بحث کر رہے تھے ۔ ہائی کوالٹی کیمرے آن تھے جو اسٹوڈیو کی مختلف زاویوں سے منظر کشی کر رہے تھے۔ پھر اینکر شازیہ ایک اسٹائل سے چلتی ہوئی کیمرے کے سامنے آکر کھڑی ہوگئی جبکہ اس دوران اس کی بیک گراؤنڈ اسکرین میں بہت بڑا پرائم چینل کا لوگو بار بار فلیش ہورہا تھا۔
"پرائم چینل پر اب تک کی سب سے بڑی خبر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" اینکرشازیہ نے سنسنی خیز انداز میں چیختے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔
"پھر اس کا ساتھی اینکر ایک دم سے کیمرے پر ظاہرہوا اور اس نے اس سے زیادہ سنسنی خیر اندازاختیار کرتے ہوئے کہا:
"جی ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب سے بڑی خبر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ناظرین آپ کو ہم پرائم چینل پر اب تک کی سب سے بڑی اور تہلکا خیز خبر دینے والے ہیں جسے سن کر آپ کے ہوش اڑ جائیں گے۔۔۔۔۔۔۔ اب تک کی سب سے بڑی بریکنگ نیوز۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ " پھر وہ خاموش ہوا اور شازیہ نے مزید سنسنی پھیلاتے ہوئے ہسٹریائی انداز میں چیختے ہوئے کہا:
"جی ہاں۔۔۔ کل رات پاکیشیا کے سب سے بڑے اور نیشنل لیول کے سائنسدان سر ڈاکڑ داور کو نہایت ہی بے ہیمانہ انداز میں انکی کوٹھی میں شہید کردیا گیا۔۔۔۔۔۔" وہ خاموش ہوئی تو اسکے بیک گراؤنڈ میں سر داور کی تصویر فلیش ہونے لگی ، پھر اس کا ساتھی اینکر اجمل جذباتی انداز میں چیخا:
"جی ہاں پاکیشیا کا اثاثہ ۔۔۔۔۔۔۔ پاکیشیا کی شان ۔۔۔۔۔ پاکیشیا کی جان ۔۔۔۔۔۔جس نے پاکیشیا کو ناقابل تسخیر بنایا کل رات انہیں نہایت بے دردی کیساتھ شہید کردیا گیا۔۔۔۔۔ " وہ خاموش ہوا اور اس دوران سر داور کی دوسری فوٹو بیک گراؤنڈ پر فلیش ہوئی اور پھر اینکر شازیہ بولی۔
"جی ہاں وہی سر داور جس نے پاکیشیا کے لئے لاتعداد خدمات سرانجام دیں۔ ان کو کل رات ایک ظالم نے خنجروں کے وار کرکے سفاکانہ انداز میں شہید کردیا۔۔۔۔۔۔" اس دوران سر داور کی ایک اور فوٹو گردش کرتی ہوئی بیک گراؤنڈ پرطلوع ہوئی۔
"جی ہاں پاکیشیا کے تین دفعہ کے نیشنل پرائڈ ونر ۔۔۔۔۔۔ اب اس دنیا میں نہیں رہے اور ان کو شہید کرنے والے درندے قاتل کا نام سن کر آپکو اپنے کانوں پر یقین نہیں آئے گا۔۔۔۔ جی ہاں بالکل یقین نہیں آئے گا۔۔۔۔۔۔ اور قاتل بھی ایسا جو رات ہی رنگے ہاتھوں گرفتار کرلیا گیا۔۔۔۔۔۔۔ ان کا بے رحم قاتل اور کوئی نہیں ڈائریکٹر جنرل آف پاکیشیاسینٹرل انٹیلی جنس بیورو سر عبدالرحمن کا بیٹا علی عمران ہے ۔۔۔۔۔" اس کے ساتھ ہی پس منظر میں عمران اور سر عبدالرحمان کی دو بڑی تصاویر نظر آنے لگیں۔
