✕
Poetry
Famous Poets
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
More Poets
Poetry Categories
Love Poetry
Sad Poetry
Friendship Poetry
Islamic Poetry
Punjabi Poetry
More Categories
Poetry SMS
Poetry Images
Tags
Poetry Videos
Featured Poets
Post your Poetry
News
Business
Mobile
Articles
Islam
Names
Health
Shop
More
WOMEN
AUTOS
ENews
Recipes
Poetries
Results
Videos
Directory
Photos
Business & Finance
Education News
Add Poetry
Home
LOVE POETRY
SAD POETRY
FAMOUS POETS
POETRY IMAGES
POETRY VIDEOS
NEWS
ARTICLES
MORE ON POETRY
Home
Urdu Poetry
Most Recent Poetries
Search
Add Poetry
Latest Poetry
Most Viewed
Best Rated
کیا ضروری کہ گروں میں تو سنبھالے کوئی
کیا ضروری کہ گروں میں تو سنبھالے کوئی
اور مرے پاؤں کا کانٹا بھی نکالے کوئی
خوشبوؤں کی طرح چاہیں گے زمانے والے
پہلے کردار کو پھولوں سا بنا لے کوئی
آج کے دور میں شہرت کی تمنا ہو اگر
اپنے چہرے پہ کئی چہرے لگا لے کوئی
اک دیا ہم نے جلایا جو سر راہ گزر
کر نہ دے اس کو ہواؤں کے حوالے کوئی
شب کی تاریکی میں بھی نور کا عالم ہوگا
پہلے پلکوں پہ ستاروں کو سجا لے کوئی
چاہے تو اپنے ہر اک حسن عمل سے آفاقؔ
اپنے ماں باپ کی ہر وقت دعا لے کوئی
شہباز
Copy
اسم بن کر ترے ہونٹوں سے پھسلتا ہوا میں
اسم بن کر ترے ہونٹوں سے پھسلتا ہوا میں
برف زاروں میں اتر آیا ہوں جلتا ہوا میں
اس نے پیمانے کو آنکھوں کے برابر رکھا
اس کو اچھا نہیں لگتا تھا سنبھلتا ہوا میں
رات کے پچھلے پہر چاند سے کچھ کم تو نہ تھا
دن کی صورت تری بانہوں سے نکلتا ہوا میں
تیرے پہلو میں ذرا دیر کو سستا لوں گا
تجھ تک آ پہنچا اگر نیند میں چلتا ہوا میں
میری رگ رگ میں لہو بن کے مچلتی ہوئی تو
تیری سانسوں کی حرارت سے پگھلتا ہوا میں
وہ کبھی دھوپ نظر آئے کبھی دھند لگے
دیکھتا ہوں اسے ہر رنگ بدلتا ہوا میں
وقاص
Copy
دراصل کر گئی ہیں دل میں گھر تری آنکھیں
دراصل کر گئی ہیں دل میں گھر تری آنکھیں
ہیں مدتوں سے مری ہم سفر تری آنکھیں
سنا ہے لطف و عنایت ہے اور لوگوں پر
ہمارے حال سے ہیں بے خبر تری آنکھیں
اندھیرے کا کوئی نام و نشان ہی نہ رہے
ادھر ہو روشنی دیکھیں جدھر تری آنکھیں
یہ اور بات کہ اظہار ہو نہیں سکتا
نگاہ و دل میں بسی ہیں مگر تری آنکھیں
مجھے بھی تو کئی اشعار شب میں کہنے تھے
پریشاں کرتی رہیں رات بھر تری آنکھیں
تصورات میں جاری رہا سفر عدنانؔ
جدا ہوئیں نہ کسی موڑ پر تری آنکھیں
ارتضیٰ
Copy
دعا کام آ گئی ہم جاں نثاروں غم کے ماروں کی
دعا کام آ گئی ہم جاں نثاروں غم کے ماروں کی
گھڑی دیکھو بس اب آنے کو ہے دل میں بہاروں کی
مری جانب قدم اٹھتے ہیں یہ کس مہرباں دل کے
