پاکستان کی تاریخی فتح: چار فیکٹرز جس نے ایک ہاری ہوئی ٹیم کو فاتح بنا دیا

image
پاکستان کی آسٹریلیا کے خلاف غیر معمولی کامیابی میں چار فیکٹرز بہت اہم ہیں۔ سب سے بڑا کپتان کی تبدیلی ہے۔ ثابت ہو گیا کہ ایک مثبت جارحانہ اپروچ والا کپتان ٹیم کی کارکردگی کو یکسر بدل سکتا ہے۔

محمد رضوان نے ایسے ہی کیا ہے۔ محسوس ہی نہیں ہو رہا کہ پچھلا پورا سال یہی ٹیم بہت بری وائٹ بال کھیلتی رہی اور مسلسل ہارتی رہی۔ ورلڈ کپ میں بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

محمد رضوان نے بڑی عمدہ کپتانی کی، لیڈنگ فرام دی فرنٹ۔ بیٹنگ میں بھی انہوں نے وکٹ پر ٹھہرنے اور رنز کرنے کی کوشش کی لیکن سب سے زیادہ فرق ان کی کپتانی نے  ڈالا۔ بولنگ میں بروقت  تبدیلیاں،اچھی  فیلڈ پلیسنگ ،اپنے بولرز کو اچھے طریقے سے استعمال کرنا اور ٹیم کو متحد کر دینا۔

پچھلے سال ہی بابراعظم کو جب ورلڈ کپ ہارنے کے بعد کپتانی سے ہٹایا گیا تھا، تب ہی محمد رضوان کو کپتان بنانا چاہیے تھا۔ شاہین شاہ آفریدی کو کپتان بنانا غلطی تھی۔ وہ پری میچور کپتان بنائے گئے، اس سے ٹیم میں گروپنگ پیدا ہوئی، انتشار پھیلا اور بہت سارے مسائل ہوئے۔

پھر شاہین شاہ آفریدی کو ہٹا کر بابراعظم کو کپتان بنانا ایک بلنڈر تھا۔ انہی بلنڈرز کی وجہ سے پاکستان وائٹ بال کرکٹ میں بہت بری کارکردگی دکھاتا رہا، بہت برے نتائج ملے۔

  اب لگتا ہے کہ وائٹ بال کرکٹ میں کپتانی کا مسئلہ حل ہو گیا محمد رضوان کو سپورٹ کرنا چاہیے اور ان کو ایک لمبے عرصے کے لیے، کم از کم سال دو سال کے لیے مستقل طور پہ کپتان بنا دینا چاہیے۔

 دوسرا بڑا فیکٹر ٹیم کے متحد ہو کے کھیلنے کا ہے۔ پچھلے سال  ویسٹ انڈیز اور امریکہ میں پاکستان جو ورلڈ کپ ہارا، اس میں کوئی ایک ٹیم کھیل ہی نہیں رہی تھی۔ یوں لگ رہا تھا دو تین مختلف دھڑے ہیں جو کھیل رہے ہیں اور کئی بار تو یوں محسوس ہوتا کہ یہ ایک دوسرے کو ناکام بنانے کی خاطر کھیل رہے ہیں۔ مقصد فتح نہیں  دوسرے دھڑے کو شکست سے دوچار کرنا ہے۔

  اس بار ٹیم میں کوئی دھڑا نہیں متحد ہوکر کھیل رہے ہیں رضوان بابر شاہین حارث سب ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے مکمل اتفاق کے ساتھ کھیل رہے ہیں اور یہ بہت اہم فیکٹر رہا۔ فیصلہ کن فیکٹر ثابت ہوا۔         

کچھ  کریڈٹ کرکٹ بورڈ کو بھی دینا ہوگا۔ انہوں نے پلیئرز پاور کو توڑا اور نئے کپتان کو اور  ٹیم کو سپورٹ کیا۔  یہ بات بہرحال ماننا پڑے گی، کسی کو اچھا لگے یا برا لگے۔  کرکٹ بورڈ مینجمنٹ نے ابتدا میں سنگین غلطیاں کیں، کمزور  سلیکشن کمیٹی بنائی، اس میں وہاب ریاض  کو وسیع اختیار دیا۔ اس سلیکشن کمیٹی نے ورلڈ کپ کے لئے کوئی اچھی ٹیم سلیکٹ نہیں کی۔ عامر اور عماد وسیم کی ٹیم میں واپسی کرائی مگر ان کو لانے سے پہلے کپتان بابر کے ساتھ مناسب مطابقت پیدا نہیں کرائی۔

