✕
Poetry
Famous Poets
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
More Poets
Poetry Categories
Love Poetry
Sad Poetry
Friendship Poetry
Islamic Poetry
Punjabi Poetry
More Categories
Poetry SMS
Poetry Images
Tags
Poetry Videos
Featured Poets
Post your Poetry
News
Business
Mobile
Articles
Islam
Names
Health
Shop
More
WOMEN
AUTOS
ENews
Recipes
Poetries
Results
Videos
Directory
Photos
Business & Finance
Education News
Add Poetry
Home
LOVE POETRY
SAD POETRY
FAMOUS POETS
POETRY IMAGES
POETRY VIDEOS
NEWS
ARTICLES
MORE ON POETRY
Home
Urdu Poetry
Most Recent Poetries
Search
Add Poetry
Latest Poetry
Most Viewed
Best Rated
تمام شہر گلے لگ گیا تو کیا حاصل
تمام شہر گلے لگ گیا تو کیا حاصل
وہ ہم کو منہ جو لگائے تو عید ہو جائے
سمیر
Copy
چلتے چلتے یہ گلی بے جان ہوتی جائے گی
چلتے چلتے یہ گلی بے جان ہوتی جائے گی
رات ہوتی جائے گی سنسان ہوتی جائے گی
دیکھنا کیا ہے نظر انداز کرنا ہے کسے
منظروں کی خود بہ خود پہچان ہوتی جائے گی
اس کے چہرے پر مسلسل آنکھ رک سکتی نہیں
آنکھ بار حسن سے ہلکان ہوتی جائے گی
سوچ لو یہ دل لگی بھاری نہ پڑ جائے کہیں
جان جس کو کہہ رہے ہو جان ہوتی جائے گی
کر ہی کیا سکتی ہے دنیا اور تجھ کو دیکھ کر
دیکھتی جائے گی اور حیران ہوتی جائے گی
کاکل خم دار میں خم اور آتے جائیں گے
زلف اس کی اور بھی شیطان ہوتی جائے گی
آتے آتے عشق کرنے کا ہنر آ جائے گا
رفتہ رفتہ زندگی آسان ہوتی جائے گی
جا چکیں خوشیاں تو اب غم ہجرتیں کرنے لگے
دل کی بستی اس طرح ویران ہوتی جائے گی
ابرار
Copy
میں ہوا ہوں کہاں وطن میرا
میں ہوا ہوں کہاں وطن میرا
دشت میرا نہ یہ چمن میرا
میں کہ ہر چند ایک خانہ نشیں
انجمن انجمن سخن میرا
برگ گل پر چراغ سا کیا ہے
چھو گیا تھا اسے دہن میرا
میں کہ ٹوٹا ہوا ستارہ ہوں
کیا بگاڑے گی انجمن میرا
ہر گھڑی اک نیا تقاضا ہے
درد سر بن گیا بدن میرا
کیان
Copy
دل کی آواز پہ بیعت بھی تو ہو سکتی ہے
دل کی آواز پہ بیعت بھی تو ہو سکتی ہے
تم اگر چاہو محبت بھی تو ہو سکتی ہے
میں جسے سمجھا ہوں آوارہ ہوا کی دستک
تیرے آنے کی بشارت بھی تو ہو سکتی ہے
زندگی تیرے تصور سے ہی مشروط نہیں
تیری یادوں سے ہلاکت بھی تو ہو سکتی ہے
آخری بار تجھے دیکھنا حسرت ہی نہیں
مرنے والے کی ضرورت بھی تو ہو سکتی ہے
کب ضروری ہے کہ ہم قیس کی سنت پہ چلیں
مذہب عشق میں بدعت بھی تو ہو سکتی ہے
اس لئے دیکھتا رہتا ہوں مسلسل تجھ کو
آنکھ محروم بصارت بھی تو ہو سکتی ہے
لفظ شعروں میں جو ڈھلتے نہیں تحسینؔ مرے
سوچ کے رزق میں قلت بھی تو ہو سکتی ہے
احمد
Copy
جو میکدے سے بھی دامن بچا بچا کے چلے
جو میکدے سے بھی دامن بچا بچا کے چلے
تری گلی سے جو گزرے تو لڑکھڑا کے چلے
ہمیں بھی قصۂ دار و رسن سے نسبت ہے
فقیہ شہر سے کہہ دو نظر ملا کے چلے
کوئی تو جانے کہ گزری ہے دل پہ کیا جب بھی