صبا خوشبو لئے آئی گلوں کی آبشاروں کی
وہ لے کر تتلیاں دل میں ستاروں کی چمک لے کر
جہاں پر چھا رہی ہے جیسے صورت ماہ پاروں کی
دل نادان سجدے میں گرا ہے ایک عرصے سے
تمنا دید کی لے کر ان آنکھوں کے نظاروں کی
مرے محسن مرے ہمراز تم سے کیا چھپانا ہے
مری دھڑکن نہ رک جائے خبر سن کر کناروں کی
بڑا بے رحم تھا طوفاں تو کیسے بچ گیا عادلؔ
دعا ملتی رہی ہے تجھ کو شاید رب کے پیاروں کی
ثمر
Copy
رت بدلے تو آپ بدل لے سب بیوہار ہوا
رت بدلے تو آپ بدل لے سب بیوہار ہوا
پگ پگ سانگ رچائے موسم کے انوسار ہوا
پیڑ گھروندے لاٹھ اور کھمبے ہیں خاشاک سمان
بھیروں ناچ رہی ہے پہنے ناگ کا ہار ہوا
اس کی گرہیں کھولے بڑھ کر کوئی دھیان کی لہر
من میں لیے پھرتی ہے صدیوں کے اسرار ہوا
اس ویرانے میں بھی کھلتے پگ پگ رم کے پھول
دل سے کبھی ہو کر بھی گزرتی خوش رفتار ہوا
کون بتائے کب کس کی اس راہ میں شامت آئے
سنتے ہیں اندھے کے ہاتھ کی ہے تلوار ہوا
ہم نے تو اس لمحے میں بھی رت کا سمیٹا درد
روش روش جب رواں دواں تھی صرصر کار ہوا
یوں بھی ہم نے جھیلا ہے موسم کا جبر سہیلؔ
خوشبو کی کبھی لہر بنی کبھی تیغ کی دھار ہوا
عباس
Copy
اجڑے ہوئے دیار کا مطلب سمجھ گئے
اجڑے ہوئے دیار کا مطلب سمجھ گئے
تم کیسے انتظار کا مطلب سمجھ گئے
جو اجنبی تھے عشق و محبت کے لفظ سے
صد شکر ہے وہ یار کا مطلب سمجھ گئے
پھر کھل کے اپنے عشق کا اظہار کر دیا
جب وہ بھی حال زار کا مطلب سمجھ گئے
حیرت میں ہوں میں دیکھ کے یہ آج دوستو
وہ کیسے دل فگار کا مطلب سمجھ گئے
تھوڑی بہت ادھر بھی ہیں کچھ بے قراریاں
جو دل کے تار تار کا مطلب سمجھ گئے
اس کو بھی میری یاد نے مجبور کر دیا
جب موسم بہار کا مطلب سمجھ گئے
نظریں جھکائے رکھنا حراؔ ان کے روبرو
وہ بھی تمہارے پیار کا مطلب سمجھ گئے
شاہ زین
Copy
کیا دور ہے کہ جو بھی سخنور ملا مجھے
کیا دور ہے کہ جو بھی سخنور ملا مجھے
گم گشتہ اپنی ذات کے اندر ملا مجھے
کس پیار سے گیا تھا تری آستیں کے پاس
شاخ حنا کی چاہ میں خنجر ملا مجھے
اس ظلمت حیات میں اک لفظ پیار کا
جب مل گیا تو ماہ منور ملا مجھے
صورت گران عصر کا تھا انتظار کش
تیری رہ طلب میں جو پتھر ملا مجھے
روز ازل سے کار گہہ ہست میں سہیلؔ
دل ہی غم حیات کا محور ملا مجھے
اسماعیل
Copy
اک خلش کو حاصل عمر رواں رہنے دیا
اک خلش کو حاصل عمر رواں رہنے دیا
جان کر ہم نے انہیں نامہرباں رہنے دیا
آرزوئے قرب بھی بخشی دلوں کو عشق نے
فاصلہ بھی میرے ان کے درمیاں رہنے دیا
کتنی دیواروں کے سائے ہاتھ پھیلاتے رہے
عشق نے لیکن ہمیں بے خانماں رہنے دیا
اپنے اپنے حوصلے اپنی طلب کی بات ہے
چن لیا ہم نے تمہیں سارا جہاں رہنے دیا
کون اس طرز جفاۓ آسماں کی داد دے
