’عرب کہاں ہیں؟ عرب کہاں ہیں؟‘ یہ وہ سوال ہے جسے غزہ کے باسی بار بار پوچھ رہے ہیں اور اس بات پر حیران ہیں کہ ان کے عرب ہمسایہ ممالک اسرائیلی بمباری کے خلاف ان کا دفاع کیوں نہیں کر رہے؟
’عرب کہاں ہیں؟ عرب کہاں ہیں؟‘
یہ وہ فقرہ ہے جو اسرائیلی بمباری سے تباہ حال عمارتوں کے ملبے سے زندہ بچ نکلنے والے، اپنے ہاتھوں میں مردہ بچے اٹھائے اور بے بسی سے کیمرے کے سامنے چیختے غزہ کے ہر شخص کے منھ سے ادا ہوتا ہے۔
غزہ کے باسی بار بار پوچھ رہے ہیں اور اس بات پر حیران ہیں کہ ان کے عرب ہمسایہ ممالک اسرائیلی بمباری کے خلاف ان کا دفاع کیوں نہیں کر رہے؟
گذشتہ برس سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد سے تمام نظریں مشرق وسطیٰ پر لگی تھیں اور سب کے ذہن میں یہ سوال تھے کہ اسرائیل کی جانب سے ردعمل کتنا شدید اور طویل ہو گا؟ اور خطے کے عرب ممالک کے عوام اور حکومتیں کیا ردعمل دیں گی؟
آج تک پہلے سوال کا کوئی حتمی جواب نہیں مل سکا: اسرائیلی بمباری نے غزہ کی پٹی میں تباہی برپا کر دی اور اب تک 42500 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں لیکن اس کے تھمنے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔
دوسرے سوال کے جواب کا کچھ حصہ واضح ہے، اگر کوئی یہ توقع رکھتا ہے کہ عرب دنیا کے دارالحکومتوں میں بڑے پیمانے پر احتجاج یا مظاہرے ہوں گے تو انھیں مایوسی ہو گی۔ اگرچہ عرب ممالک کی آبادی کی بڑی تعداد کی حمایت اور جذبات فلسطین کے ساتھ یکجہتی کے ہیں لیکن ان ممالک میں مظاہروں کو محدود رکھا گیا۔
قاہرہ میں امریکی یونیورسٹی کے پولیٹکل سائنس کے پروفیسر ولید قاضیہ نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ’جہاں تک عرب ممالک کی حکومتوں کا تعلق ہے تو ان کا ردعمل یا تو بہت کمزور یا مایوس کن رہا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اسرائیل پر روایتی تنقید یا قطر اور مصر کی حکومتوں کی جانب سے اس تنازعے میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کے علاوہ کسی نے بھی فلسطینیوں کا ساتھ نہیں دیا۔
ولید کہتے ہیں کہ کسی بھی عرب ملک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات ختم نہیں کیے یا کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھایا جس سے اسرائیل پر سفارتی یا معاشی دباؤ بڑھتا یا اس جنگ کو روکنے میں مدد ملتی۔
مگر خطے میں فلسطین کے مسئلے نے اپنی اہمیت کیوں کھو دی۔ مشرق وسطی کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سوال کا جواب پیچیدہ ہے۔
عوامی رائے عامہ اور حکومتوں کے درمیان عدم تعلق
عرب ممالک کی تاریخ میں عربوں نے ایک شناخت، ایک زبان، اور بڑی حد تک ایک مذہب کے ساتھ ساتھ اپنے شناخت کو جوڑا لیکن خطے میں یورپی نوآبادیاتی اثرات سے پیدا ہونے والے خدشات بھی موجود رہے ہیں لیکن ان ممالک کی حکومتوں کے مفادات بھی ایک دوسرے سے متضاد رہے ہیں۔
فلسطینیوں اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات بھی آسان نہیں رہے، خاص طور پر ان کے ساتھ جنھوں نے 1948 میں اسرائیل کی ریاست کے اعلان کے بعد بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کو خوش آمدید کہا۔
لبنان کی خانہ جنگی اور فلسطینی عسکریت پسندوں اور اردنی بادشاہت کے درمیان جھڑپیں بعض اوقات خطے کی متضاد تاریخ کی یاد دلاتی ہیں۔
لیکن مسئلہ فلسطین کئی دہائیوں سے عرب ممالک کے لیے متحد ہونے کا عنصر بھی تھا۔
