کراچی میں گھر آن لائن کرائے پر دینے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن؟

image

کراچی کے شہری محمد رضوان اِن دنوں شدید مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ وہ گذشتہ کئی برسوں سے پی ایچ ایچ بلاک ٹو میں رہائش پذیر ہیں، لیکن حالیہ کچھ عرصہ میں پیش آنے والے چند واقعات نے ان کی زندگی کو مشکلات سے بھر دیا ہے۔

محمد رضوان نے اپنے آبائی گھر میں اپنی زندگی کے کئی سال گزارے ہیں۔ چند سال قبل ایک کرائے دار کے ساتھ تنازع پیدا ہوا تو معاملہ عدالت تک جا پہنچا جس کے بعد وہ گھر میں مستقل کرائے دار رکھنے سے اجتناب برتنے لگے اور انہوں نے اسے آن لائن گیسٹ ہائوس میں تبدیل کر دیا جس سے ان کی ناصرف اس مشکل سے جان چُھوٹی بلکہ ان کی آمدن میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا۔

انہوں نے اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تین تین کمروں پر مشتمل ان کے گھر کی دو منزلیں مکمل طور پر الگ الگ ہیں۔ ان دونوں منزلوں کے داخلی راستے الگ ہیں، بجلی، گیس اور پانی کے میٹر بھی الگ ہیں جب کہ گھر تقریباً فرنشڈ ہیں۔

’یہ علاقہ چونکہ صاف ستھرا ہے اور یہاں رہائشی سہولیات بھی بہتر ہیں تو سیرو تفریح یا کاروبار کے لیے کراچی آنے والوں کے لیے یہ علاقہ ترجیح اختیار کر جاتا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’شہر کے ہوٹلوں کے مقابلے میں ان کے گھر کا کرایہ کم ہے، اس لیے بھی بڑی تعداد میں لوگ یہاں رہائش اختیار کرتے ہیں۔‘

محمد رضوان نے کہا کہ ’ایک دوست سے انہیں معلوم ہوا تھا کہ کراچی میں بھی اب آن لائن ایپس کے ذریعے گھر کرائے پر دیے جا سکتے ہیں۔ یہ طریقہ آسان ہونے کے علاوہ محفوظ بھی  ہے جب کہ آمدنی بھی جلد ہو جاتی ہے اور گھر پر قبضے کا ڈر بھی نہیں ہوتا۔‘

محمد رضوان نے علاقے کے اسٹیٹ اور پراپرٹی ایجنٹس کو بھی اپنے گھر کی تفصیلات فراہم کر رکھی ہیں۔ وہ عارضی مہمانوں کو رہائش فراہم کرنے کے لیے تمام قانونی تقاضے پورے کرتے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ہدایات کی روشنی میں کام کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ گھر کرائے پر دینے کا ایک مناسب اور محفوظ طریقہ ہے، جو انہیں اچھی آمدنی فراہم کرتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہوٹل آئی سافٹ ویئر کے ذریعے کسی بھی فرد کو گھر کرائے پر دینے سے قبل اس کا ریکارڈ چیک کرلیا جاتا ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’کسی کو بھی گھر کرائے پر دینے سے قبل ضروری دستاویزات حاصل کی جاتی ہیں، اور مکمل تسلّی کرنے کے بعد ہی وہ اپنا گھر کرائے پر دیتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’عام طور پر تو اسٹیٹ ایجنسی یا پھر بڑے گیسٹ ہاؤس چلانے والے ہی رابطہ کرتے ہیں اور کسی کو ریفر کرتے ہیں، اس کے علاوہ آن لائن بھی بکنگ آجاتی ہیں۔ جس سے اچھی آمدن ہو جاتی ہے۔‘

حال ہی میں کراچی ایئرپورٹ کے قریب خود کش حملے کے بعد پولیس نے گیسٹ ہاؤسز اور ہوٹلوں پر چھاپے مارنے شروع کیے ہیں۔

پولیس کے سپیشلائزڈ یونٹ نے رہائشی ہوٹلوں میں مقیم افراد کی جانچ پڑتال کی ہے اور متعدد مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔

محمد رضوان کو اس بات پرتشویش ہے کہ حکام نے اگر عارضی رہائش کے لیے گیسٹ ہاؤسز کی بندش کا فیصلہ کیا تو اس سے ان کے اور ان کے اہلخانہ کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی۔

ان کا گزر بسر کا زیادہ انحصار کرائے سے ہونے والی آمدن پر ہی ہے اور یہ کاروبار اگر بند ہو گیا تو وہ مالی مشکلات کا شکار ہو سکتے ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ’کچھ واقعات سامنے آئے ہیں جن میں جرائم پیشہ افراد نے عارضی طور پر شہر میں رہائش اختیار کی ہے‘ (فوٹو: پکسابے)

کراچی پولیس کے ترجمان کے مطابق، ’شہر میں گھر، دکان یا ہوٹل کرائے پر دینے والوں کے لیے ایک قانون موجود ہے اور قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کاروبار کرنے والوں کے لیے پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’پولیس امن و امان کو بہتر رکھنے کے لیے مسلسل کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ شہر میں اگر کوئی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث پایا جائے گا تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کچھ واقعات ایسے سامنے آئے ہیں جن میں جرائم پیشہ افراد نے عارضی طور پر شہر میں رہائش اختیار کی ہے جس کے باعث پولیس مستقل طور پر ایسی کارروائیاں جاری رکھتی ہے۔‘

محمد رضوان اور ان جیسے سینکڑوں لوگ کراچی کے موجودہ حالات میں کشمکش کا شکار ہیں۔ کراچی شہر میں معاشی، سکیورٹی اور قانونی تناظر میں عام لوگوں کی زندگیوں میں مشکلات بڑھ رہی ہیں۔

حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ان مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا تاکہ ناصرف محمد رضوان بلکہ شہر کے دیگر رہائشیوں کو تحفظ اور روزگار کی متبادل سہولیات فراہم کی جا سکیں۔

اس کے علاوہ ملک کے سب سے بڑے شہر میں رہائش سے متعلقہ معاملات کو ناصرف حل کیا جائے بلکہ انہیں بہتر بنانے کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.