باغ سارا پھونک ڈالا آشیاں رہنے دیا
یہ بھی کیا جینے میں جینا ہے بغیر ان کے ادیبؔ
شمع گل کر دی گئی باقی دھواں رہنے دیا
حنظلہ
Copy
کس کی خلوت سے نکھر کر صبح دم آتی ہے دھوپ
کس کی خلوت سے نکھر کر صبح دم آتی ہے دھوپ
کون وہ خوش بخت ہے جس کی ملاقاتی ہے دھوپ
دیدنی ہوتا ہے دو رنگوں کا اس دم امتزاج
بوندیوں کے ہم جلو ہم رقص جب آتی ہے دھوپ
تم تو پیارے چڑھتے سورج کے پرستاروں میں تھے
کیوں ہو شکوہ سنج اگر تن کو جلا جاتی ہے دھوپ
خوشبوۓ محبوس کو آزاد کرنے کے لیے
لاکھ ہو سنگیں حصار کہر در آتی ہے دھوپ
اس گلی میں جیسے اس کا داخلہ ممنوع ہو
یوں دبے پاؤں یہاں آ کر گزر جاتی ہے دھوپ
رات بھر پہلو میں رہتا ہے منور آفتاب
دن سے بڑھ کر اپنی گرمی شب کو دکھلاتی ہے دھوپ
دل خوشی سے جھومتا ہے جب سر دیوار یار
نیم وا در سے گزر کر سرد بن جاتی ہے دھوپ
رات پہلو میں اچانک اس کا چہرہ دیکھ کر
دل میں یہ آیا تصور کتنی لمحاتی ہے دھوپ
برق کے دم سے تھی کل جس خواب گہ میں موج نور
اب وہاں بھی طرز نو سے جلوہ دکھلاتی ہے دھوپ
اے سہیلؔ اس میں نہاں ہے اس کی محبوبی کا راز
طبع موسم دیکھ کر فوراً بدل جاتی ہے دھوپ
عبیر
Copy
ناز رستوں کے اٹھاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
ناز رستوں کے اٹھاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
میں تری بزم میں آتے ہوئے تھک جاتا ہوں
پھر نئے غم کی ضرورت ہے مری غزلوں کو
روز کی بات بتاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
زندگی تجھ سے بھی اب روٹھنے کو دل چاہے
بارہا تجھ کو مناتے ہوئے تھک جاتا ہوں
لب کشائی تو کرو تم بھی مرے حق میں کبھی
میں تمہارا ہوں بتاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
قرض کم ظرف سے لینے میں ہے نقصان بہت
اس کا احسان چکاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
علم ہوتا ہے حقیقت میں جہالت کا جواب
میں تو اسباق پڑھاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
دل کا وہ میل مگر صاف نہیں ہوتا ادیبؔ
ہاتھ دشمن سے ملاتے ہوئے تھک جاتا ہوں
شاہد
Copy
تمہاری فائلوں میں گاؤں کا موسم گلابی ہے
تمہاری فائلوں میں گاؤں کا موسم گلابی ہے
مگر یہ آنکڑے جھوٹھے ہیں یہ دعویٰ کتابی ہے
مہر
Copy
ان کی قسمت سنوارتا ہوں میں
ان کی قسمت سنوارتا ہوں میں
ایک دو لوگوں کا خدا ہوں میں
تیری یادوں کے پر کتر کے ہی
دل کے پنجرے کو کھولتا ہوں میں
فیصلے دل سے لیتا تھا سارے
ذہن کے شہر میں نیا ہوں میں
خامشی تھا زبان والوں کی
بے زبانوں کی اب سدا ہوں میں
کس نے آواز دی ہے پیچھے سے
کس کی خاطر رکا ہوا ہوں میں
غالباً سوچتا ہوں کافی کم
کچھ زیادہ ہی سوچتا ہوں میں
خود سے آگے نکل کے اے راہی