دوحہ انسٹیٹیوٹ فار گریجویٹ سٹڈیز میں پبلک پالیسی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر تیمور قرموت نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ’اس عرصے کے دوران اسرائیلی ریاست کو سابقہ نوآبادیاتی طاقتوں کی توسیع کے طور پر دیکھا گیا۔ جو مشرق وسطیٰ سے دستبردار ہو گئی تھیں لیکن اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اسرائیل کو ایک ایجنٹ کے طور پر چھوڑدیا گیا تھا جن میں برطانیہ، فرانس اور اب امریکہ شامل ہے۔‘
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ماضی میں اسرائیل کے خلاف مصر، شام اور اردن جیسے ممالک نے جو جنگیں لڑی ہیں ان میں قومی مفادات کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کا بھی دفاع کیا گیا۔
تاہم وہ جنگیں اب ماضی کی بات ہیں۔ مصر اور اردن نے دہائیوں قبل اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ مراکش، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے جبکہ چند سال پہلے تک خطے میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو ناپسندیدگی سے دیکھا جاتا تھا۔
سعودی عرب بھی سات اکتوبر میں عزہ اور اسرائیل کے جنگ کے آغاز سے قبل اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے قریب پہنچ چکا تھا۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں نازرین سینٹر فار اسرائیل سٹیڈیز کے ڈائریکٹر ڈو ویکس مین کے مطابق ’کئی دہائیوں سے اور حالیہ تنازعہ کے آغاز سے لے کر آج تک ہر عرب ملک نے اپنے اپنے مفادات کی پیروی کی۔ وہ فلسطینیوں کی حمایت اور یکجہتی کی بات کرتے ہیں، اور ایسا نہیں کہ یہ جذبات حقیقی نہیں ہیں لیکن وہ اپنے قومی مفادات کو دیکھتے ہیں۔‘
چیٹم ہاؤس میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ پروگرام کے محقق الہام فخرو کہتے ہیں کہ عرب دنیا میں عوامی رائے اسرائیل کے سخت خلاف ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’عرب ممالک کے عوام کے دل میں غزہ کے تباہ حال شہریوں کے لیے بہت ہمدردی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کی حکومتیں فلسطینیوں کے لیے کچھ زیادہ کریں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے ممالک اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کر دیں، اور کم از کم ردعمل دیتے ہوئے سفارت کاروں کو ان کے ممالک سے نکال دیا جائے۔‘
لیکن یہ اب تک نہیں ہوا۔
واشنگٹن ڈی سی میں عرب سینٹر تھنک ٹینک میں ریسرچ اینڈ اینالیسس کے ڈائریکٹر عماد ہارب کے مطابق ’عرب حکومتوں نے فلسطینیوں کو کافی عرصہ پہلے چھوڑ دیا تھا۔‘
عرب دنیا میں مزاحمتی تحریک
تیمور قرموت کے نزدیک یہ ایک اہم موڑ تھا جس نے خطے کی پوری صورتحال کو بدل کر رکھ دیا: وہ عوامی بغاوت جس نے 2010 اور 2012 کے درمیان مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کو ہلا کر رکھ دیا تھا اسے ’عرب سپرنگ‘ کہا جاتا ہے۔
قطر کی یونیورسٹی کے پروفیسر کہتے ہیں کہ ’اس کے بعد سے صورتحال یکسر تبدیل ہو گئی اور ان بغاوتوں کی ناکامی نے خطے کو عدم استحکام کا شکار کر دیا۔ بہت سے ممالک اب بھی خانہ جنگی میں پھنسے ہوئے ہیں، جیسے یمن، شام یا عراق۔ شام اور عراق جو دو سیاسی نظریات کے حامل مرکزی اور طاقتور ملک تھے اور امریکہ کو چیلنج کر سکتے تھے آج منظرنامے سے غائب ہو چکے ہیں۔ لیبیا غائب ہو گیا، مصر اقتصادی عدم استحکام میں جبکہ سوڈان خانہ جنگی میں پھنسا ہوا ہے۔‘
قرموت مذمت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اس مستقل بحران کی حالت میں عرب معاشرے فلسطینیوں کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہوئے بے بس محسوس کرتے ہیں، وہ خود ظالم آمریتوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ عرب دنیا افسوسناک حالت میں ہے، لوگوں کے پاس عزت کے ساتھ جینے کی آزادی یا صلاحیت یا آرزو نہیں۔‘