خزاں کے باغ میں جھونکے خنک ہوا کے چلے
اب اعتراف جفا اور کس طرح ہوگا
کہ تیری بزم میں قصے مری وفا کے چلے
ہزار ہونٹ ملے ہوں تو کیا فسانۂ دل
سنانے والے نگاہوں سے بھی سنا کے چلے
کہیں سراغ چمن مل ہی جائے گا راحتؔ
چلو اُدھر کو جدھر قافلے صبا کے چلے
عبداللہ
Copy
بہت بے زار ہوتی جا رہی ہوں
بہت بے زار ہوتی جا رہی ہوں
میں خود پر بار ہوتی جا رہی ہوں
تمہیں اقرار کے رستے پہ لا کر
میں خود انکار ہوتی جا رہی ہوں
کہیں میں ہوں سراپا رہ گزر اور
کہیں دیوار ہوتی جا رہی ہوں
بہت مدت سے اپنی کھوج میں تھی
سو اب اظہار ہوتی جا رہی ہوں
بھنور دل کی تہوں میں بن رہے ہیں
میں بے پتوار ہوتی جا رہی ہوں
تمہاری گفتگو کے درمیاں اب
یونہی تکرار ہوتی جا رہی ہوں
یہ کوئی خواب کروٹ لے رہا ہے
کہ میں بے دار ہوتی جا رہی ہوں
کسی لہجے کی نرمی کھل رہی ہے
بہت سرشار ہوتی جا رہی ہوں
مرا تیشہ زمیں میں گڑ گیا ہے
جنوں کی ہار ہوتی جا رہی ہوں
رضوان
Copy
مشکل کو سمجھنے کا وسیلہ نکل آتا
مشکل کو سمجھنے کا وسیلہ نکل آتا
تم بات تو کرتے کوئی رستہ نکل آتا
گھر سے جو مرے سونا یا پیسہ نکل آتا
کس کس سے مرا خون کا رشتہ نکل آتا
میرے لئے اے دوست بس اتنا ہی بہت تھا
جیسا تجھے سوچا تھا تو ویسا نکل آتا
میں جوڑ تو دیتا تری تصویر کے ٹکڑے
مشکل تھا کہ وو پہلا سا چہرہ نکل آتا
بس اور تو کیا ہونا تھا دکھ درد سنا کر
یاروں کے لئے ایک تماشہ نکل آتا
ایسا ہوں میں اس واسطے چبھتا ہوں نظر میں
سوچو تو اگر میں کہیں ویسا نکل آتا
اچھا ہوا پرکھا نہیں عنبرؔ کو کسی نے
کیا جانیے کیا شخص تھا کیسا نکل آتا
تیمور
Copy
جان جاتی نہیں اور جاں سے گزر جاتے ہیں
جان جاتی نہیں اور جاں سے گزر جاتے ہیں
ہم جدائی کے بھی احساس سے مر جاتے ہیں
جن کو تاریکی میں راتوں کی منور دیکھا
صبح ہوتی ہے تو پھر جانے کدھر جاتے ہیں
جب بھی خودداری کی دیوار کو ڈھانا چاہیں
اپنے اندر کی صدا سن کے ٹھہر جاتے ہیں
راستے اس نے یوں تقسیم کئے تھے عنبرؔ
اب ادھر جانا ہے تم کو ہم ادھر جاتے ہیں
سلمان
Copy
محبت سے وقار زندگی ہے
محبت سے وقار زندگی ہے
یہی تو اعتبار زندگی ہے
وہی ہوتا ہے جو وہ چاہتے ہیں
انہی پر انحصار زندگی ہے
محبت سے کوئی جب مسکرا دے
تو ہر لمحہ بہار زندگی ہے
کسی کی یاد تنہائی کا عالم
جدا سب سے شعار زندگی ہے
ہنسی کے ساتھ بھیگ اٹھتی ہیں پلکیں
غم بے اختیار زندگی ہے
تمہارے قرب کی معراج پا کر
یہ دل مست خمار زندگی ہے
کسی سے کیا کہیں کیا ہے محبت
یہی تو راز دار زندگی ہے
کبھی راحت کبھی غم حرز جاں ہے
وفاؔ یہ کار زار زندگی ہے
سلمان
Copy
مٹاتا ہی رہا خود کو رلاتا ہی رہا خود کو
مٹاتا ہی رہا خود کو رلاتا ہی رہا خود کو
جلا کر خط محبت کے بجھاتا ہی رہا خود کو
چلا کر فون میں شب بھر کہیں جگجیت کی غزلیں
لگا کر کش میں سگریٹ کے جلاتا ہی رہا خود کو
ہوا جو قتل خوابوں کا بہا آنسو کا جو دریا
تو پھر نمکین پانی میں ڈبوتا ہی رہا خود کو
