جب اتوار کو بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹا گیا تو اس سے نہ صرف ان کا شام پر اقتدار کے 24 سالہ دور کا خاتمہ ہوا بلکہ ان کے خاندان کی اس ملک پر نصف صدی سے زائد حکمرانی بھی اختتام کو پہنچی۔ اب شام کا سابق حکمران خاندان اس وقت روس میں پناہ لیے ہوئے ہے اور ایسے میں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ آگے ان کا کیا ہوگا؟
جب اتوار کو بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹا گیا تو اس سے نہ صرف ان کا شام پر اقتدار کے 24 سالہ دور کا خاتمہ ہوا بلکہ ان کے خاندان کی اس ملک پر نصف صدی سے زائد حکمرانی بھی اختتام کو پہنچی۔
سنہ 2000 میں مسند اقتدار پر براجمان ہونے سے قبل ان کے والد شام کے تین دہائیوں سے صدر تھے۔
اب جب شام میں اسلامی گروپ ہیئت تحریر الشام حکومت سازی کے کام کو آگے بڑھا رہا ہے تو ایسے میں شام کے معزول ہونے والے صدر، ان کی اہلیہ اور ان کے تین بچوں کے مستقبل کے بارے میں بھی یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
اب شام کا سابق حکمران خاندان اس وقت روس میں پناہ لیے ہوئے ہے اور ایسے میں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ آگے ان کاکیا ہوگا؟
بشار الاسد نے اقتدار سے بے دخلی کے بعد روس کا انتخاب کیوں کیا؟
اس سوال کا ایک سادہ سا جواب تو یہی ہے کہ سنہ 2011 میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کے دنوں میں روس بشار الاسد کا اہم اتحادی بن کر سامنے آیا تھا اور کریملن کے مشرق وسطی کے اس ملک میں دو فوجی اڈے بھی ہیں۔
سنہ 2015 میں روس نے بشار الاسد کی حمایت میں فضائی حملے شروع کیے جس سے ملک میں جاری جنگ کا حتمی نتیجہ بشار الاسد کے حق میں نکلا اور ان کے خلاف برسرپیکار گروپوں کو پے در پے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
برطانیہ میں قائم گروپ کے مطابق روس کی طرف سے کی جانے والی کارروائیوں میں نو برس میں 21,000 سے زائد افراد ہلاک ہوئے جن میں 8,700 عام شہری بھی شامل تھے۔ تاہم روس کی توجہ یوکرین میں بٹی ہونے کی وجہ سے روس یا تو اب بشار الاسد سے تعاون کرنے پر آمادہ نہ تھا یا پھر وہ اس قابل ہی نہیں تھا کہ نومبر کے آخر میں وہ بشار الاسد کے خلاف باغیوں کے حملوں کو روک پاتا۔
جب باغی فورسز نے دمشق کا انتظام سنبھال لیا تو اس کے چند گھنٹوں کے بعد روس کے سرکاری میڈیا نے یہ خبر دی کہ بشار الاسد اپنے خاندان سمیت روس آ گئے ہیں اور انھیں انسانی بنیادوں پر پناہ دی جائے گی۔
مگر جب کریملن کے ترجمان دمیتری پاسکوف سے بشار الاسد کو پناہ دینے کے فیصلے اور یہ کہ وہ کہاں قیام کیے ہوئے ہیں کے متعلق صحافیوں نے سوال کیا تو انھوں نے کہا کہ 'میرے پاس ابھی اس کے متعلق آپ کو بتانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ یقیناً پناہ سے متعلق فیصلہ ریاست کے سربراہ کی اجازت کے بغیر نہیں لیا جا سکتا۔ یہ ان کا فیصلہ ہے۔'
بشار الاسد کے روس اور خاص طور پر ماسکو سے گہرے روابط کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔
سنہ 2019 میں فنانشل ٹائمز کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ شام میں خانہ جنگی کے دوران ملک سے دسیوں لاکھوں ڈالر باہر لے جانے کی غرض سے بشار الاسد کے خاندان نے روس کے دارالحکومت ماسکو میں 18 انتہائی پرتعیش اپارٹمنٹس خریدے ہیں۔
گذشتہ ہفتے روس کے ایک مقامی اخبار کی خبر کے مطابق بشار الاسد کے 22 برس کے بڑے بیٹے حافظ الاسد ماسکو سے اس وقت پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ اختتام ہفتہ پر دمشق میں افراتفری کے دوران روس کے سرکاری ٹی وی چینل نے یہ خبر دی کہ ماسکو حکام اس وقت شام میں مسلح اپوزیشن سے ملک میں موجود دو روسی فوجی اڈوں اور سفارتی عملے کی حفاظت کو یقینی بنانے سے متعلق رابطے میں ہیں۔
بشار الاسد کی اہلیہ اور بچوں کا تعارف
بشار الاسد نے برطانوی اور شامی دہری شہریت کی حامل اسما سے شادی کی جو مغربی لندن میں شامی خاندان کے ہاں پیدا ہوئی تھیں۔
سرمایہ کار بینکر بننے سے قبل انھوں نے یونیورسٹی تک تعلیم لندن میں ہی حاصل کی۔ اسما سنہ 2000 میں مکمل طور پر شام منتقل ہو گئیں اور بشار الاسد کے صدر بننے کے ساتھ ہی ان کی شادی بھی ان سے ہو گئی۔
لندن سکول آف اکنامکس کی ڈاکٹر نسرین الریفائی نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ اسما کے پاس برطانوی پاسپورٹ ہے اور وہ روس میں رہنے کے بجائے کبھی بھی لندن واپس آ سکتی ہیں۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ امریکہ نے اسما کے والد ڈاکٹر فواز الاخرس، جن کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ وہ بھی روس میں ہی مقیم ہیں، پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا کہ اسما ابھی کچھ وقت روس میں ہی گزاریں گی۔
