ایندھن کی عدم دستیابی کے باعث 17 اکتوبر کو اندرون ملک 13 جبکہ 11 بین الاقوامی پروازیں منسوخ ہوئی ہیں جبکہ 18 اکتوبر کو 16 بین الاقوامی پروازیں اور 8 اندرون ملک پروازیں منسوخ ہوئی ہیں۔ مگر اس کی وجوہات کیا ہیں؟
کراچی میں کارپوریٹ شعبے کی ایک کمپنی میں کام کرنے والے نوید قریشی نے منگل کی شام سات بجے پاکستان کی قومی ایئر لائن پی آئی اے کی اسلام آباد سے کراچی جانے والی فلائٹ میں ٹکٹ بک کرائی تھی۔
اسلام آباد میں ضروری امور نمٹا کر وہ پرواز کی روانگی سے ایک گھنٹہ قبل اسلام آباد ایئر پورٹ پہنچ گئے تاہم وہاں انھیں پتا چلا کہ پی آئی اے کی شام سات بجے کی فلائٹ تاخیر کا شکار ہے۔
ائیر لائن کے عملے سے معلوم ہونے پر پتا چلا کہ فلائٹ کی روانگی کے نئے وقت کا ابھی تعین نہیں کیا گیا۔ نوید قریشی کو کراچی واپس گھر پہنچنا تھا تاہم ان کی اسلام آباد سے کراچی روانگی تاخیر کا شکار تھی۔
نوید کے مطابق ان کا انتظار طویل ہوتا گیا کیونکہ رات بارہ بجے تک فلائٹ کے جانے کے کوئی آثار نظر نہیں آئے۔ انھوں نے بتایا کہ یہ فلائٹ بدھ کی صبح دو، ڈھائی بجے کراچی کے لیے روانہ ہوئی اور وہ صبح چھ بجے اپنے گھر پہنچ پائے۔
نوید نے بتایا کہ فلائٹ کی روانگی میں تاخیر کی جو وجہ انھیں بتائی گئی وہ طیارے کے لیے ایندھن کی عدم فراہمی تھی۔ ان کے مطابق منگل کی رات کو بارہ بجے جب تاریخ تبدیل ہوئی تو پھر طیارے کے لیے فیول کا انتظام کیا گیا جس کے بعد یہ اسلام آباد سے کراچی کے لیے روانہ ہوا۔
نوید کے مطابق پرواز میں تاخیر سے انھیں بے حد ذہنی کوفت اور اذیت ہوئی کیونکہ اسلام آباد میں سارے دن کی مصروفیت کے بعد انھیں کراچی گھر پہنچنا تھا جو وقت پر نہ ہوسکا۔
تاہم نوید ایسے اکیلے مسافر نہیں۔ پی آئی اے کی پروازوں سے سفر کرنے والے اندرون و بیرون ملک مسافروں کوپروازوں میں تاخیر کی وجہ سے کئی گھنٹوں تک انتظار کرنا پڑ رہا ہے یا پھر پرواز منسوخی کی وجہ سے وہ دوسری ایئر لائنوں کے آخری وقت میں مہنگے ٹکٹ خریدنے پر مجبور ہیں۔
پی آئی اے کی پروازیں منسوخ یا تاخیر کا شکار کیوں ہیں؟
پی آئی اے کی گذشتہ کئی دنوں سے اندرون و بیرون ملک پروازوں کی منسوخی یا ان میں تاخیر کی وجہ سے ایئر لائن کے طیاروں کے لیے ایندھن کی عدم فراہمی ہے۔
پی آئی اے کے اعلامیے کے مطابق اس کی پروازیں تاخیر کا شکار ہیں اور کچھ منسوخ بھی کر دی گئی ہیں۔ پی آئی اے نے کہا کہ پاکستان سٹیٹ آئل (پی ایس او) کی جانب سے اسے روزانہ کی بنیادوں پر محدود پیمانے پر ایندھن سپلائی کیا جا رہا ہے جو پروازوں میں تاخیر یا ان کی منسوخی کی وجہ بن رہا ہے۔
ترجمان پی آئی اے نے بتایا کہ ایندھن کی عدم دستیابی کے باعث 17 اکتوبر کو اندروں ملک 13 پروازیں جبکہ 11 بین الاقوامی پروازیں منسوخ ہوئی ہیں۔ 12 پروازوں کی روانگی میں تاخیر ہوئی ہے۔
ترجمان نے بتایا کہ ایندھن کی فراہمی کی موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے پی آئی اے نے 18 اکتوبر کو 16 بین الاقوامی پروازیں اور آٹھ اندرون ملک پروازیں منسوخ کر دیں جبکہ چند پروازوں کی آمد و رفت میں تاخیر متوقع ہے۔
انھوں نے کہا کہ فلائٹ آپریشن میں خلل کی وجہ سے اب مزید ایک، دو روز تک پروازیں تاخیر کا شکار ہوسکتی ہیں۔
پی آئی اے کے طیاروں کو ایندھن دستیاب کیوں نہیں؟
پی آئی اے کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ پروازوں میں تاخیر یا ان کی منسوخی کی وجہ ایندھن کی کم سپلائی ہے جس کی وجہ ایندھن کے لیے ادائیگیوں میں کچھ تاخیر ہے۔
ان کے مطابق پی ایس او نے کہا ہے کہ واجبات کلیئر کریں جس کے بعد ایندھن فراہم کیا جائے گا جس کے بعد طے ہوا کہ پی آئی اے پی ایس او کو ہر روز دس کروڑ روپے کی ادائیگی کرے گی۔ مگر اب اس رقم کو مزید بڑھایا جا رہا ہے جو یومیہ 15 کروڑ روپے ہوگی۔
انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ایندھن کی کم فراہمی کی وجہ سے پروازیں منسوخ اور تاخیر کا شکار ہوئی ہیں تاہم اس معاملے کو پی ایس او کے ساتھ دیکھا جا رہا ہے تاکہ فلائٹ آپریشن کو ہموار بنایا جا سکے۔