خود کو آواز دے رہا ہوں میں
بارہا کرتا ہوں حدیں میں پار
پھر کہیں پاؤں دیکھتا ہوں میں
جانے کتنوں کی ہو تمہیں منزل
جانے کتنوں کا راستا ہوں میں
اذان
Copy
نئی صبح چاہتے ہیں نئی شام چاہتے ہیں
نئی صبح چاہتے ہیں نئی شام چاہتے ہیں
جو یہ روز و شب بدل دے وہ نظام چاہتے ہیں
وہی شاہ چاہتے ہیں جو غلام چاہتے ہیں
کوئی چاہتا ہی کب ہے جو عوام چاہتے ہیں
اسی بات پر ہیں برہم یہ ستم گران عالم
کہ جو چھن گیا ہے ہم سے وہ مقام چاہتے ہیں
کسے حرف حق سناؤں کہ یہاں تو اس کو سننا
نہ خواص چاہتے ہیں نہ عوام چاہتے ہیں
یہ نہیں کہ تو نے بھیجا ہی نہیں پیام کوئی
مگر اک وہی نہ آیا جو پیام چاہتے ہیں
تری راہ دیکھتی ہیں مری تشنہ کام آنکھیں
ترے جلوے میرے گھر کے در و بام چاہتے ہیں
وہ کتاب زندگی ہی نہ ہوئی مرتب اب تک
کہ ہم انتساب جس کا ترے نام چاہتے ہیں
نہ مراد ہوگی پوری کبھی ان شکاریوں کی
مجھے دیکھنا جو زاہدؔ تہ دام چاہتے ہیں
محسن
Copy
انکار کی طلب ہے نہ اقرار کی طلب
انکار کی طلب ہے نہ اقرار کی طلب
دل میں ہے میرے بس ترے دیدار کی طلب
ہوتی ہے جیسے صبح کو اخبار کی طلب
ہونے لگی ہے پھر کسی دل دار کی طلب
خواہش کہ ہو سکون مری زندگی کے ساتھ
صحرا میں جیسے سایۂ دیوار کی طلب
پرچھائیوں نے ساتھ نہ چھوڑا تمام عمر
شاید اسی کو کہتے ہیں سنسار کی طلب
دزدیدہ نگاہی سے تری جاگ اٹھی ہے
مدت پہ کسی نرگس بیمار کی طلب
جب مانگنے پہ آؤ تو کیا کیا نہ مانگ لو
جاویدؔ آپ کیجئے کردار کی طلب
ساجد
Copy
بے نیاز دہر کر دیتا ہے عشق
بے نیاز دہر کر دیتا ہے عشق
بے زروں کو لعل و زر دیتا ہے عشق
کم نہاد و بے ثبات انسان میں
جانے کیا کیا جمع کر دیتا ہے عشق
کون جانے اس کی الٹی منطقیں
ٹوٹے ہاتھوں میں سپر دیتا ہے عشق
پہلے کر دیتا ہے سب عالم سیاہ
اور پھر اپنی خبر دیتا ہے عشق
جان دینا کھیلتے ہنستے ہوئے
قتل ہونے کا ہنر دیتا ہے عشق
کٹ گریں اور پھر بھی قائم ہیں صفیں
کتنے بازو کتنے سر دیتا ہے عشق
سر برہنہ ہیں انا گنبد جو تھے
آندھیوں سے سو کو بھر دیتا ہے عشق
درد مندی پر جو قائم ہوں انہیں
نور افزا چشم تر دیتا ہے عشق
ایک بوجھل رات کٹ جانے کے بعد
ایک لمحے کو سحر دیتا ہے عشق
یہ سمجھ تم کو بھی ہوگی صاحبو
دل کو کیوں شعلوں میں دھر دیتا ہے عشق
چل نکلنے کا ارادہ باندھئے
دیکھیے سمت سفر دیتا ہے عشق
قدر ہے جس کی خیام حور میں
آبرو کا وہ گہر دیتا ہے عشق
حشر
Copy
اے دنیا والو دنیا میں اخلاق کی پستی لعنت ہے
اے دنیا والو دنیا میں اخلاق کی پستی لعنت ہے
قرآن گواہی دیتا ہے شیطان کی ہستی لعنت ہے
یہ دنیا آخر فانی ہے یہ دولت آنی جانی ہے
سرمایہ پرستوں سے کہہ دو سرمایہ پرستی لعنت ہے
معلوم نہیں یہ راز ابھی آزادی پانے والوں کو