"جی ہاں اور انتہائی حیران کن بات یہ ہے کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی گرفتاری بھی سر عبدرالرحمان کی سربراہی میں ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔۔ اس بارے میں مزید تفصیلات جاننے کے لئے ہم رخ کریں گے سر داور شہیدکی کوٹھی کاجہاں پر اس وقت پرائم چینل کے معروف کرائم بیورو چیف احمد منیر صاحب موجود ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جی احمد مینر صاحب بتائیے گا۔۔۔ کیا تازہ ترین اطاعات ہیں اس وقت آپ کے پاس۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
یہ کہتے ہی اینکر شازیہ گھومی اور اپنا رخ بیک گراؤنڈ اسکرین کی جانب کرلیا۔ اس کے ساتھ ہی اسکرین درمیا ن سے پھٹی اور اس پر اگلا منظر روشن ہوگیا جو سرداور کی کوٹھی کا بیرونی حصہ تھا۔ ان کے پھاٹک پر احمد منیر ایک بڑا سا مائیک لیکر کھڑا تھا جس پر پرائم چینل کا ایک بہت پیارا لوگو لگا ہوا تھا۔ جبکہ اس کے پیچھے ایک پیلے رنگ کی پٹی لگی ہوئی تھی جس پر انگریزی زبان میں ایک عبارت لکھی ہوئی تھی:
"Crime Scene Do not Cross”
کوٹھی کا پھاٹک بند تھا، جبکہ دروازے پر انٹیلی جنس کے چند اہلکار سول وردی میں موجود تھے۔احمد منیر جو اپنے کانوں میں موجود آلے کی مدد سے اسٹوڈیو کی نشریات سن رہا تھا اس نے شازیہ کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا:
"جی شازیہ میں اس قت سر داور کی کوٹھی کے باہر کھڑا ہوں۔کل رات یہاں صبح صادق سے پہلے سر داور کو نہایت بری طرح سے شہید کیا گیا، اس شہادت کا مرکزی ملزم علی عمران بھی موقعہ واردات سے دھر لیا گیا۔ یہ خفیہ آپریشن کیپٹن فیاص صاحب نے سرعبدلرحمان صاحب کی سربراہی میں کیا۔ اس وقت پوری عمارت کو انٹیلی جنس کے افسران نے ا پنے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ انٹیلی جنس کے اندرونی ذارائع کے مطابق آج کسی بھی وقت سرعبدالرحمان صاحب اور کیپٹن فیاض صاحب مشترکہ پریس کانفرنس بھی کریں گے ۔ جس میں وہ میڈیا کورات والے انتہائی سنسنی خیز آپریشن پر بریفنگ دیں گے۔ بتایا جا تا ہے کے یہ مرکزی ملزم علی عمران انتہائی شاطر اور خطر ناک انسان ہے اس کے کئی خفیہ بینک اکاؤنٹس ہیں۔ جبکہ اس کے تعلقات اوپر سرکاری سطح پر بھی بہت گہرے ہیں۔ یہ پاکیشیا سیکرٹ سروس کے لئے بھی خفیہ طور پر کام کرتا رہتا ہے۔ البتہ اس کے کام کی نوعیت جاننے کے لیے پرائم نیوز کی کرائم ٹیم لگاتار انوسٹی گیشن کر رہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ علی عمران انڈرولڈ میں بھی کافی اثرورسوخ رکھتا ہے۔ اس کے ایک اشارے پر پتے ادھر سے اُدھر ہوجاتے ہیں۔ یہ شاطر انسان انتہائی خفیہ زندگی گزارتا ہے۔ کیپٹن فیاض صاحب سے بھی اس کی ذاتی مراسم ہیں اور اس حوالے سے میڈیا کو وہ بہتر بریف کرسکتے ہیں۔۔۔۔۔ جی شازیہ۔۔۔۔ "احمد منیر نے اپنی بات ختم کی اور پھر شازیہ کو مخاطب کیا