ادھر ترجمان پی ایس او کے مطابق ان کے ادارے نے پی آئی اے کے طیاروں کے لیے ایندھن کی سپلائی کو کبھی نہ روکا۔
ترجمان نے بتایا کہ آٹھ اکتوبر سے لے کر سترہ اکتوبر تک پی ایس او کی جانب سے پی آئی اے کو ایک ارب 85 کروڑ روپے کا ایندھن فراہم کیا گیا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں پی ایس او کو ملنے والی ادائیگی ایک ارب دس کروڑ روپے ہے۔
انھوں نے کہا کہ آج بدھ کے روز پی آئی اے کی جانب سے 15 کروڑ روپے کی مزید رقم پی ایس او کو وصول ہوئی ہے۔ ’ہم دونوں اداروں کے درمیان ایک ایسا حل چاہتے ہیں جو مسائل حل کر سکے۔‘
قصور وار کون؟
پی آئی اے اور پی ایس او دونوں حکومتی تحویل میں چلنے والے ادارے ہیں۔ دونوں کے درمیان ایندھن کی ادائیگیوں کے سلسلے میں تنازع کا خمیازہ عام مسافر برداشت کر رہے ہیں۔
دونوں کے درمیان ادائیگیوں کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کراچی میں مقیم ایوی ایشن امور کے سینیئر صحافی جاوید اصغر چوہدری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں قصور پی آئی اے کا ہے جو پی ایس او کو ایندھن کی ادائیگی نہیں کر پا رہی۔
انھوں نے بتایا کہ پی آئی اے نے 26 ارب پی ایس او کو دینے تھے جسے حکومت کی جانب سے مداخلت کے بعد منجمد کر دیا گیا۔
انھوں نے بتایا کہ یہ طے ہوا تھا کہ روزانہ کی بنیادوں پر ادائیگی کی جائے گی تاہم اس سلسلے میں بھی اب پی آئی اے کے ذمے واجبات ڈیڑھ ارب روپے سے زائد ہو گئے ہیں۔
جاوید نے پی آئی اے کی ’نان پروفیشنل انتظامیہ‘ کو اس کا قصور وار ٹھہرایا جو پروفیشنل انداز میں ادارے کو چلانے سے قاصر ہے۔
جاوید نے کہا حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ سوموار کے روز تو اندرون ملک کوئی پرواز روانہ ہی نہیں ہو سکی تھی۔ انھوں نے اس خیال کو مسترد کیا کہ پی آئی اے کی نجکاری مسئلے کا حل ہے۔
’حکومتی ضمانت کے باوجود کوئی ادارہ پی آئی اے کو قرض دینے کو تیار نہیں‘
پی آئی اے کی جانب سے ایندھن کی قیمت ادا نہ کرنے کی وجہ ادارے کا بڑھتا ہوا مالی خسارہ ہے جس میں گذشتہ کچھ عرصے میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور ادارے کی جانب سے واجبات کی ادائیگی کے سلسلے میں مشکلات بڑھی ہیں۔
پی آئی اے کی جانب سے جاری مالی رپورٹ کے مطابق 2023 کے پہلے چھ مہینوں میں اس کا مالی خسارہ 60 ارب 71 کروڑ روپے رہا ہے جو گذشتہ سال کے پہلے 6 ماہ میں 41.31 ارب روپے تھا۔
سنہ 2023 کے پہلے 6 ماہ میں روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے پی آئی اے کو 27.45 ارب روپے کے نقصانات ہوئے جبکہ سنہ 2022 کے پہلے 6 ماہ میں ایکسچینج کے نقصانات 13.85 ارب روپے تھے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا سنہ 2023 کے پہلے 6 ماہ میں فیول اور آئل کی مد میں 48.34 ارب روپے خرچ ہوئے جبکہ یہی رقم گذشتہ مالی سال کے اسی دورانیے میں 30.78 ارب روپے تھی۔
پی آئی اے کے بڑھتے خسارے کی وجہ سے نگران حکومت کی جانب سے اس کی نج کاری کا اعلان حالیہ دنوں میں کیا گیا ہے۔
نگران وزیر نجکاری فواد حسن فواد کے مطابق کوئی مالیاتی ادارہ پی آئی اے کو وفاقی حکومت کی ضمانت پر بھی قرضہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔
انھوں نے کہا پی آئی اے کی نجکاری کے لیے کوئی حتمی تاریخ طے نہیں کی گئی ہے تاہم اس کی جلد سے جلد نج کاری کے لیے کوشش کی جائے گی۔
ادھر پی آئی اے کی جانب سے اس کی پروازوں میں تاخیر یا ان کی منسوخی کے بعد مسافروں کے لیے کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں اس کے بارے میں ترجمان پی آئی اے نے بتایا پرواز میں تاخیر پر عملہ مسافروں کی دیکھ بھال کے لیے موجود ہوتا ہے اور اس کی جانب سے مسافروں کو کھانے کے اوقات میں کھانا اور چائے فراہم کی جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر تاخیر کی وجہ سے کوئی مسافر متبادل پرواز چاہتا ہے تو اسے متبادل پرواز کے لیے ٹکٹ دے دیا جاتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ اِسی طرح پرواز کی منسوخی کی صورت میں ٹکٹ کی رقم مسافر کو ری فنڈ کر دی جاتی ہے۔