آزاد وطن کے لوگوں میں غدار کی ہستی لعنت ہے
جب ہندی سندھی پنجابی اسلام میں آ کر ایک ہوئے
اے فرقہ پرستو باز آؤ پھر فرقہ پرستی لعنت ہے
ایمان کی دولت والوں کا دل نور خدا سے روشن ہے
ایمان نہیں جن میں ان کے چہروں پہ برستی لعنت ہے
جو کام بھی کرنا ہے تجھ کو بے کھٹکے کر اور خوف نہ کھا
اے مرد مجاہد ہوش میں آ اوہام پرستی لعنت ہے
اے اہل زمانہ غور کرو کل کیا گزری انسانوں پر
کچھ شیطانوں نے خون سے کی ہے چیرہ دستی لعنت ہے
پیغام مرا جا کر کوئی اس دور کے منصف سے کہہ دے
انصاف کے ماتھے پر داغ احباب پرستی لعنت ہے
عمار
Copy
دل میں ان کا خیال آتا ہے
دل میں ان کا خیال آتا ہے
اور پہروں مجھے رلاتا ہے
بس تو ہی تو ہے ہر طرف موجود
کوئی آتا ہے اور نہ جاتا ہے
آنکھوں آنکھوں میں لے لیا دل کو
اور دل میں کوئی سماتا ہے
ظلمتوں کا گزر کہاں ممکن
ان کا روشن خیال آتا ہے
اپنی صورت کہاں رہی واصلؔ
ان کی صورت کا سب تماشا ہے
اذان
Copy
ہر خوف ہر خطر سے گزرنا بھی سیکھئے
ہر خوف ہر خطر سے گزرنا بھی سیکھئے
جینا ہے گر عزیز تو مرنا بھی سیکھئے
یہ کیا کہ ڈوب کر ہی ملے ساحل نجات
سیلاب خوں سے پار اترنا بھی سیکھئے
ایسا نہ ہو کہ خواب ہی رہ جائے زندگی
جو دل میں ٹھانئے اسے کرنا بھی سیکھئے
بگڑے بہت کشاکش ناز و نیاز میں
اب اس کی انجمن میں سنورنا بھی سیکھئے
ہوتا ہے پستیوں کے مقدر میں بھی عروج
اک موج تہ نشیں کا ابھرنا بھی سیکھئے
اوروں کی سرد مہری کا شکوہ بجا سحرؔ
خود اپنے دل کو پیار سے بھرنا بھی سیکھئے
شاہ زیب
Copy
جو نہیں لگتی تھی کل تک اب وہی اچھی لگی
جو نہیں لگتی تھی کل تک اب وہی اچھی لگی
دیکھ کر اس کو جو دیکھا زندگی اچھی لگی
تھک کے سورج شام کی بانہوں میں جا کر سو گیا
رات بھر یادوں کی بستی جاگتی اچھی لگی
منتظر تھا وہ نہ ہم ہوں تو ہمارا نام لے
اس کی محفل میں ہمیں اپنی کمی اچھی لگی
وقت رخصت بھیگتی پلکوں کا منظر یاد ہے
پھول سی آنکھوں میں شبنم کی نمی اچھی لگی
دائرے میں اپنے ہم دونوں سفر کرتے رہے
برف سی دونوں جزیروں پر جمی اچھی لگی
اک قدم کے فاصلے پر دونوں آ کر رک گئے
بس یہی منزل سفر کی آخری اچھی لگی
حماد
Copy
دل و جان صدقے ہوتے کبھی دل نثار ہوتا
دل و جان صدقے ہوتے کبھی دل نثار ہوتا
تمہیں ہم گلے لگاتے اگر اختیار ہوتا
انہیں سوچتا میں دل سے تو غزل کے پھول کھلتے
جو زباں پہ حرف آتا گل مشک بار ہوتا
مرا معتبر گریباں مرا محترم گریباں
نہ بہار گھر میں آتی نہ یہ تار تار ہوتا
در غیر پر ہوا خم گیا اعتبار سر کا
در یار پر جو جھکتا سر افتخار ہوتا
وہ نگاہ ناز اٹھتی تو کئی کے ہوش اڑتے
وہ نگاہ ناز جھکتی تو کوئی نثار ہوتا
رہ عشق میں ہیں نعمت شب غم کی تلخیاں بھی
جو گزارتا شب غم بڑا پر وقار ہوتا
اظہر
Copy
Load More