"جی احمد منیر صاحب یہ صدر صاحب بھی کوئی اس حوالے سے ایکشن لیں گے اور کیا اب تک انہیں اس کی رپورٹ مل چکی ہے؟ "
"جی شازیہ ۔۔۔۔۔۔ صدر صاحب کو اس حوالے سے بالکل رپورٹ مل چکی ہے انہوں نے گہرے غم و غصے کا اظہار بھی کیا ہے ، انہوں نے کہا ہے کہ علی عمران کو کسی طور پر چھوڑا نہ جائےاور وہ بہت جلد اس بارے میں ایک بہت اہم اعلان بھی کرنے والے ہیں۔ اس حوالےصدر صاحب کوئی بہت ہی اعلیٰ سطح کا اجلاس بھی بلا سکتے ہیں۔ جی شازیہ ۔۔۔۔۔۔"
"بہت بہت شکریہ احمد صاحب آپ نے ہمیں بہت اہم خبریں دیں اور ہم یہاں اسٹوڈیو میں بھی اپنے ناظرین کو لمحہ بہ لمحہ باخبر رکھیں گے۔بہت شکریہ سر ہم آپ سے پھر رابطہ کریں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی ہم اپنے ناظرین کو بتاتے چلیں کے ہم نے اس بہت اہم خبر پر پاکیشیا کی سب سے بڑی لائیوٹرانس مشن کا اہتمام بھی کر نے جارہے ہیں جس میں ہم اپنے ناظرین کے سامنے مختلف تبصرے اور تجزیے پیش کریں گے۔ جبکہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم آپ کو بھی اپنی اس سب سے بڑی براہ راست نشریات کا حصہ بنائیں۔
آپ اپناموبائل فون اُٹھائیے اور ہمیں سرداور کی شہادت اور ان کی شہادت کا باعث بننے والے ظالم اور درندہ صفت ملزم علی عمران کو کیا سزا ملنی چاہیے اس حوالےسے اپنی رائے کا اظہار کریں اور ہمیں ایس ایم ایس پر پی این سی (پرائم نیوز چینل ) اسپیس اپنا نام ، اپنے شہر کا نام اور اپنا پیغام لکھ کر تھری ٹو ڈبل زیرو پر بھیج دیں۔۔۔۔۔"
٭٭٭٭٭٭٭
صفدر، کیپٹن شکیل ،تنویر اور صدیقی اس وقت جولیا کے فلیٹ میں موجود چوڑی ایل سی ڈی پر پرائم چینل کی لائیوٹرانس مشن دیکھ رہے تھے۔ جولیا شدید غصے میں تیز تیز چل رہی تھی اور تنویر رہ رہ کر طنز کر رہا تھا۔ جبکہ صفدر، کیپٹن شکیل ، اور صدیقی بھی کبھی کبھی تھوڑا سا بول لیتے تھے۔
"آخر چیف اس خبر پر نوٹس لیکر پرائم چینل کو شٹ اپ کال کیوں نہیں دیتے؟؟" جولیا نے سختی سے ہونٹ چباتے ہوئے کہا۔
"جولیاوہ آخر کیوں لیں نوٹس؟ جو سچ ہے وہی بتایا جارہا ہے۔ میں جانتا تھا عمران منحوس ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑے گا۔ خود تو ذلیل ہوگا ساتھ میں ہماری بھی شامت آجانی ہے۔" تنویر نے منہ بناتے ہوئے جولیا کی بات کا جواب دیا۔
"بکو مت ۔۔۔۔ " جولیا نے تنویر کو گھورتے ہوئے کہا۔
"مس جولیا ! آپ کی پریشانی بجا ہے ، میڈیا کو سرعام یہ سب کچھ نہیں کرنا چاہیے کوئی میڈیا کے اخلاقیات بھی ہوتے ہیں۔ ۔۔" صدیقی نے تشویش بھرے لہجے میں کہا۔
