صوبہ بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں آج صبح ریلوے سٹیشن پر ہونے والے بم دھماکے میں 25 افراد ہلاک اور 53 زخمی ہوئے ہیں۔ ایس ایس پی آپریشنز کوئٹہ کے مطابق ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں فوجی اور سویلین دونوں شامل ہیں تاحال پاکستانی فوج کی جانب سے اس واقعے کے حوالے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
صوبہ بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں آج صبح ریلوے سٹیشن پر ہونے والے ایک دھماکے میں 25 افراد ہلاک اور 53 زخمی ہوئے ہیں۔
پولیس سرجن ڈاکٹر عائشہ فیض نے بی بی سی کے محمد کاظم کو بتایا کہ 25 افراد کی لاشیں سول ہسپتال لائی گئی ہیں اور ہلاک ہونے والوں میں ایک خاتون بھی شامل ہیں۔
کوئٹہ کے ایس ایس پی آپریشنز کے مطابق زخمی ہونے والے افراد کو سول ہسپتال کوئٹہ کے ٹراما سینٹر میں منتقل کیا گیا ہے جبکہ دھماکے کی نوعیت کا تعین کرنے کے لیے تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔
بلوچ عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
ایس ایس پی آپریشنز نے بی بی سی کے محمد کاظم کو بتایا کہ ’یہ دھماکہ ریلوے سٹیشن میں اس وقت ہوا جب جعفر ایکسپریس کے مسافر ریل گاڑی کے انتظار میں پلیٹ فارم پر موجود تھے اور ان میں سے زیادہ تر اس دھماکے کی زد میں آئے ہیں۔‘
دھماکے کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دھماکے کے وقت پلیٹ فارم پر درجنوں افراد ریل گاڑی کے انتظار میں شیڈ کے نیچے موجود ہیں۔
وزیرِ اعلی بلوچستان سرفراز بگٹی نے کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔
وزیر اعلٰی بلوچستان کا مزید کہنا ہے کہ ’صوبے میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی جاری ہے، متعدد واقعات میں ملوث دہشت گرد پکڑے جا چکے ہیں اور اس واقعے میں ملوث دہشت گردوں کا پیچھا کر کے انھیں منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔‘
کیا اس دھماکے میں فوج کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا؟
بلوچ عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے ترجمان جیئند بلوچ نے میڈیا کو جاری کیے گئے بیان میں دعویٰ کیا کہ ’آج صبح کوئٹہ ریلوے سٹیشن میں پاکستانی فوج کے ایک دستے پر فدائی حملہ کیا گیا۔ حملہ بی ایل اے کی فدائی یونٹ مجید بریگیڈ نے سر انجام دیا جس کی تفصیلات جلد میڈیا کو جاری کی جائیں گی۔‘
کوئٹہ کے ایس ایس پی آپریشنز محمد بلوچ نے ریلوے سٹیشن پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عام افراد کے ساتھ ساتھ فوجی بھی اس سٹیشن کو نقل و حمل کے لیے استعمال کرتے ہیں اور ہلاکتوں اور زخمیوں میں فوجی اور سویلین دونوں شامل ہیں۔
تاحال پاکستانی فوج کی جانب سے اس واقعے کے حوالے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
یاد رہے کہ بلوچستان میں بی ایل اے کی جانب پاکستانی فوج اور اس کی تنصیبات کو ماضی میں بھی نشانہ بنایا جاتا رہا ہے جس میں 25 اور 26 اگست کی درمیانی شب تحصیل بیلہ میں ایف سی کیمپ پر ہونے والا حملہ بھی شامل ہے۔
’دھوئیں کے بادل چھٹے تو دیکھا کئی لوگ زمین پر گرے پڑے تھے‘
ناصر خان کوئٹہ میں سرکاری ملازمت کرتے ہیں اور وہ اس دھماکے کے عینی شاہد ہیں۔
انھوں نے صحافی محمد زبیر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اپنے دوست کو ریلوے سٹیشن پر الوداع کہنے گیا تھا۔ ابھی ہم ریلوے سٹیشن کے اندر داخل ہی ہوئے تھے کہ اچانک زوردار دھماکہ ہوا۔ دھماکہ بہت شدید تھا اور ایک دم ہی ہر طرف چیخ و پکار مچ گئی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’دھوئیں کے بادل ہٹے تو میں نے سب سے پہلے اپنے دوست اور دوست نے مجھے دیکھا۔ خوش قسمتی سے ہم دونوں محفوظ تھے مگر ہم سے کچھ فاصلے پر ٹکٹ والی کھڑکی تھی، میں نے دیکھا وہاں کئی لوگ زمین پر گرے پڑے تھے۔‘
ناصر خان کے مطابق ریلوے کھڑکی کے ارد گرد کچھ اور لوگ بھی زمین پر پڑے ہوئے تھے ’کچھ لوگ چیخ رہے تھے اور کچھ مدد مانگ رہے تھے۔‘
’جو لوگ زخمی نہیں ہوئے ان میں سے زیادہ تر سکتے کے عالم تھے۔ کچھ لوگوں کی مدد کرنے کی بھی کوشش کر رہے تھے کہ اس اثنا میں ایمبولینس اور پولیس موقع پر پہنچ گئی۔‘
’وہاں کا منظر ناقابل بیان تھا، کئی لوگوں کی حالت بہت خراب تھی‘
ایک اور عینی شاہد محمد اسلم نے صحافی محمد زبیر سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ٹرین نے نو بجے روانہ ہونا تھا۔ میں تقریباً آٹھ بجے ریلوے سٹیشن پہنچ گیا تھا۔ جس ٹرین پر میں نے سفر کرنا تھا اس نے پلیٹ فارم نمبر ایک سے نو بجے روانہ ہونا تھا۔ اس وقت کافی لوگ موجود تھے۔ کچھ لوگ مسافر ہوں گے اور کچھ انھیں الوداع کہنے آئے تھے۔‘
محمد اسلم کے مطابق ’ابھی چونکہ ٹرین پلیٹ فارم پر نہیں لگی تھی تو میں تھوڑا سائیڈ پر کھڑا ہو گیا تھا۔ میرا خیال تھا کہ میں چائے پی لوں اس غرض سے ٹائم دیکھا تو ابھی آٹھ بج کر بارہ منٹ ہوئے تھے۔ میں چائے والے کی طرف چلا تو یک دم ہی زوردار دھماکہ ہوا۔‘
محمد اسلم کا کہنا تھا کہ ’کئی سیکنڈ تک تو پتا ہی نہیں چلا اور سمجھ ہی نہیں آیا کہ کیا ہوا اور کیسے ہوا ہے۔ بس ہر طرف چیخ و پکار مچ گئی تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بہت سی لوگ زخمی تھے اور مجھے لگا کہ کافی لوگ بے حس بھی پڑے تھے۔ جن کے بارے میں میرا خیال تھا کہ وہ مر گئے ہیں۔‘
’وہاں کا منظر ناقابل بیان تھا، کئی لوگوں کی حالت بہت خراب تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں پہلی ایمبولینس دھماکے کے دس منٹ بعد پہنچی ہو گئی۔جس کے بعد مزید ایمبولینس بھی پہنچنا شروع ہو گئی تھیں۔‘