  دوستی طرف  اعظم خان جیسے فٹنس کے مسائل سے دوچار کھلاڑی اور شاداب خان جیسے آؤٹ آف فارم کھلاڑی کو سلیکٹ کیا۔ ورلڈ کپ کے لئے جانے والی ٹیم بیلنس نہیں تھی، گیری کرسٹن تب کوچ تھے، ان کی رپورٹ میں ہے کہ ٹیم میں گروپنگ واضح تھی۔ 

بابرا عظم کی مختصر اننگز  بہت زیادہ پراعتماد لگی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

یہ تمام  تجربے ناکام ہوئے، پاکستان کی ورلڈ کپ میں کارکردگی نہایت مایوس کن رہی۔

کرکٹ بورڈ کا کریڈٹ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے غلط فیصلوں پر ڈٹے رہنے کے بجائے اپنی غلطیوں کی اصلاح کی اور رائیٹ پرسن فار دا رائیٹ جاب کی پالیسی بنائی۔ عاقب جاوید اور اظہر علی کو سلیکشن ٹیم میں لانا اچھا فیصلہ تھا۔ عاقب جاوید کو اختیار دیا گیا تو انہوں نے سپن ٹریک بنا کر انگلینڈ جیسی مضبوط ٹیم کو شکست فاش سے دو چار کیا گیا۔

آسٹریلیا ٹور کے لیے بھی اچھی بیلنس ٹیم بنائی گئی۔ محمد حسنین کو ڈومیسٹک پرفارمنس پر ٹیم میں واپس لایا گیا۔ عبداللہ شفیق اور صائم ایوب پر اعتماد کیا گیا۔ کامران غلام کو بھی موقع ملا۔ عرفان نیازی کو ساتھ رکھا جبکہ بعض نئے کھلاڑیوں کو بھی شامل کیا گیا۔     

پاکستان کی غیر معمولی جیت کے پیچھے  تیسرا اہم فیکٹر یہ ہے کہ کھلاڑیوں نے بھی اپنے اپ کو تبدیل کیا، اچھا پرفارم کیا اور اپنی جگہ بنانے کی کوشش کی۔ دراصل  ان کو یہ اندازہ ہو گیا کہ اب اگر وہ پرفارم نہیں کریں گے تو ٹیم سے باہر نکالے جائیں گے۔ صرف ماضی کی کارکردگی پر وہ ٹیم میں نہیں رہ سکتے۔ یہ وہ سبق ہے جو کرکٹ بورڈ  اور ٹیم مینجمنٹ کو بہت پہلے کھلاڑیوں کو دے دینا چاہیے تھا۔ انگلینڈ کے خلاف دوسرے ٹیسٹ سے بابر اعظم، شاہین شاہ افریدی اور نسیم شاہ کو ڈراپ کرنا بہت اہم اور بڑا فیصلہ تھا۔اس نے بتا دیا کہ اب کوئی پلئیرز پاور نہیں چلے گی۔ جو اچھا کھیلے گا، صرف اسی کی جگہ ہے۔               

لگتا ہے یہ بات شاہین شاہ افریدی کو اچھی طرح ذہن نشین ہوئی، حارث روف نے یہ بات سیکھی اور دیگر کھلاڑیوں کو بھی اپنی پرفارمنس پر ایک بار نظر ثانی کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ فخرزماں کو سالانہ کنٹریکٹ ملنا چاہیے، اسے ٹیم میں شامل ہونا چاہیے، چیمپینز ٹرافی کے پلان میں فخر ضروری ہے، لیکن فخر کے تنقیدی ٹوئٹ پر لیے جانے والے سخت ایکشن نے بہرحال یہ بتا دیا کہ اب ٹیم میں کوئی مقدس گائے نہیں، کوئی سپر پلیئرنہیں۔