میل آن لائن کی ایک خبر کے مطابق پڑوسیوں کا یہ کہنا ہے کہ اسما کے والد دل کے ڈاکٹر ہیں اور ان کی والدہ سابقہ سفارتکار ہیں جو اپنی بیٹی اور داماد کو حوصلہ دینے کی غرض سے ماسکو میں قیام کرنا چاہتی ہیں۔
بشار الاسد اور ان کی اہلیہ کے تین بچے ہیں۔ جن کے نام حافظ، زین اور کریم ہیں۔
سنہ 2022 میں امریکہ کے دفتر خارجہ کی کانگریس میں پیش کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق بشار الاسد کے پورے خاندان کے مجموعی اثاثے ایک سے دو بلین ڈالر مالیت کے ہیں۔
تاہم اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس خاندان کی دولت کا درست تعین ایک مشکل کام ہے کیونکہ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ اسد خاندان کے اثاثے متعدد بینکوں، ریئل سٹیٹ کے کاروبار، کارپوریشنز اور باہر کے ممالک میں ہے جہاں انھیں ٹیکس سے استثنیٰ حاصل ہے۔
رپورٹ کے مطابق بشار الاسد اور اسما نے 'اپنی کمپنیوں کو غیر قانونی سرگرمیوں سے پیسہ نکالنے اور حکومت کو فنڈز فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا اور اس مقصد کے لیے انھوں نے شام کے سب سے بڑے اقتصادی شخصیات کے ساتھ خاص اور قریبی تعلقات استوار کیے رکھے۔'
اس رپورٹ کے مطابق اسما کا 'شام کے معاشی بحران سے نمٹنے والی اقتصادی کمیٹی پر گہرا اثر تھا' اور انھوں نے شام کے 'خوراک اور ایندھن کی قیمت پر رعایتوں، تجارت اور کرنسی جیسے معاملات' پر اہم فیصلے کیے۔
انھوں نے 'سیریا ٹرسٹ فار ڈویلپمنٹ' پر بھی اپنا اثر و رسوخ ڈالا، جس کے ذریعے حکومت کے زیر قبضہ علاقوں میں تعمیر نو کے لیے زیادہ تر غیر ملکی امداد کو منتقل کیا گیا۔
سنہ 2020 میں امریکہ کے اس وقت کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ اسما اپنے شوہر اور خاندان کے ساتھ 'شام کے سب سے بدنام جنگی منافع خوروں میں سے ایک ہیں۔'
ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کے ایک اور سینیئر اہلکار نے اسما کو ایک اولیگارک (امیر ترین کاروباری عورت) اور 'خاندان کی مالیاتی امور کا نگران' قرار دیا جن کا مقابلہ اپنے شوہر کے ایک کزن رامی مخلوف سے تھا۔
رامی شام کی ایک امیر ترین شخصیت ہیں۔ ان کے خاندان سے اختلافات اس وقت کھل کر سامنے آئے جب انھوں نے سوشل میڈیا پر ویڈیوز شیئر کیں اور خاندان کی طرف سے ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے برے سلوک کی شکایت کی۔
کیا بشار الاسد کو مقدمے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟
شام سے اسد خاندان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سیکریٹری جنرل ایگنس کیلامرڈ نے شامیوں کو 'انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ایک ہولناک کیٹلاگ (یا ریکارڈ)' قرار دیا، 'جنھیں اسد خاندان کی وجہ سے بڑے پیمانے پر بے شمار تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔'
ان انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں کیمائی ہتھیاروں اور بیرل بم سے حملے اور دیگر جنگی جرائم شامل ہیں۔ جرائم کی اس فہرست میں قتل، تشدد، جبری گمشدگیاں اور غارت گری (تباہی) شامل ہیں جو انسانیت کے خلاف سنگین جرائم ہیں۔
انھوں نے عالمی برادری سے یہ کہا ہے کہ جن لوگوں نے عالمی قانون کو توڑا اور دیگر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں ان کی تحقیقات ہونی چاہیں اور جرائم کی پاداش میں ان پر مقدمہ چلنا چاہیے۔
منگل کو شام کے باغی رہنما کا کہنا ہے کہ سابقہ حکومت کے کسی بھی سینیئر اہلکار پر سیاسی قیدیوں پر تشدد کا الزام سچ ثابت ہوتا ہے تو پھر اس کی تفصیلات سامنے لائی جائیں گی۔
ابو محمد الجولانی نے کہا کہ ان کی حکومت ایسے اہلکار جو بیرون ملک چلے گئے ہیں کی حوالگی کا مطالبہ کرے گی۔
فرانس میں ججز نے شام میں سنہ 2013 میں ہونے والے مہلک کیمیائی حملے کے سلسلے میں انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں اسد کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا کہا ہے۔ ان جرائم کی تفتیش کرنے والے ججز نے اس سے متعلق عالمی دائرہ اختیار کے قانون کا حوالہ دیا ہے۔
روس اپنے شہریوں کو کسی دوسرے ملک کے حوالے نہیں کرتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ ایک ایسا قانونی عمل ہے جس کے تحت کسی شخص کو کسی دوسرے ملک یا ریاست میں کسی مشتبہ جرم کے مقدمے کا سامنا کرنے کے لیے واپس کیا جاتا ہے۔
یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ بشار الاسد کے روس چھوڑ کر کسی ایسے ملک جانے کے امکانات کم ہیں جہاں انھیں واپس شام کے حوالے کیا جا سکے اور پھر وہاں ان پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے متعلق فرد جرم عائد ہو۔