لاہور ہائیکورٹ نے حکومت کو اسموگ سے نمٹنے کے لیے 10 سالہ پالیسی بنانے کے لیے اقدامات کی ہدایت کر دی جب کہ حکومت پنجاب نے اسموگ کنٹرول کرنے کے لیے آئندہ برس سے نومبر، دسمبر، جنوری میں شادیاں رکھنے سے روکنے کی پالیسی پر کام شروع کر دیا۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے اسموگ کے تدراک کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت کی، دوران سماعت عدالتی حکم پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحٰق اور مختلف محکموں کے نمائندے عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیے کہ ہم نے حکومت کے اچھے کاموں کی تعریف کی ہے، موجودہ حکومت نے اسموگ کے حوالے پہلے کی نسبت بہتر کام کیا ہے مگر اسموگ سے نمٹنے کے لیے حکومت کو مستقل پالیسی لانی ہوگی۔
جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیے کہ اس مرتبہ ستمبر میں اسموگ آچکی ہے، اگلے برس یہ اگست میں آئے گی، وفاقی حکومت کو بھی اس معاملے میں آن بورڈ ہونا پڑے گا، سوچنا پڑے گا کہ لاہور شہر کے اندر موجود انڈسٹری کا کیا کرنا ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ لاہور میں بڑے تعمیراتی پروجیکٹ کو روکنا پڑے گا، گزشتہ برس ہم نے حکم دیا تھا کہ اسموگ کے سیزن میں کوئی تعمیراتی کام نہیں ہوگا۔
جسٹس شاہد کریم نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے استفسار کیا کہ پرائیویٹ تو چھوڑیں، حکومت کی اسپیڈو بسیں کتنا دھواں چھوڑ رہی ہیں، آپ کو اس بات کا بھی اندازہ ہونا چاہیے جس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ جو گاڑی دھواں چھوڑے گی وہ سڑک پر نہیں آئے گی۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ اب جو اسموگ آگئی ہے، یہ ختم نہیں ہوگی، جنوری تک رہے گی، یہ حکومت کے لیے جاگنے کا وقت ہے، اب ہمیں اگلے سال کے لیے ابھی سے سوچنا پڑے گا، یہ حکومت کے کرنے کے کام ہیں ہم اس میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بیان دیا کہ ہم منصوبہ بنا رہے ہیں کہ اگلے سال نومبر، دسمبر، جنوری میں شادی ہالز بند ہوں گے، شہریوں سے کہیں گے کہ ان 3 ماہ میں شادیاں نہ رکھیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ حکومت چاہے تو ون ڈش کے ساتھ ساتھ شادی کے 3 کے بجائے صرف ایک فنکشن کی پالیسی بھی بنا سکتی ہے، اس اقدام سے معاشرتی تقسیم میں بھی بہت فرق پڑے گا۔
دوران سماعت وفاقی حکومت کے وکیل نے بتایا کہ موٹر وے پولیس اکتوبر کے مہینے میں 18 ہزار سے زائد چالان اور 45 ملین کے جرمانے کیے ہیں۔
تاجروں کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ مال روڈ پر مارکیٹس 10 بجے تک کھلی رہنے دیں جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ اس وقت ایمرجنسی کی صورتحال ہے، پوری دنیا میں دکانیں شام 5 بجے بند ہوجاتی ہیں یہاں لوگوں کو رات دیر تک گھومنے کی عادت ہے۔
جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیے کہ کوئی آرڈر جاری نہیں کروں گا، سب کچھ حکومت پر چھوڑتے ہیں، ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت سے تفصیلی رپورٹ جمع کرانے کی مہلت مانگی جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے کارروائی 16 نومبر تک ملتوی کردی۔
یاد رہے کہ پنجاب کی فضاؤں میں اسموگ کی صورتحال برقرار ہے، آج صبح ایئرکوالٹی انڈیکس میں لاہور تقریباً 700 پوائنٹس کے ساتھ پہلے نمبر پر رہا جب کہ پاکستان میں پشاور دوسرے اور اسلام آباد تیسرے نمبر پر تھا۔
حد نگاہ کم ہونے پر موٹروے کے مختلف سیکشنز ٹریفک کیلئے بند کیےگئے تھے، ترجمان موٹروے پولیس کے مطابق دھند اور اسموگ کی وجہ سے لاہور - سیالکوٹ موٹروے ایم 11، لاہور - اسلام آباد موٹروے ایم 2، لاہور سے درخانہ تک موٹروے ایم 3، اور پنڈی بھٹیاں سے ملتان تک موٹروے ایم 4 بند رہی۔
فضائی آلودگی بڑھنے کے پیش نظر صوبے کے مختلف اضلاع میں 17 نومبر تک اسکولز بند کردیے گئے ہیں جب کہ 12ویں جماعت تک تمام اسکولوں میں تدریسی عمل آن لائن ہوگا۔
ادھر محکمہ موحولیات نے صوبے کے تمام سرکاری اور نیم سرکاری محکموں کو اسموگ کانٹیجنسی پلان مرتب کرنے کا حکم دیا جس کے تحت 50 فیصد عملہ محکموں میں کار پولنگ کے ذریعے آئے گا اور 50 فیصد عملے کو ورک فرام ہوم کرنا ہوگا جب کہ تمام میٹنگ آن لائن یا زوم پرکی جائیں گی۔