✕
Poetry
Famous Poets
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
More Poets
Poetry Categories
Love Poetry
Sad Poetry
Friendship Poetry
Islamic Poetry
Punjabi Poetry
More Categories
Poetry SMS
Poetry Images
Tags
Poetry Videos
Featured Poets
Post your Poetry
News
Business
Mobile
Articles
Islam
Names
Health
Shop
More
WOMEN
AUTOS
ENews
Recipes
Poetries
Results
Videos
Directory
Photos
Business & Finance
Education News
Add Poetry
Home
LOVE POETRY
SAD POETRY
FAMOUS POETS
POETRY IMAGES
POETRY VIDEOS
NEWS
ARTICLES
MORE ON POETRY
Home
Urdu Poetry
Most Recent Poetries
Search
Add Poetry
Latest Poetry
Most Viewed
Best Rated
میں رہا عمر بھر جدا خود سے
میں رہا عمر بھر جدا خود سے
یاد میں خود کو عمر بھر آیا
فراز
Copy
اور تو کیا تھا بیچنے کے لئے
اور تو کیا تھا بیچنے کے لئے
اپنی آنکھوں کے خواب بیچے ہیں
حنین
Copy
یارو کچھ تو ذکر کرو تم اس کی قیامت بانہوں کا
یارو کچھ تو ذکر کرو تم اس کی قیامت بانہوں کا
وہ جو سمٹتے ہوں گے ان میں وہ تو مر جاتے ہوں گے
عرفات
Copy
وہ جو نہ آنے والا ہے نا اس سے مجھ کو مطلب تھا
وہ جو نہ آنے والا ہے نا اس سے مجھ کو مطلب تھا
آنے والوں سے کیا مطلب آتے ہیں آتے ہوں گے
رشید
Copy
کبھی آنکھوں پہ کبھی سر پہ بٹھائے رکھنا
کبھی آنکھوں پہ کبھی سر پہ بٹھائے رکھنا
زندگی تلخ سہی دل سے لگائے رکھنا
لفظ تو لفظ ہیں کاغذ سے بھی خوشبو پھوٹے
صفحۂ وقت پہ وہ پھول کھلائے رکھنا
چاند کیا چیز ہے سورج بھی ابھر آئے گا
ظلمت شب میں لہو دل کا جلائے رکھنا
حرمت حرف پہ الزام نہ آنے پائے
سخن حق کو سر دار سجائے رکھنا
فرش تو فرش فلک پر بھی سنائی دے گا
میری آواز میں آواز ملائے رکھنا
کبھی وہ یاد بھی آئے تو ملامت کرنا
کبھی اس شوخ کی تصویر بنائے رکھنا
بخشؔ سیکھا ہے شہیدان وفا سے ہم نے
ہاتھ کٹ جائیں علم منہ سے اٹھائے رکھنا
وقار
Copy
ذرا سی بات کا دل کو ملال آ ہی گیا
ذرا سی بات کا دل کو ملال آ ہی گیا
لگی جو ٹھیس تو شیشے پہ بال آ ہی گیا
نہیں جو واقف تہذیب مے کدہ واعظ
زباں پہ ذکر حرام و حلال آ ہی گیا
پکڑ لیا مرے ہاتھوں کو اے خودی تو نے
ترا خیال جو وقت سوال آ ہی گیا
ہر ایک لمحہ اسی انتظار میں گزرا
خدا کا شکر پیام وصال آ ہی گیا
یقیں تھا وعدۂ فردا پہ آپ کے لیکن
گزشتہ وعدوں کا دل میں خیال آ ہی گیا
کچھ ایسا وقت بھی آیا مری خموشی پر
زباں سے موقعۂ اظہار حال آ ہی گیا
ہزار چاہا تھا میں نے عذاب سے بچنا
تعلقات کا سر پر وبال آ ہی گیا
یہ مانتا ہوں کہ بہزادؔ کچھ نہیں لیکن
تمہاری بزم میں یہ خستہ حال آ ہی گیا
اسامہ
Copy
بے زر کی بے زری کا مزا ہم سے پوچھئے
بے زر کی بے زری کا مزا ہم سے پوچھئے
کیسا ہے مفلسی کا مزا ہم سے پوچھئے
کانٹے تو پھر بھی کانٹے ہیں ان سے گلہ ہے کیا
پھولوں سے دوستی کا مزا ہم سے پوچھئے
پہچان کر بھی وہ ہمیں پہچانتے نہیں
دانستہ بے رخی کا مزا ہم سے پوچھئے
جو گھر جلا ہے چشم عنایت سے آپ کی
اس گھر کی روشنی کا مزا ہم سے پوچھئے
پھرتے تھے میرؔ خوار کوئی پوچھتا نہ تھا
اب عشق و عاشقی کا مزا ہم سے پوچھئے
