پاکستان میں وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسانی نے اسلام آباد کے ایک بینک اور اس کے عملے کے نو ارکان پر کل 95 لاکھ روپے جرمانہ عائد کرتے ہوئے متاثرہ خاتون کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔
پاکستان میں وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسانی نے اسلام آباد کے ایک بینک اور اس کے عملے کے نو ارکان پر کل 95 لاکھ روپے جرمانہ عائد کرتے ہوئے متاثرہ خاتون کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔
عدالتی حکم نامے میں درج تفصیلات کے مطابق شکایت کنندہ خاتون نے الزام عائد کیا تھا کہ انھیں صنفی بنیاد پر امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا گیا اور ملزمان نے اپنی طاقت اور اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے ان سے زبردستی استعفیٰ طلب کیا۔ اس کے علاوہ الزامات میں بورڈ پر اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے خاتون کو سیپریشن پیکج دینے سے انکار کیا گیا۔
عدالتی حکم نامے کے مطابق تمام ملزمان صنفی بنیاد پر امتیازی سلوک کے مرتکب پائے گئے ہیں۔
وفاقی محتسب کی عدالت کے حکم نامے کے مطابق جرمانے کی رقم کا 50 فیصد براہِ راست شکایت کنندہ کو اور 50 فیصد قومی خزانے میں جمع کروانے کا حکم دیا گیا۔
وفاقی محتسب کے فیصلے میں نجی بینک کو بھی 50 لاکھ روپے بطور ہرجانہ خاتون کو ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔
عدالتی حکم نامے کے مطابق نو ملزمان میں سے ہر کوئی پانچ لاکھ روپے جرمانہ ادا کرے گا جس کا 50 فیصد خاتون کو دیا جائے گا جبکہ باقی رقم قومی خزانے میں جمع کرائی جائے گی۔
عدالتی حکم نامے کے مطابق یہ خاتون بینک کی سب سے سینیئر خاتون ملازمہ تھیں جنھیں کئی سال تک صنفی بنیاد پر امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا گیا۔
تاحال خوشحالی مائیکروفنانس بینک کی جانب سے اس فیصلے کے حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔
حکم نامے کے مطابق شکایت کرنے والی خاتون نے صنف کی بنیاد پر غیر مساوی سلوک کی نشاندہی کی کہ انھیں خاتون ہونے کی وجہ سے ترقی سے محروم کیا گیا اور انھوں نے اس حوالے سے دستاویزی شواہد بھی فراہم کیے۔
حکم نامے کے مطابق شکایت کنندہ کے خلاف ملزمان نے دھمکیوں، دھونس اور دباؤ کا استعمال کیا اورانھیں اپنے خلاف اپنا دفاع کرنے کا کوئی موقع نہیں دیا۔
وفاقی محتسب کے فیصلے کے مطابق ’امتیازی اقدامات مختلف طریقوں سے سامنے آتے ہیں جن میں نوکری میں ترقی، غیر مساوی تنخواہ، سینیئر عہدوں تک پہنچنے میں مشکلات یا فیصلہ سازی کے جانبدارانہ طریقے جو کسی انفرادی ملازم پر اثرانداز ہوتے ہیں نہ کہ پورے گروپ پر۔‘
وفاقی محتسب کے فیصلے کے مطابق ’اس کے علاوہ ’ٹوکن ازم‘ بھی اس کی ایک وجہ ہے جس میں لیڈرشپ رولز میں چند خواتین کو صرف دکھاوے کے لیے رکھا جاتا ہے تاکہ امتیازی سلوک اور ادارے میں صنفی امتیاز کو چھپایا جا سکے۔‘
ملزمان نے عدالت میں کیا جواب جمع کروایا تھا؟
وفاقی محتسب کے فیصلے میں ملزمان کی جانب سے جواب بھی درج کیا گیا ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ’خاتون کو سیپریشن پیکج نہ دینے کا معاملہ بینک کے قوانین کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے کیا گیا اور یہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب بینگ ’ری سٹرکچرنگ‘ کے عمل سے گزر رہا تھا اور اپنے اخراجات کو کم کرنے کی کوشش کر رہا تھا اس لیے یہ صرف ایک کمرشل فیصلہ تھا اور کچھ نہیں۔
’اس کے علاوہ بینک سے نکلتے وقت سیپریشن پیکج دینے کے حوالے سے فیصلہ بورڈ کی جانب سے کیا جاتا ہے اور جب بورڈ کی جانب سے یہ پیکج دینے سے انکار کیا گیا تو اس دوران شکایت کنندہ کے حقوق صلب نہیں ہوئے اور یہ فیصلہ بینک کے سابق صدر کی تجویز پر کیا گیا۔‘
فیصلے کے مطابق ملزمان کی جانب سے دیے گئے جواب میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’خاتون نے اس دوران تین مختلف قرضے حاصل کیے تھے جنھیں استعفے کے وقت تک واپس نہیں کر پائی تھیں تاہم، بینک کے بورڈ کی جانب سے پہلے ان پر موجود شرح سود کو کم کیا گیا اور پھر انھیں آخری سیٹلمینٹ سے نہیں کاٹا گیا جو عمومی پالیسی کے برخلاف تھا۔