جو ڈسپلن کی خلاف ورزی کرے گا، وہ اس کی قیمت ادا کرے گا۔ ایک اضافی فائدہ یہ ہوا کہ فخر کے نہ ہونے سے عبداللہ شفیق اور صائم کو پورا موقعہ ملا اور انہوں نے اپنے ٹیلنٹ کو اپلائی کرتے ہوئے جگہ بنانے کی کوشش کی۔ ایڈیلیڈ اور پرتھ کی باؤنسی اور مشکل پچ پر پاکستانی اوپنرز کا اچھا لمبا سٹینڈ دینا معمولی بات نہیں۔ صائم ایوب نے سیٹ ہونے کے بعد آخری دونوں میچز میں بڑے شاٹس بھی کھیلے، شاندار چھکے لگائے ۔عبداللہ شفیق بھی اچھا کھیلا، اس کی فارم میں کسی حد تک واپسی ہوئی ہے۔ مجھے تو بابرا عظم کی مختصر اننگز بھی پراعتماد لگی ہیں۔ ہدف کم ہونے کے باعث بابر لمبی اننگز نہیں کھیل سکا مگر ایڈیلیڈ اور پرتھ میں بابر نے بڑے شان کے ساتھ وننگ شاٹ کھلا۔ امید ہے کہ ٹی ٹوئنٹی سیریز میں بابر کو زیادہ کھیلنے کا موقعہ ملے گا۔     

  اس بار ٹیم میں کوئی دھڑا نہیں متحد ہوکر کھیل رہے ہیں رضوان بابر شاہین حارث سب ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے مکمل اتفاق کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

  اس سیریز کی ایک بڑی اہم بات پاکستان کے بعض اہم کھلاڑیوں کی واپسی ہے۔ شاہین شاہ افریدی کی بولنگ کو دیکھنا ایک بہت ہی دلچسپ اور خوشگوار امر رہا۔ اپ اندازہ لگائیں کہ وسیم اکرم جیسا عظیم بالر اگر شاہین شاہ افریدی کی بولنگ کو دیکھ کے اش اش کر رہا ہے، خوش ہو کر کمنٹری میں بتا رہا ہے کہ کس طرح عمدہ  ان سوئنگر کے ساتھ ساتھ بہت اچھا آؤٹ سوئنگ  کرانا شاہین نے سیکھ لیا ہے۔ ایک ہی سیم پوزیشن میں بہت ہی اچھے طریقے کے ساتھ گیند کو اندر لا رہا ہے اور اسی انداز میں گیند کو باہر نکال کے مخالف بلے بازوں کو پریشان کر رہا ہے۔ اس سے پہلے شاہین شاہ کی گیند اندر تو اچھے سےآتی تھی، مگر اچھا آوٹ سوئنگ وہ نہیں کرا پاتے تھے، ویسے تو کچھ عرصے سے شاہین کا نیا گیند اندر بھی نہیں آرہا تھا۔ آج پرتھ میں شاہین شاہ کی بولنگ دیکھنا ایک شاندار تجربہ تھا۔ اس نے نئی گیند سے بہت عمدہ بولنگ کرائی، بدقسمتی سے اس سپیل میں وکٹیں کم ملیں، اینڈ میں دو وکٹیں ملنے سے اگرچہ تلافی ہوگئی۔

حارث رؤف اور حسنین کو آسٹریلین پچوں پہ بولنگ کرانے کا خاصا تجربہ ہے۔ حارث نے تو بگ بیش میں بہت میچز کھیلے ہیں، حسنین بھی کافی میچ کھیل چکا ہے۔

ان دونوں نے اپنے اپ کو آسٹریلین پچوں کے ساتھ ہم آہنگ کیا اور بہت اچھی لینتھ میں بولنگ کرائی۔ یہ بڑا اہم تھا، حارث روف جس لینتھ میں گیندیں کرا رہا تھا، پرتھ کے میچ میں بھی، ایڈیلیڈ  کے میچ میں بھی، وہ حیران کن اور نہایت موثر رہا۔