دانش کدوں میں جہل مرکب کا شور و شر
اس دور آگہی کا مزا ہم سے پوچھئے
وہ کیا بتائیں گے جنہیں دریا نصیب ہے
بہزادؔ تشنگی کا مزا ہم سے پوچھئے
مصطفی
Copy
لگ رہا ہے آج میرے دل میں ایسا شور ہے
لگ رہا ہے آج میرے دل میں ایسا شور ہے
ہر طرف بادل ہیں کالے اور برپا شور ہے
ذہن کے خالی دریچوں سے کوئی جھانکا کہ اب
پاؤں رکھتی ہوں اٹھاتی ہوں تو اٹھتا شور ہے
غم لگی جب بانٹنے تو دل یہی کہنے لگا
راز افشا نہ کرو دنیا میں برپا شور ہے
دل سمندر اور پیاسا سانحہ کچھ ہے عجب
خواہشوں کی پیاس دیکھو حشر جیسا شور ہے
ہے خوشی ہی ابتدا اور غم ہے اس کی انتہا
کیسا پھر کرب مسلسل پھر یہ کیسا شور ہے
میں ہوں چہرہ وقت کا اور حوصلے دیکھو ذرا
حبس ہے چاروں طرف اور بارشوں کا شور ہے
سب پرندے بچ گئے ہیں موسموں کی گرد سے
اب بہارؔ گلستاں آئی یہ اٹھتا شور ہے
فیض
Copy
آس کے پر کیف موسم کا اثر کیسا لگا
آس کے پر کیف موسم کا اثر کیسا لگا
اس بہار نو شگفتہ کا ثمر کیسا لگا
میں نہ کہتی تھی اداسی کے سوا کچھ بھی نہیں
آپ نے دیکھا مرا ویران گھر کیسا لگا
میں نے اک بت کو تراشا ہے زمانے کے لئے
اے ہنر مندو مرا کار ہنر کیسا لگا
ظلمتوں کے ساتھ تو تم نے نبھایا عمر بھر
شب گزیدہ لوگو انداز سحر کیسا لگا
کیسا منظر ہے کہ ہے گل پوش دنیا کا دروغ
زندگی کا سچ مقام دار پر کیسا لگا
یہ بتاؤ لوٹ کر آ ہی گئے ہو تم اگر
زیست کے بے نام شہروں کا سفر کیسا لگا
میں نے دروازہ تری خاطر کیا تھا وا بہارؔ
تو بتا دے تجھ کو الفت کا نگر کیسا لگا
عباس
Copy
رت نہ بدلے تو بھی افسردہ شجر لگتا ہے
رت نہ بدلے تو بھی افسردہ شجر لگتا ہے
اور موسم کے تغیر سے بھی ڈر لگتا ہے
درد ہجرت کے ستائے ہوئے لوگوں کو کہیں
سایۂ در بھی نظر آئے تو گھر لگتا ہے
ایک ساحل ہی تھا گرداب شناسا پہلے
اب تو ہر دل کے سفینے میں بھنور لگتا ہے
بزم شاہی میں وہی لوگ سرافراز ہوئے
جن کے کاندھوں پہ ہمیں موم کا سر لگتا ہے
کھا لیا ہے تو اسے دوست اگلتے کیوں ہو
ایسے پیڑوں پہ تو ایسا ہی ثمر لگتا ہے
اجنبیت کا وہ عالم ہے کہ ہر آن یہاں
اپنا گھر بھی ہمیں اغیار کا گھر لگتا ہے
شب کی سازش نے اجالوں کا گلا گھونٹ دیا
ظلمت آباد سا اب نور سحر لگتا ہے
منزل سخت سے ہم یوں تو نکل آئے ہیں
اور جو باقی ہے قیامت کا سفر لگتا ہے
گھر بھی ویرانہ لگے تازہ ہواؤں کے بغیر
باد خوش رنگ چلے دشت بھی گھر لگتا ہے
شاہ زین
Copy
بھری محفل میں قصہ درد کا کیسے سناؤں گی
بھری محفل میں قصہ درد کا کیسے سناؤں گی
بہت روئی ہیں یہ آنکھیں نظر کیسے ملاؤں گی
تو سوچوں کی زمیں کے راستے تبدیل کر بیٹھا
میں عجلت میں نشان بندگی کیسے مٹاؤں گی
مری اس درد کی دنیا پہ مت کر سنگ باری تو
بھلا میں بے بسی کے زخم اب کیسے چھپاؤں گی
وہ ٹوٹا آئنہ دل کا تو میں نے روک لیں سانسیں
اٹھے گی درد سینے میں تو پھر کیسے بتاؤں گی
جدائی کی خلش پائی ملا مجھ کو وصال غم
انا کی جنگ جیتی بھی وفا کیسے نبھاؤں گی
چلے ہیں قافلے یادوں کے ویرانوں کی بستی میں
بنا تھا ہم سفر تو بھی تجھے کیسے بھلاؤں گی
بڑھیں ہیں وحشتیں موسم کی ایسے روگ بھی پالے
بہار آرزو کرنے دوبارہ کیسے آؤں گی
اسماعیل
Copy
وہ بیکلی ہے کوئی راستہ سجھائی نہ دے
