عامر خان کا شمار بالی وڈ کے سب سے بڑے ستاروں میں ہوتا ہے۔ فینز ان جیسے ستاروں کے فلمی اور نجی زندگی کے ہر ایک پہلو پر ہمہ وقت نظر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ کووڈ وبا کے دوران انھوں نے گھر والوں کے ساتھ وقت گزارنے کے لیے فلمیں چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
عامر خان کا شمار بالی وڈ کے سب سے بڑے ستاروں میں ہوتا ہے۔ فینز ان جیسے ستاروں کے فلمی اور نجی زندگی کے ہر ایک پہلو پر ہمہ وقت نظر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ کووڈ وبا کے دوران انھوں نے گھر والوں کے ساتھ وقت گزارنے کے لیے فلمیں چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عامر خان بتاتے ہیں کہ انھوں نے اپنے گھر والوں کو بتایا کہ ’میری بس ہو گئی ہے۔
’میں نہ فلم بنانا چاہتا تھا اور نہ اداکاری کرنا چاہتا تھا۔ میں بس اپنے گھر والوں کے ساتھ رہنا چاہتا تھا۔‘
انڈیا جیسا ملک جہاں فلموں اور اداکاروں سے دیوانگی کی حد تک لگاؤ پایا جاتا ہے وہاں عامر خان جیسے سپر سٹار کی ریٹائرمنٹ کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل سکتی تھی۔
تاہم کسی کو عامر خان کے اس فیصلے کے بارے میں پتا نہیں چلا۔ ان کے مطابق اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس وقت بہت کم فلمیں بن رہی تھیں۔
عامر خان کے فینز کو فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں۔ وہ ایک بار پھر فلموں کی جانب لوٹ آئے ہیں۔
آج کل عامر خان اپنی پروڈکشن میں بننے والی فلم 'لاپتہ لیڈیز' کی تشہیر کر رہے ہیں۔ یہ فلم اس سال آسکرز میں غیر ملکی زبانوں میں بننے والی بہترین فلموں کی کیٹیگری میں انڈیا کی طرف سے نامزد ہوئی ہے۔
عامر خان کے مطابق ان کے بچوں نے انھیں دوبارہ فلموں میں کام کرنے کے لیے راضی کیا۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کے بچوں نے کہا کہ انھیں حقیقت کا سامنے کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ 24 گھنٹے ان ساتھ وقت نہیں گزار سکتے۔
’اور ایسے انھوں نے آہستہ سے مجھے فلموں کی جانب واپس بھیج دیا۔‘
59 سالہ عامر خان بطور اداکار، ہدایتکار اور پروڈیوسر تقریباً تین دہائیوں سے انڈین فلموں میں کام کرتے آئے ہیں۔
عامر خان کی فلمیں نہ صرف باکس آفس پر کامیاب ہوتی ہیں بلکہ وہ اکثر اپنی فلموں کے ذریعے سماجی مسائل اجاگر کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ آسکرز بھی عامر خان کے لیے کوئی نئی چیز نہیں۔ عامر خان کی سنہ 2002 میں ریلیز ہونی والی فلم ’لگان‘ بھی آسکرز میں نامزد ہوئی تھی۔ تاہم ان کی فلم ایوارڈ نہیں جیت سکی تھی۔
اب عامر خان لاپتہ لیڈیز کے ساتھ ایک بار پھر آسکرز کی دوڑ میں شامل ہیں۔ اگر اب کی بار عامر خان کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ اس کیٹیگری میں آسکرز جیتنے والی پہلی انڈین ہوگی۔
انھیں یہ معلوم کرنے کے لیے کہ آیا ان کی فلم شارٹ لسٹ ہوئی ہے یا نہیں، منگل تک انتظار کرنا پڑے گا۔