  میری عادت ہے کہ میچز ٹی وی پر دیکھتے ہوئے کرک انفو کی ایپ بھی کھول لیتا ہوں، وہاں کمنٹری میں  بہت بار مزے کے تبصرے اور کمنٹس مل جاتے ہیں۔ آج کے میچ میں اکثر آسٹریلین اور بعض انڈینز وغیرہ بار بار یہ لکھ رہے تھے کہ یہ آسٹریلیا کی اے ٹیم ہے پاکستان کی جیت کوئی خاص نہیں اور اس میں لک فیکٹر  زیادہ ہے وغیرہ وغیرہ۔

یہ سب فضول اور بے وزن باتیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے اس سیریز میں آسٹریلیا کی ٹیم سے بہت بہتر کارکردگی دکھائی۔ درحقیقت پاکستانی ٹیم پہلا میچ بھی ایک طرح سے جیت ہی گئی تھی ۔ اتنے کلوزسکور کا ایسا اچھا دفاع کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔

  دوسرے ون ڈے میں آسٹریلیا کی مضبوط ٹیم کھیل رہی تھی، تقریباً وہی سکواڈجس نے ورلڈ کپ جیتا۔ سٹیوسمتھ، لبوشین، انگلس، میکسویل وغیرہ بڑے کھلاڑی ہیں۔ ان سب کو تھوڑے سکور پر آوٹ کر دیا جبکہ یہ قابل ذکر ہے کہ اسی تیز گراسی پچ پر سٹارک، کمنز، ہیزل وڈ جیسے نامی گرامی اور تجربہ کار بولرز کو پاکستانی اوپنرز نے ناکوں چنے چبوا دیے ۔ سنچری پلس سٹینڈ دیا اور بمشکل ایک وکٹ گری۔ وہ بدترین شکست تھی۔

شاہین شاہ افریدی کی بولنگ کو دیکھنا ایک بہت ہی دلچسپ اور خوشگوار امر رہا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

  پرتھ کے آج کے میچ میں بھی پاکستان نے جو کارکردگی پیش کی وہ غیر معمولی تھی، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مقابلے میں کون تھا۔ آج اگر مارش اورٹریوس  ہیڈ ہوتے تب وہ بھی شاہین نسیم اور حارث کی گیندوں سے چکرا جاتے ۔ پاکستانی پیسرز نے تینوں میچوں میں آسٹریلین بولنگ اٹیک سے بہتر پرفارمنس دی جبکہ پاکستانی بلے باز بھی بہت اچھا کھیلے۔

  آسٹریلیا کے لیے یہ باقاعدہ شرمندگی کی  بات ہے کہ سیریز کے تین میں سے دو میچز میں ہماری مڈل آرڈر کو کھیلنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ یہ ذہن میں رہے کہ پاکستانی ٹیم سلولوباؤنسی پچز پر ٹیسٹ میچز کھیل کر آسٹریلیا پہنچی ہے، اس نے کوئی وارم اپ میچ بھی نہیں کھیلا تھا۔

اس کے باوجود اپنے آپ کو کنڈیشن سے اتنا جلد ہم آہنگ کرنا اور پھر ورلڈ چیمپین کو آوٹ کلاس کر دینا بہت متاثرکن بات ہے۔

 ویسے بھی اگر تیسرے ون ڈے میں کمنز، سٹارک، سمتھ وغیرہ نہیں کھیلے تو اس میں قصور آسٹریلین کرکٹ بورڈ کا ہے۔ دراصل انہوں نے پاکستانی ٹیم کو ایزی لیا۔ وہ تکبر اور فخر کا شکار ہوئے۔ آسٹریلوی بورڈ کا خیال ہوگا کہ وہ پاکستان سے دونوں ون ڈے میچز جیت کر سیریز جیت لیں گے اور پھر آخری ون ڈے میں ان کے بعض تجربہ کار کھلاڑی نہ کھیلیں تو کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ یہ تصور ہی نہیں ہوگا کہ پاکستان دوسرا اور تیسرا ون ڈے جیت کر 22 سال بعد سیریز جیت جائے گا۔

 بہرحال پاکستان نے شاندار طریقے سے ون ڈے سیریز جیت لی ہے۔ پوری قوم کو یہ جیت مبارک ہو۔ امید کرنی چاہیے کہ ان شااللہ پاکستانی ٹیم ٹی ٹوئنٹی سیریز بھی اسی شان کے ساتھ جیت کر فاتح ٹھیرے گی۔    


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.