جواب میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’ملزمان نے کسی قسم کی ہراسانی نہیں کی کیونکہ خاتون کو سیپریشن پیکج نہ دینے کا فیصلہ بینک کے بورڈ کی جانب سے لیا گیا۔‘
وفاقی محتسب عدالت کی جانب سے اپنے فیصلے میں بینک کو یہ حکم بھی دیا ہے کہ ’وہ خاتون کو ان کی جانب سے لیے گئے قرضے کی رقم نکال کر سیپریشن پیکج فراہم کریں گے۔‘
عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی نوٹ کیا کہ ’بینک کی جانب سے سیپریشن دیتے وقت قرضوں کی رقم کے بارے میں نہیں پوچھا گیا لیکن جب خاتون کی جانب سے کام کی جگہ پر ہراسانی کی شکایت درج کروائی گئی تو تب بینک نے ان کے خلاف قرضوں کی واپسی کے سول مقدمہ درج کر دیا۔‘
کام کی جگہ پر ہراسانی کے حوالے سے پاکستان میں کیا قانون موجود ہے؟
سنہ 2010 کے عورتوں کو دفاتر میں ہراساں کیے جانے کے خلاف قانون کے تحت ہر کمپنی کو تین افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنانی ہو گی جو درج کی گئی شکایات سے 30 دن کے اندر نمٹے گی۔
اس کمیٹی میں ایک خاتون کا ہونا لازمی ہے۔ سات دن کے اندر کمپنی کو کمیٹی کے نتائج کا نفاذ کرنا ہو گا۔ اس قانون کے تحت نشانہ بننے والی خاتون حکومت کی طرف سے مقرر کردہ صوبائی محتسب کو خود بھی شکایت جمع کروا سکتی ہیں۔
تاہم سنہ 2022 میں اس میں ترمیم کی گئی تھی جس ’ملازم‘ کی قانونی تعریف کو مزید واضح اور وسیع کیا گیا ہے جبکہ ’ملازمت کی جگہ‘ کی تعریف اور دائرہ کار کو بھی بڑھایا گیا ہے۔
پہلے اس قانون میں کسی روایتی اور باضابطہ ادارے یا دفتر میں کام کرنے والے افراد کو ملازم کی حیثیت حاصل تھی جبکہ نئے قانون میں ’ملازم‘ کی قانونی تعریف میں فری لانسرز، فنکار، پرفارمرز، کھلاڑی، طلبا، آن لائن کام کرنے والے افراد، گھریلو ملازمین، انٹرن، یومیہ، ہفتہ وار یا ماہانہ اجرت پر کام کرنے والے کانٹریکٹ یا بغیر کانٹریکٹ کے کام کرنے والے افراد کے ساتھ ساتھ ایسے افراد کو بھی شامل کیا گیا ہے جو کسی کے پاس بنا کسی اجرت کے بھی کام کرتے ہیں۔
ترمیم کے بعد نئے قانون میں ان افراد کو بھی شامل کیا گیا ہے جو کسی بھی ادارے یا شخص کے سابقہ ملازم تھے اور کسی بھی وجہ کے باعث نوکری چھوڑ چکے ہیں وہ بھی اب اپنی سابقہ جگہِ ملازمت کے خلاف ہراسانی کی درخواست دے سکیں گے۔ ترمیم کے بعد ملازمت کی جگہ سے مراد روایتی دفاتر کے ساتھ ساتھ جمنازیم، کھیل کے میدان، کنسرٹ، عدالتیں، عوامی تقریبات اور گھر وغیرہ کو شامل کیا گیا ہے۔
جس کے بعد کھلاڑیوں اور ان کی کام کی جگہ یعنی کھیل کے میدان، پریکٹس کی جگہوں کو بھی شامل کیا گیا ہے اور اب کسی بھی ایسی جگہ پر ہراسانی کا کوئی بھی عمل قابلِ گرفت جرم بن سکتا ہے۔
’ہراسانی‘ کی قانونی تعریف میں بھی وسعت لائی گئی ہے۔ پہلے قانون میں ہراسانی سے مراد صرف جنسی ہراسانی تھا جبکہ ترمیم کے بعد جنسی ہراسانی کے ساتھ ساتھ کوئی بھی ایسا اشارہ، عمل یا فقرہ جو کام کی جگہ پر کسی کے لیے باعث ہتک یا زحمت بنے، ذومعنی الفاظ یا فقرے، کسی کو گھورنا یا سائبر سٹاکنگ یعنی انٹرنیٹ کے ذریعے کسی کی نگرانی کرنا بھی اب ہراسانی کے زمرے میں آئے گا۔
اس سے مراد کوئی بھی ایسا عمل یا حرکت جو کسی کے لیے کام کی جگہ پر کام میں رکاوٹ بنے یا ان کی کارکردگی کو متاثر کرے ہراسانی تصور کیا جا سکے گا۔
اسی طرح اس قانون میں ’صنف کی بنیاد پر امتیازی سلوک‘ کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ کام کی جگہوں پر خواتین کے خلاف ہراسانی کے تحفظ کے نئے قانون میں خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں، بچوں اور خواجہ سراؤں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
کام کی جگہ پر ہراسانی کا سامنا کرنے والے افراد وفاقی اور صوبائی محتسب کو شکایت درج کروا سکتی ہیں اور ان کی جانب سے تین روز کے اندر فریقین کو شوکاز نوٹس دیا جاتا ہے۔
اس کے بعد شکایت کنندہ کی جانب سے پانچ روز کے اندر جواب جمع کروانا ضروری ہوتا ہے، جس کے بعد شواہد کی بنیاد پر محتسب کی جانب سے فیصلہ دیا جاتا ہے۔