وہ بیکلی ہے کوئی راستہ سجھائی نہ دے
وہ شور ہے کہ خود اپنی صدا سنائی نہ دے
میں کیا کروں گا بھلا جا کے اس بلندی پر
جہاں سے میرا ہی سایہ مجھے دکھائی نہ دے
جو مجھ کو درد کے اندھے کنویں میں پھینک آئے
مرے وجود کو وہ کرب آشنائی نہ دے
نہ جانے کون ہے مجھ میں جو ہر گھڑی مجھ کو
کوئی سجھاؤ سا دیتا رہے دکھائی نہ دے
جمیلؔ وقت سے آگے نکل گئے ہم لوگ
زمانہ اب ہمیں الزام نارسائی نہ دے
ثاقب
Copy
خوش قامتی کے زعم میں دانائی جائے گی
خوش قامتی کے زعم میں دانائی جائے گی
سورج نہ دیکھ آنکھ کی بینائی جائے گی
یا رب کوئی فرشتہ جسے دوست کہہ سکوں
انسان کی تلاش میں بینائی جائے گی
دو چار جھوٹ بول کے آئی بلا کو ٹال
سچ بولنے کے جرم میں گویائی جائے گی
نسلی رقابتوں میں گئے اپنے بام و در
اب آپسی نفاق میں انگنائی جائے گی
زخموں سے ہے جمیلؔ مذاق سخن میں جاں
یہ بھر گئے تو پھر سخن آرائی جائے گی
عبیر
Copy
پرکھوں کی بو باس لیے پھرتا ہوں
پرکھوں کی بو باس لیے پھرتا ہوں
مٹھی بھر احساس لیے پھرتا ہوں
چاروں اور سمندر اور میں پل پل
ایک انجانی پیاس لیے پھرتا ہوں
رام کو تو بن باس لیے پھرتا تھا
میں خود میں بن باس لیے پھرتا ہوں
محفل محفل خیمہ زن مایوسی
منزل منزل آس لیے پھرتا ہوں
ہر موسم کا کرب چھپا ہے مجھ میں
میں ہر رت کی پیاس لیے پھرتا ہوں
شاہد
Copy
اپنے بچوں کو بتانا کہ یہ بوڑھا شاعر
اپنے بچوں کو بتانا کہ یہ بوڑھا شاعر
مجھ پہ ہر روز نیا شعر کہا کرتا تھا
امجد
Copy
علی ع کی معرفت نہیں
علی ع کی معرفت نہیں
تمھاری خیریت نہیں۔
مجھے یہ دکھ ہے میرے پاس
نجف کی شہریت نہیں
علی ع سے جنگ لڑ سکے
کسی کی حیثیت نہیں
منتصیر
Copy
یہ آیتِ تطہیر بتاتی ہے ، خدا نے
یہ آیتِ تطہیر بتاتی ہے ، خدا نے
قرآن کے اندر بھی تری نعت کہی ہے
شاداب
Copy
تیری یادوں سے نبض چلتی تھی
تیری یادوں سے نبض چلتی تھی
ایک دن روک دی گئی امداد
نبی
Copy
یہ تیر جان بوجھ کے کھایا نہ جائے گا
یہ تیر جان بوجھ کے کھایا نہ جائے گا
اس رابطے کو اور بڑھایا نہ جائے گا
اب آستیں میں سانپ کی کوئی جگہ نہیں
بازو پہ اب کسی کو سلایا نہ جائے گا
دل چاہئیے ہے آپ کو حاضر ہے دل مرا
بس شرط یہ ہے اِس کو دُکھایا نہ جائے گا
اُس روشنی سے بھیک تُجھے مل گئی اگر
صدیوں ترا چراغ بُجھایا نہ جائے گا
آنکھوں میں یہ چمک ہے اُسی چاند سے عمیر
کھڑکی سے اب نظر کو ہٹایا نہ جائے گا
اکرم
Copy
روز تیری مان کر کب تک ٹھہر جائیں گے ہم
روز تیری مان کر کب تک ٹھہر جائیں گے ہم
ایک دن تو چھوڑ کر تیرا نگر جائیں گے ہم
گردشِ ایام دوری تو بڑھائے گی مگر
ایسا تھوڑی ہے محبت سے مکر جائیں گے ہم
جب یہاں پہلی دفعہ ہم آئے تھے لگتا نا تھا
اس گھنے جنگل کو بھی آباد کر جائیں گے ہم
رزق کی خاطر یہاں پر رات دن اِک ہو گئے
کب ہمیں چھٹی ملے گی اور گھر جائیں گے ہم
اُس کا دل تو خالی کرنا ہے ہمیں اک دن مگر
زندگی بھر کے لیے وہ آنکھ بھر جائیں گے ہم
تنکا تنکا جوڑ کر یہ گھونسلہ بن جائے گا
رفتہ رفتہ آپ کے دل میں اُتر جائیں گے ہم
ہم سے بڑھ کر اُس کو اپنے دوستوں سے پیار ہے
اور اِک دن دیکھنا اِس دُکھ سے مر جائیں گے ہم
شمیم
Copy
Load More