"پاکیشیا میڈیا اتھارٹی کے نام سے ایک ادارہ ہے وہ سب چینلز کو مونیٹر کرتا ہے۔مگر معلوم نہیں وہ کہاں غائب ہے۔ پرائم نیوز چینل کے آگے کسی کی نہیں چلتی۔۔۔" صفدر نے صدیقی کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔"عمران کی حرکتیں جب ایسی ہونگی تو کون میڈیا والوں کو روکے گا۔ یہ سب کچھ اسی کی وجہ سے ہورہا ہے آیا بڑا ذہین فطین بننے والا۔۔۔۔" تنویر نے جل بھن کر عمران پر پھر تنقید کے نشتر چلائے۔
"مگر ہمیں اب کچھ نہ کچھ ضرور کرنا ہوگا۔ ایسے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر میڈیا کی یہ لائیو ٹرانس مشن نہیں دیکھ سکتے۔مجھے ضرور کوئی بہت بڑی سازش لگ رہی ہے، میں چیف سے بات کرتی ہوں، ہمیں اب ایکشن میں آنا ہوگا۔۔۔۔۔"
"مس جولیا اگر چیف نے کچھ کرنا ہوتا تو وہ اب تک کرچکے ہوتے ۔ مجھے لگتا ہے چیف پاکیشیا سیکرٹ سروس کی عزت کی خاطر عمران صاحب کو قربان کردیں گے۔" کیپٹن شکیل جو اب تک بالکل خاموش بیٹھا تھا اس نے ایک دم سے چونکا دینے والا انکشاف کیا جس نے سب لوگوں کو حیران ہونے پر مجبور کردیا۔
"مگر میں ایسا نہیں ہونے دوں گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " جولیا نے ایک سے دم تڑپ کر بولا۔ پھر دوسرے لمحے اسے شاید احساس ہوا تو اس نے بات بنائی۔ " کیونکہ وہ ہمارا ساتھی ہے۔ ہم نے ایک ساتھ وقت گذار ہے ، ہم ایسے کیسے عمران کو مرنے دے سکتے ہیں۔ میں چیف کو کال کرکے قائل کرنے کی پوری کوشش کروں گی۔"
"مرنے دو اسے ، پنگے وہ لے اور جب پھنس جائے تو خام خواہ کی مصیبت ہمارے گلے میں پڑ جائے۔ یہ کہا ں کا انصاف ہے ،چیف نے جو سوچا ہے بالکل درست سوچا ہے۔۔۔۔"
"بکواس مت کرو۔ تم دو چار منٹ ، اپنی زبان بند نہیں رکھ سکتے۔۔۔۔ " جولیا نے جھلاتے ہوئے کہا اور تنویر نے برا منہ بنا تے ہوئے اپنا چہرہ پھیر لیا۔
"مس جولیا ! ہمارے بھی آپ جیسے تاثرات ہیں ۔ عمران صاحب کو اس مشکل کی گھڑی میں سے ہمیں ضرور نکالناہوگا۔ اتنا عرصہ ان کے ساتھ کام کرنے کے بعد ہم یہ مان ہی نہیں سکتے کے سر داور کو انہوں نے قتل کیا ہے۔ اس کے پیچھے ضرور کوئی بہت گہری چال ہے اور ہمیں اسی چال کو بے نقاب کرنا ہے اور اس سب کے پیچھے موجود جو ماسٹرمائنڈ ہے ہمیں اسے بھی سب کے سامنے لا نا ہوگا۔ مگر کیسے ؟ یہ ملین ڈالر سوال ہے ۔۔۔"
صفدر نے کہا اور سب اس کی گفتگو سننے کے بعد گہری سوچ میں ڈوب گئے۔۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭
Muhammad Jabran
About the Author: Muhammad Jabran Read More Articles by Muhammad Jabran: 47 Articles with 56768 views
I am M Phil Scholar In Media Studies. Previously, i have created many videos which are circulating all over Social Media.
I am the Author of thre
.. View More