اس کے باوجود، فلسطینوں کے حق میں سماجی ردعمل حکومت کے مقابلے میں بہت زیادہ طاقتور رہا حالانکہ یہ بنیادی طور پر سوشل میڈیا پر رہا ہے۔
عرب سپرنگ کے بعد سے خطہ کے بہت سے ممالک کی سڑکیں ایسی سرگرمیوں کے لیے محدود ہو گئی ہیں۔ جہاں آمرانہ حکومتوں نے کبھی فلسطینیوں کے دفاع میں مظاہروں میں لوگوں کو مایوسی کا اظہار کرنے کی اجازت دی تھی، وہیں آج انھیں خدشہ ہے کہ اس طرح کے مظاہروں سے کچھ اور ہو جائے گا۔
لیکن ان ہنگامہ خیز برسوں میں صرف یہی چیز نہیں بدلی، جب لاکھوں لوگ عرب تیونس، مصر، لیبیا، شام، بحرین اور مراکش جیسے ممالک میں جمہوریت اور سماجی حقوق کا مطالبہ کرنے سڑکوں پر نکل آئے۔
تیمور قرموت کہتے ہیں کہ ’عرب سپرنگ واقعی ایک زلزلہ تھا اور اس نے بہت سے ممالک کے حالات اور ترجیحات کو بدل دیا۔ کچھ پرانی حکومتیں ختم ہو گئیں اور دوسروں نے سوچا کہ ان کے ساتھ بھی ایسا ہونے جا رہے ہیں، اس لیے وہ گھبراگئے، دائیں بائیں دیکھا اور تحفظ تلاش کیا۔ بہت سے لوگ اس خیال میں مبتلا ہو گئے کہ امریکہ انھیں یہ کہہ کر بیوقوف بنا رہا ہے کہ اسرائیل، خطے میں اس کا اتحادی ہے جو ان کی حفاظت کر سکتا ہے۔‘
عرب سپرنگ کے چند سال بعد ہی جب ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر تھے، امریکہ کی ثالثی کے تحت بحرین اور متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا معاہدہ کیا۔ اس معاہدے میں بعد ازاں مراکش اور سوڈان بھی شامل ہوئے تھے۔
اس کے جواب میں امریکہ کی جانب سے جواب دینے میں زیادہ دیر نہیں لگی اور واشنگٹن نے مغربی صحارا پر مراکش کی خودمختاری کو تسلیم کیا، جو کہ خود ارادیت پر ریفرنڈم کو ناممکن بنا دیتا ہے۔
ولید کہتے ہیں کہ ’جب ہم ان ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو دیکھتے ہیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ اس کے تحت اسرائیل نے انھیں ایسے نگرانی کے نظام بیچیں ہیں جو یہ اپنے عوام کی خفیہ نگرانی کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘
اسرائیلی کمپنی این ایس او گروپ کے تیار کردہ پیگاسس پروگرام کا استعمال کرتے ہوئے جاسوسی کے مبینہ واقعات نے مراکش، متحدہ عرب امارات اور بحرین حتیٰ کہ سعودی عرب کو بھی متاثر کیا حالانکہ اس کے اسرائیل کے ساتھ سرکاری تعلقات نہیں۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق ریاض نے یہ پروگرام 2017 میں خریدا تھا اور اگلے سال استنبول میں سعودی قونصل خانے میں سعودی مخالف صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد اس تک رسائی کھو دی تھی۔
تاہم ولی عہد محمد بن سلمان نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کو فون کیا جس کے بعد وہ اس سافٹ ویئر تک دوبارہ رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
اسلامی انتہا پسندوں کا خوف
قومی مفادات کے علاوہ ایک اور چیز جس نے عرب ممالک کو مسئلہ فلسطین سے دور رہنے پر مجبور کیا وہ تھا اپنے اپنے ممالک میں اسلام پسند ملیشاؤں کا عروج۔
پروفیسر ولید قاضیہ کے مطابق 1967 کی جنگ کے بعد اور یاسر عرفات کی قیادت میں فلسطینی مزاحمت کی پہلی لہر کو قوم پرست تصور کیا جا سکتا ہے مگر آج کی مزاحمت زیادہ تر مذہبی بنیادوں پر ہیں۔
’جو لوگ آج مسئلہ فلسطین کے لیے لڑ رہے ہیں وہ بنیادی طور پر اسلام پسند ہیں، چاہے حماس ہو یا حزب اللہ، جن کے تصورات اسلام سے آتے ہیں، جیسے کہ شہادت۔‘