وہ شاعر تھا یا دیوانہ یا کوئی غم کا مارا تھا
اکیلا شخص تھا ایسا جو گاتا ہی رہا خود کو
جو ٹوٹا دل مسافرؔ کا تو کرکے بند کمرے کو
ترنم میں غزل پڑھ کر سناتا ہی رہا خود کو
ساحل
Copy
جب تمہاری بات ہوگی
جب تمہاری بات ہوگی
وہ غزل کی رات ہوگی
گنگنائے گیت ساون
رم جھمی برسات ہوگی
چاند چھت پر اور میں بھی
دیکھیے کیا بات ہوگی
آج ایسا لگ رہا ہے
پریم کی شروعات ہوگی
اور شاید خواب میں ہی
سج رہی بارات ہوگی
عرفان
Copy
سونے کی کوششیں تو بہت کی گئیں مگر
سونے کی کوششیں تو بہت کی گئیں مگر
کیا کیجئے جو نیند سے جھگڑا ہو رات بھر
میں نے خود اپنا سایہ ہی بانہوں میں بھر لیا
اس کا خمار چھایا تھا مجھ پہ کچھ اس قدر
آنکھوں میں چند خواب تھے اور دل میں کچھ امید
جلتا رہا میں آگ کی مانند عمر بھر
کیوں کوئی اس پے ڈالے نظر احترام کی
کہلائے علم و فن میں جو یکتا نہ معتبر
پل میں تمام ہو گیا قصہ حیات کا
اس کی نگاہ مجھ پہ رہی اتنی مختصر
دشواریوں سے زندگی آساں ہوئی مری
دشواریوں کا خوف گیا ذہن سے اتر
ہم نے سخن میں کوئی اضافہ نہیں کیا
گیسو غزل کے صرف سنوارے ہیں عمر بھر
علم و ہنر ملے ہیں مگر تیرے سامنے
پہلے بھی بے ہنر تھے امنؔ اب بھی بے ہنر
سفیان
Copy
وہ جز کہانی کا ہم تک پہنچ نہ پایا ہی ہو
وہ جز کہانی کا ہم تک پہنچ نہ پایا ہی ہو
خدا نے پہلے بھی آدم سے کچھ بنایا ہی ہو
اتر نہ پایا ہو وہ جسم و روح میں اک ساتھ
تلاش کرنے وہ حالانکہ مجھ کو آیا ہی ہو
لحاظ جسم رکھے روح کس لیے آخر
کہ جسم جس نے فقط روح کو ستایا ہی ہو
بدل گئے ہوں مفاہیم آنسوؤں کہ مرے
کسی سے اس نے مرا ترجمہ کرایا ہی ہو
پٹارا کھول گناہوں کا اپنے دیکھ ذرا
کہ دل کسی کا کبھی کیا پتا دکھایا ہی ہو
یہ کوئی اور ہو تجھ سا ترے بدن جیسا
یہ تو نہ ہو کے ترا جسم دار سایہ ہی ہو
میں سو رہا ہوں کہ اپنا کوئی سراغ ملے
وہ خواب میں مجھے شاید جگانے آیا ہی ہو
امانؔ شور تھا تم نے سنا نہیں ہوگا
جب آ رہے ہو کسی نے تمہیں بلایا ہی ہو
فیضان
Copy
تتلیوں سی خوب صورت زعفرانی لڑکیاں
تتلیوں سی خوب صورت زعفرانی لڑکیاں
یاد آتی ہیں وہ کالج کی پرانی لڑکیاں
دل یہ کہتا ہے کہ میں اپنی ہی آنکھیں چوم لوں
میں نے دیکھی ہیں زمیں پر آسمانی لڑکیاں
کیا بتاؤں آپ کو وہ کیا زمانہ تھا کہ جب
یاد رکھتی تھیں مری غزلیں زبانی لڑکیاں
ہائے کیا دن تھے کہ جب بھی پیاس لگتی تھی ہمیں
اپنی بوٹل سے پلا دیتی تھیں پانی لڑکیاں
کچھ دنوں کے واسطے آ کر بیاض عشق میں
چھوڑ جاتی ہیں نئی سی اک کہانی لڑکیاں
گھر سے نکلے تھے ہم اس درجہ شرافت اوڑھ کر
شرم سے ہونے لگی تھیں پانی پانی لڑکیاں
جب وفا کا اور حیا کا ذکر آتا ہے کبھی
ذہن میں آتی ہیں بس ہندوستانی لڑکیاں
کیا سبب ہے آج تک کیوں ہو اکیلے التمشؔ
مر گئیں کیا خوب صورت خاندانی لڑکیاں
حمزہ
Copy
بات ایسی سنا گیا کوئی
بات ایسی سنا گیا کوئی
ہنستے ہنستے رلا گیا کوئی
جیسے دنیا ہی لٹ گئی اپنی
دل کے مسکن سے کیا گیا کوئی
