صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی سڑکیں سموگ کی سفید چادر سے ڈھکی ہوئی ہیں۔ ہر دوسرا شخص آنکھوں میں جلن، گلے میں خراش، اور سانس لینے میں دقّت کی شکایت کرتا نظر آ رہا ہے۔جو افراد مالی طور پر کچھ مستحکم ہیں وہ سموگ کے نقصان دہ اثرات سے بچنے کے لیے گھروں میں ایئر پیوریفائر کا استعمال کر رہے ہیں۔
ہر دوسرے دن لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں شامل ہوتا ہے تاہم، رواں ماہ ائیر کوالٹی انڈیکس متعدد مرتبہ ایک ہزار سے اوپر ریکارڈ کیا گیا۔
سموگ کے پیش نظر صوبائی حکومت نے لاہور میں گرین لاک ڈاؤن نافذ کرتے ہوئے پرائمری سکولوں کو 17 نومبر تک بند کر دیا ہے۔38 سالہ پرائمری سکول کی ٹیچر رافعہ اقبال کہتی ہیں کہ ’بچے مسلسل کھانس رہے ہیں، انہیں الرجی ہے۔ سکولوں میں ہم نے دیکھا کہ زیادہ تر بچے بیمار پڑ رہے ہیں۔‘ان کے شوہر 41 سالہ محمد صفدر جو ایڈورٹائزنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں، نے کہا کہ آلودگی کی سطح روزمرہ کی زندگی کو ناممکن بنا رہی ہے۔انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ہم ادھر ادھر نہیں جا سکتے، ہم باہر نہیں جا سکتے، ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے۔‘بین الاقوامی ایئر کوالٹی انڈیکس سکیل کے مطابق 300 یا اس سے زیادہ کا انڈیکس انسانی صحت کے لیے خطرناک ہے اور پاکستان میں یہ سطح اکثر ایک ہزار سے تجاوز کر رہا ہے۔تقریباً 350 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شہر ملتان میں ایئر کوالٹی انڈیکس کی سطح گزشتہ ہفتے دو ہزار سے تجاوز کر گئی۔اس صورتحال کے پیش نظر پارکس، چڑیا گھر، کھیل کے میدانوں، عجائب گھروں اور تاریخی و تفریحی مقامات پر 17 نومبر تک پابندی عائد کی گئی ہے۔
ہر دوسرے دن لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں شامل ہوتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
اس کے علاوہ لاہور میں فلٹر کے بغیر اوپن باربی کیو کے ریستورانوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
ڈی جی محکمہ تحفظ ماحولیات کی جانب سے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق اوپن باربی کیو کے لیے مناسب چمنیوں اور ایگزاسٹ کا استعمال لازم ہو گا۔رافعہ اقبال اور محمد صفدر کے گھر ایئر پیوریفائر نہیں ہے اور وہ اپنے بچوں کو ایک کمرے کے اندر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔محمد صفدر نے کہا کہ ’احتیاطی اقدامات کیے جانے چاہیے تھے۔ یہ ہر سال ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کے اقدامات ناکافی ہیں۔‘ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی فالج، دل کے امراض، پھیپھڑوں کے کینسر اور سانس کی دیگر بیماریوں کو جنم دے سکتی ہے۔صوبے بھر کے سموگ سے متاثرہ مریضوں کے علاج کے لیے کلینکس میں سموگ کاؤنٹر قائم کیے گئے ہیں۔ منگل کو لاہور کے ہسپتال میں 900 افراد کو داخل کیا گیا جو سموگ کی وجہ سے بیمار تھے۔ڈاکٹر قرت العین جو 15 سال سے ہسپتال میں خدمات انجام دے رہی ہیں، نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’اس سال سموگ پچھلے برسوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے اور اس کے اثرات میں مبتلا مریضوں کی تعداد بھی زیادہ ہے۔‘
صوبائی حکومت نے لاہور میں گرین لاک ڈاؤن نافذ کرتے ہوئے پرائمری سکولوں کو 17 نومبر تک بند کر دیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
انہوں نے بتایا کہ ’ہم لوگوں سے کہتے ہیں کہ باہر نہ نکلیں یا پھر ماسک پہنیں۔ ہم ان سے خاص طور پر بچوں سے کہتے ہیں کہ وہ اپنی آنکھوں کو اپنے ہاتھوں سے نہ چھوئیں۔‘
سموگ کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے بعد گذشتہ سال نگراں حکومت کی جانب سے مصنوعی بارش برسانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔طبی ماہرین نے شہریوں کو گھروں میں رہنے کی ہدایت کی ہے اور باہر نکلنے کی صورت میں ماسک کے استعمال کی تجویز دی ہے۔ماہرین ماحولیات کے مطابق اس حد تک بڑھتی ہوئی آلودگی صرف انسانوں کے لیے نہیں بلکہ شہر میں موجود چرند پرند اور نباتات کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔پاکستان کے صوبہ پنجاب کے محکمہ ماحولیات کا ماننا ہے کہ اس وقت لاہور کو جس سموگ کا سامنا ہے وہ انڈیا سے آنے والی آلودہ ہواؤں کی وجہ سے ہے۔پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے بھی کہا تھا کہ وہ لاہور میں بڑھتی ہوئی آلودگی پر انڈین پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھگونت مان سے بات کریں گی۔