عامر خان کہتے ہیں وہ نہیں جانتے کہ آیا ان ایوارڈز کو سنجیدگی سے لینا بھی چاہیے یا نہیں۔ تاہم وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ آسکرز جیتنا انڈیا کے لیے بہت بڑی بات ہوگی۔
عامر خان کہتے ہیں کہ انڈین عوام جنون کی حد تک فلموں سے لگاؤ رکھتے ہیں اور طویل عرصے سے آسکرز جیتنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ 'اگر ہم جیت گئے تو لوگ [خوشی سے] پاگل ہو جائیں گے۔'
'صرف اپنے ملک کے لوگوں اور اپنے ملک کے لیے، اگر ہم ایوارڈ جیت جاتے ہیں تو مجھے واقعی خوشی ہوگی۔'
لاپتہ لیڈیز کی کہانی ایک ایسے شخص کے گرد گھومتی ہے جو شادی کے بعد اپنی بیوی کو اپنے گاؤں لے کر آ رہا ہوتا ہے لیکن راستے میں اس کی بیوی تبدیل ہو جاتی ہے۔ دوسری جانب اس کی بیوی اکیلی پھنس جاتی ہے۔
اس فلم میں خواتین کے ساتھ انڈیا کے دیہی علاقوں میں ہونے والا سلوک اور گھریلو تشدد جیسے حساس موضوعات پر طنز کیا گیا ہے۔
عامر خان کے مطابق اس فلم کا پلاٹ تھوڑا سا شیکسپیئر طرز کا ہے جس میں طنز و مزاح کی آڑ میں خواتین کی آزادی اور ان کی اپنے لیے فیصلہ لینے کی طاقت جیسے اہم موضوعات کے بارے میں بات کی گئی ہے۔
عامر خان کے مطابق وہ ان موضوعات کی وجہ سے اس فلم کی جانب متوجہ ہوئے۔
ان کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں خواتین کو اپنی زندگی میں بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
'مجھے لگا کہ یہ ایک ایسی کہانی ہے جو ان مسائل کو اتنے اچھے طریقے سے سامنے لارہی ہے، یہی وجہ ہے کہ میں اسے پروڈیوس کرنا چاہتا تھا۔'
عامر خان چاہتے تھے کہ ان کی سابق اہلیہ کرن راؤ یہ فلم بنائیں۔
سنہ 2002 میں عامر خان اور کرن راؤ کی شادی ہوئی تاہم تقریباً 19 برس ساتھ گزارنے کے بعد دونوں نے 2021 میں علیحدگی کا اعلان کیا۔
عامر خان کہتے ہیں کہ فلم بنانے کے لیے انھوں نے کرن راؤ کا نتخاب اس لیے کیا کیونکہ انھیں اندازہ تھا کہ کرن اس فلم کو پورے دل سے بنائیں گی۔
وہ کہتے ہیں کہ آج بھی ان کی اپنی سابق اہلیہ سے تعلقات بہت اچھے ہیں۔ ’ہمارا رشتہ شاید تھوڑا بدل گیا ہو - لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہم دونوں کے ایک دوسرے کے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں اس میں کچھ کمی آئی ہو۔‘
تاہم اس کے باوجود عامر خان کا کہنا ہے کہ فلم کے سیٹ پر اکثر ان کی اور کرن راؤ کی بحث ہوتی تھی۔
’ہم بنا بحث میں پڑے فلم نہیں بنا سکتے۔ تو ہماری ہر موقع پر بحث ہوتی تھی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ان کے اور کرن کے خیالات میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے۔ ’ہم بنیادی چیزوں کے بارے میں بات نہیں کر رہے ہیں۔ ہم کبھی کبھی ایک دوسرے کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں کہ کسی بات کو لوگوں تک پہنچانے کا بہتر طریقہ کیا ہے۔‘
’انڈین فلمسازوں کو پہلے عالمی مارکیٹ کے لیے فلمیں بنانی ہوں گی‘
ہر سال بالی ووڈ میں سینکڑوں فلمیں بنتی ہیں اور مداحوں پر ان فلموں اور ستاروں کا اثر غیر یقینی ہے۔