آنکھوں آنکھوں میں کچھ خموشی میں
حال دل کا سنا گیا کوئی
کیا ہی سستا کھلونا تھا یہ دل
کھیلا توڑا چلا گیا کوئی
سارے نظارے ہو گئے اوجھل
یوں نظر میں سما گیا کوئی
میرے شعروں کی ترجمانی سی
اک حکایت سنا گیا کوئی
سب یہاں سے گئے مگر تنویرؔ
ہیں کہاں یہ بتا گیا کوئی
عمران
Copy
اس طرح دیکھ رہا ہے کوئی حیرانی سے
اس طرح دیکھ رہا ہے کوئی حیرانی سے
جیسے پہچان ہی لے گا مجھے آسانی سے
مجھ سے ملنے کوئی آئے تو یہ کہنا اس سے
لوٹ جائے نہ ملے اپنی پشیمانی سے
رونقیں راس نہیں آئیں مجھے کیا کرتا
مشورہ کر لیا پھر بعد میں ویرانی سے
یاد آتا ہے وہ جلتا ہوا گھر جب مجھ کو
ڈرنے لگتے ہوں چراغوں کی نگہبانی سے
تو سر عام بھلے ہنستا رہے کتنا ہی
لوگ پڑھتے ہیں اداسی تری پیشانی سے
جتنی مشکل سے ملا تھا تمہیں کوئی عیابؔ
تم نے کھویا ہے اسے اتنی ہی آسانی سے
ازلان
Copy
آہ دنیا سرائے فانی ہے
آہ دنیا سرائے فانی ہے
کس قدر مختصر کہانی ہے
خود کو دیتا ہوں مسکرا کے فریب
دل مگر وقف نوحہ خوانی ہے
مجھ سے ہنس بول لیں مرے ساتھی
اب کوئی دن کی زندگانی ہے
موسم گل میں وہ جو آن ملیں
ہم بھی جانیں کہ رت سہانی ہے
بے سبب تو نہیں بہے آنسو
آنسو آنسو میں اک کہانی ہے
اک سراپا کہ رنج و یاس ہیں ہم
درد دل مونس جوانی ہے
مسکراؤں میں کس طرح الطافؔ
تاک میں دور آسمانی ہے
زین
Copy
جب وہ مجھ سے کلام کرتا ہے
جب وہ مجھ سے کلام کرتا ہے
دھڑکنوں میں قیام کرتا ہے
لاکھ تجھ سے ہے اختلاف مگر
دل ترا احترام کرتا ہے
دن کہیں بھی گزار لے یہ دل
تیرے کوچے میں شام کرتا ہے
ہاتھ تھاما نہ حال ہی پوچھا
یوں بھی کوئی سلام کرتا ہے
وہ فسوں کار اس قدر ہے شبیؔ
بیٹھے بیٹھے غلام کرتا ہے
حذیفہ
Copy
سفر ہے دھوپ کا اس میں قیام تھوڑی ہے
سفر ہے دھوپ کا اس میں قیام تھوڑی ہے
بلا ہے عشق یہ بچوں کا کام تھوڑی ہے
کسی کو وصل ہے بوجھل کوئی فراق میں خوش
دلوں کے کھیل میں کوئی نظام تھوڑی ہے
ہمارے دل میں دھڑکتا ہے نام اس کا ابھی
ہے یہ شروع محبت تمام تھوڑی ہے
جو اہل عشق ہیں منزل کا غم نہیں کرتے
یہ خاص لوگوں کا رستہ ہے عام تھوڑی ہے
ہم اپنے من کی کریں گے برا لگے کہ بھلا
ہمارا دل ہے تمہارا غلام تھوڑی ہے
تمہاری یاد جو آئی تو آ گئے ملنے
وگرنہ تم سے ہمیں کوئی کام تھوڑی ہے
بڑھا جو درد تو کاغذ پہ خود اتر آیا
سمجھ کے سوچ کے لکھا کلام تھوڑی ہے
ریحان
Copy
بادلوں کے بیچ تھا میں بے سر و ساماں نہ تھا
بادلوں کے بیچ تھا میں بے سر و ساماں نہ تھا
تشنگی کا زہر پی لینا کوئی آساں نہ تھا
کیا قیامت خیز تھا دریا میں موجوں کا ہجوم
ساحلوں تک آتے آتے پھر کہیں طوفاں نہ تھا
جانے کتنی دور اس کی لہر مجھ کو لے گئی
میں سمجھتا تھا کہ وہ دریائے بے پایاں نہ تھا
ہر طرف پت جھڑ کی آوازوں کی چادر تن گئی
دشت میں میری صدا کا جسم بھی عریاں نہ تھا
اس کے رنگ و صوت کے جگنو تھے دامن میں علیمؔ
کھو کے سب کچھ آنے والا بھی تہی داماں نہ تھا
انس
Copy
Load More