حماس کے اسلامی تنظیم اخوان المسلمون کے ساتھ تعلقات (جو خطے کی کئی حکومتوں کے ساتھ تصادم میں شامل ہے) کا مطلب ہے کہ ان میں سے بہت سی حکومتیں حماس کو ایک خطرے کے طور پر دیکھتی ہیں۔
قرموت کہتے ہیں کہ ’وہ حماس کو اخوان المسلمون کے آخری گڑھ کے طور پر دیکھتے ہیں جو اب بھی قائم ہے اور یہ عسکری طور پر مضبوط ہے۔‘
دوحہ انسٹیٹیوٹ کے پروفیسر نے مزید کہا کہ اسرائیل ایک طرح سے حماس کو تباہ کر کے اپنا گھناؤنا کام کر رہا ہے۔
ایران کے کردار پر تشویش
حماس اور حزب اللہ کے ایران کے ساتھ روابط بھی عرب ممالک میں شکوک و شبہات کو جنم دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر خلیجی ریاستوں کے لیے ایران اسرائیل سے بڑا خطرہ ہے۔
قرموت کا کہنا ہے کہ بہت سی عرب حکومتوں نے ’اسرائیلی اور امریکی بیانیہ کو اپنایا کہ یہ تحریکیں خطے میں ایران کے ہتھیار ہیں اور یہ فلسطینیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے علاقائی امن کے منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لیے بنائی گئی ہیں۔‘
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ وہ بیانیہ ہے جسے عرب دنیا میں زیادہ تر سرکاری پریس نے بڑھاوا دیا، ایک ایسا خطہ جہاں شاید ہی کوئی آزاد میڈیا ہو۔
پروفیسر ولید قاضیہ کہتے ہیں کہ ’سعودی میڈیا کے لیے مثال کے طور پر، بنیادی تشویش فلسطینیوں کی نہیں بلکہ یہ ہے کہ ایرانی کس طرح خطے پر کنٹرول حاصل کر رہا ہے۔‘
قرموت اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اگرچہ اب حماس کو ایران سے حمایت اور مالی معاونت حاصل ہے لیکن جب اس فلسطینی گروہ کا قیام ہوا تھا تب اس کے متعدد عرب ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات تھے لیکن بعدازاں اب ممالک کو اس تحریک کی بڑھتی طاقت سے خدشات پیدا ہو گئے تھے۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’جب ان کے لیے عرب ممالک نے اپنے دروازے بند کر دیے تھے اور کوئی بھی انھیں اسرائیل سے لڑنے کے لیے ہتھیار نہیں دینا چاہتا تھا۔ تو وہ انھیں حاصل کرنے کے لیےکچھ بھی کر گزرنے کے لیے تیار تھے۔‘
یہی بات حزب اللہ اور دیگر گروپوں کے لیے بھی ہے جو ایران سے حمایت حاصل کرتے ہیں لیکن فلسطینیوں کا دفاع بھی کرنا چاہتے ہیں۔
ولید قضیہ کہتے ہیں کہ ’جب ایران کو ان کے حمایتی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے تو عرب عوام اب تصویر میں نہیں آتے اور میرے خیال میں کچھ عرب تحریکیں ہیں جو حقیقی طور پر فلسطینیوں کی حمایت کرنے اور ان کے لیے جان دینے کو تیار ہیں جیسے کہ حزب اللہ، حوثی یمن اور عراق میں کچھ شیعہ تحریکیں۔‘
نسل در نسل تبدیلی
جیوسٹریٹیجک مفادات اور عرب ممالک کے بحران کے علاوہ مسئلہ فلسطین کو بھی وقت گزرنے کے ساتھ فراموش کر دیا گیا۔ وہ تصورات جو کبھی مشرق وسطیٰ کے دلوں کو دھڑکاتے تھے، جیسے عرب قوم پرستی اب محض ماضی کی بازگشت ہیں۔
قرموت وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’خطے کی زیادہ تر نوجوان نسل فلسطینیوں سے ہمدردی رکھتی ہے لیکن وہ تنازعات کی وجوحات اور اصل کو نہیں جانتی کیونکہ یہ چیزیں اب سکولوں میں نہیں پڑھائی جاتی ہیں۔ آج معاشرہ حتیٰ کہ شناخت بھیگلوبلائزیشن کے ساتھ بدل چکی۔‘
ایسا ہی کچھ نئے رہنماؤں کے ساتھ ہوا۔
قرموت کا کہنا ہے کہ ’خلیجی ممالک میں مثال کے طور پر، سعودی عرب میں محمد بن سلمان جیسے لیڈروں کی پوری نئی نسل موجود ہے، جو زیادہ تر مغرب میں تعلیم یافتہ ہیں، جو عرب نہیں اور فلسطین کو ایک مسئلہ کے طور پر نہیں دیکھتے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اب ان کی ترجیحات کے ساتھ ساتھ ان کے عزائم بھی مختلف ہیں۔‘