حالیہ سالوں میں انڈین فلموں کو آسکرز میں بھی کامیابی حاصل ہوئی جس میں آر آر آر (RRR) نے بہترین گانے اور دی ایلیفینٹ وسپررز کو بہترین دستاویزی مختصر فلم کا ایوارڈ ملا ہے۔
تاہم اب تک کسی انڈین فلم کو بہترین بین الاقوامی فلم کی کیٹیگری میں ایوارڈ نہیں ملا ہے۔
عامر خان کی نظر میں اس کی ایک وجہ آسکرز کے لیے سہی فلم کا انتخاب نہ ہونا ہے۔ 'انڈیا نے کچھ بہت اچھی فلمیں بنائی ہیں۔ کبھی کبھار سہی فلم یا سب سے بہترین مووی کا انتخاب نہیں کیا جاتا ہے۔'
لیکن وہ کہتے ہیں کہ یہ واحد وجہ نہیں کہ انڈیا آج تک اکیڈمی اوارڈ نہیں جیت سکا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ ہمارا مقابلہ محض پانچ یا چھ فلموں سے نہیں بلکہ آپ دنیا کی 70 سے 80 بہترین فلموں سے مقابلہ کر رہے ہوتے ہیں۔‘
عامر خان کہتے ہیں کہ انڈین فلمسازوں کو پہلے عالمی مارکیٹ کے لیے فلمیں بنانی ہوں گی۔
'میں نے خود بھی کبھی بین الاقومی سامعین پر توجہ نہیں دی۔'
وہ مزید کہتے ہیں ہمارے اپنے ناظرین اتنے ہیں کہ گلوبل مارکیٹ کی جانب ہمارا خیال ہی نہیں جاتا۔
' یہ تب ہی ہو گا جب انڈین [فلم ساز] بین الاقومی ناظرین کے لیے فلمیں بنانا شروع کریں گے۔ مجھے نہیں لگتا کہ ہمارے پاس ابھی اس کی صلاحیت ہے۔'
ریٹائرمنٹ تو واپس لے لی مگر ’شام چھ بجے کے بعد کام نہیں کرتے‘
عامر خان ابھی لاپتہ لیڈیز کے علاوی کئی دوسرے پروجٹس پر بھی کام کر رہے ہیں جن ان کی اگلی فلم 'ستارے زمین پر' بھی شامل ہے۔
وہ ہر سال ایک فلم بنا چاہتے ہیں جبکہ ان کا سب سے بڑی خواہش مہابھارت پر فلم بنانا ہے۔
اپنی ریٹائرمنٹ کا فیصلہ واپس لینے کے بعد سے وہ اپنے کام کرنے کے طریقے میں تبدیلی لانے کی کوشش کر رہ ہیں۔ یہ فیصلہ بھی انھوں نے اپنے بچوں کی وجہ سے لیا ہے۔ وہ کہتے ہیں، 'میرے بیٹے نے کہا کہ آپ ہر چیز انتہا پر جا کر کرتے ہیں۔'
عامر خان کہتے ہیں ’اس نے کہا کہ آپ کسی پنڈولم کی طرح ہیں۔ آپ نے صرف فلمیں، فلمیں، فلمیں کیں۔ اور اب مکمل طور پر دوسری جانب جھک رہے ہیں اور بالکل بھی فلمیں نہیں کرنا چاہتے اور صرف فیملی کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ ایک درمیانی راستہ بھی اور آپ کو اُس بارے میں سوچنا چاہیے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ان کے بیٹے نے انھیں زندگی میں توازن لانے کا مشورہ دیا اور وہ تب سے اس پر عمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
عامر خان کہتے ہیں کہ ’مجھے لگا کہ وہ سہی بول رہا ہے۔ تب سے میں اپنی زندگی میں توازن لانے کی کوشش کر رہا ہوں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ وہ اب ایک متوازن زندگی گزارنے کی کوشش کر تے ہیں تاہم وہ اب پہلے سے کہیں زیادہ محنت کر رہے ہیں۔ 'لیکن اب میں شام چھ بجے کے بعد کام نہیں کرتا ہوں۔'
عامر خان کہتے ہیں حالیہ سالوں انھوں نے اپنی بیٹی جو کہ دماغی صحت کے شعبے سے وابستہ ہیں سے متاثر ہو کر تھراپی بھی شروع کی ہے۔
’مجھے لگتا ہے کہ اس سے مجھے بہت مدد ملی ہے۔ اس کی وجہ سے میں خود کو بہتر طرقے سے سمجھ پا رہا ہوں۔
’اب میں اپنی نجی زندگی اور کام میں توازن قائم کر پا رہا ہوں۔‘