Anwar Masood Poetry, Ghazals & Shayari

Anwar Masood Poetry allows readers to express their inner feelings with the help of beautiful poetry. Anwar Masood shayari and ghazals is popular among people who love to read good poems. You can read 2 and 4 lines Poetry and download Anwar Masood poetry images can easily share it with your loved ones including your friends and family members. Up till, several books have been written on Anwar Masood Shayari. Urdu Ghazal readers have their own choice or preference and here you can read Anwar Masood poetry in Urdu & English from different categories.
- LATEST POETRY
- اردو
Ab Grammer Ka Yehi Kanoon Hona Chahiye
Nursery Ka Daakhla Bhi Ab Sar‘sari Mat Janiye
Aap Ke Bache Ko Aflaatoon Hona Chahiye
Raat Ko Bache Parhayi Ki Aziyat Se Bache
In Ko TV Ka Bohat Mamnoon Hona Chahiye
Doston English Zaroori Hai Hamare Wastey
Fail Honey Ko Bhi Koi Mazmoon Hona Chahiye
Sirf Mehnat Kya Hai Anwar Kamyaabi Ke Liye
Koi Ooper Se Bhi Telephone Hona Chahiye Farooq
Qurbaan Gaye Is Pe Dil O Jaan Waghera
Bili To Yunhi Muft Main Badnaam Huyi Hai
Thailay Main To Kuch Aur Tha Samaan Waghera
Be-Hirss O Gharazz Farzz Adaa Kijiye Apna
Jis Tarah Police Karti Hai Chalaan Waghera
Ab Hosh Nahin Koi Ke Badaam Kahan Hai
Ab Apni Hatheli Pe Hain Dandaan Wagera
Kis Naaz Se Woh Nazam Ko Keh Dete Hain Nassri
Jab Us Ke Khataa Hotay Hain Ausaan Waghera
Har Shirt Ki Bushart Banaa Daali Hai Anwar
Yuun Chaak Kiya Hum Ne Girebaan Waghera Nadeem
Ab Na Deewaar Na Zanjeer Dikhaayi De Gi
Yeh Dhundhlaka Sa Jo Is Ko Ghaneemat Samjho
Dekhna Phir Koi Suurat Na Sujhaayi De Gi
Dil Jo Tootay Ga To Ik-Tarfa Tamaasha Ho Ga
Kitne Aayinon Main Woh Shakal Dikhayi De Gi
Sath Ke Ghar Main Bara Shor Barpaa Hai Anwar
Koi Aaye Ga To Dasstak Na Sunaayi De Gi burhan
Kahti Hai Tujh Se Khalq-E-Khudaa Gaibanaa Kya
Zina Saba Kaa Dhundati Hai Apni Musht-E-Khaak
Baam-E-Baland Yaar Ka Hai Astana Kya
Ati Hai Kis Tarah Se Meri Kabz-E-Ruuh Ko
Dekhun To Maut Dhund Rahe Hai Bahana Kya
Betab Hai Kamal Hamara Dil-E-Aziim
Mahmaan Saray-E-Jism Ka Hoga Ravana Kya
deeba
Qurbaan Gaye Is Pe Dil-O-Jaan Wagera
Billi To Yunhi Muft Main Badnaam Huyi
Thailay Mein To Kuch Aur Tha Samaan Wagera
Be’hirss O Gharzz Farzz Adaa Ki Jiye Apna
Jis Tarah Police Karti Hai Chalaan Wagera
Ab Hosh Nahin Koi Ke Badaam Kahan Hai
Ab Apni Hatheli Pe Hain Dandaan Wagera
Har Shirt Ki Bushratt Bana Dali Hai Anwar
Yun Chaak Kiya Hum Ne Garebaan Wagera
Faizan
Ab Grammer Ka Yehi Kanoon Hona Chahiye
Nursery Ka Daakhla Bhi Ab Sar’sari Mat Janiye
Aap Ke Bache Ko Aflaatoon Hona Chahiye
Raat Ko Bache Parhayi Ki Aziyat Se Bache
In Ko TV Ka Bohat Mamnoon Hona Chahiye
Doston English Zaroori Hai Hamare Wastey
Fail Honey Ko Bhi Koi Mazmoon Hona Chahiye
Sirf Mehnat Kya Hai Anwar Kamyaabi Ke Liye
Koi Ooper Se Bhi Telephone Hona Chahiye Mohammad Asif
Ab Na Divar Na Zanjir Dikhai Degi
Vaqt Guzra Hai Par Mausam Nahin Badala Yaro
Aisi Gardish Hai Zamin Khud Bhi Duhai Degi
Ye Dhundalaka Sa Jo Hai Us Ko Ganimat Jano
Dekhna Phir Koi Surat Na Sujhai Degi
Dil Jo Tutega To Ik Tarfa Tamasha Hoga
Kitne Ainon Main Ye Shaql Dikhai Degi
Sath Ke Ghar Main Bara Shor Barpa Hai ‘Anwar’
Koi Ayega To Dastak Na Sunai Degi
Danish Afzal
Na Tujhe Qaraar Hota, Na Mujhe Qaraar Hota
Tera Har Marz Ulajhta, Meri Jaan-E-Na’tawan Se
Jo Tujhe Zukaam Hota To Mujhe Bukhaar Hota
Jo Mai Tujh Ko Yaad Karta, Tujhe Cheenkna Bhi Parta
Mere Sath Bhi Yaqeenan Yahi Baar Baar Hota
Kisi Chawk Mai Lagate Koi Chooriyun Ka Khokhaa
Tere Shehr Mai Bhi Apna, Koi Kaarobaar Hota
Gham-O-Ranj Aashiqaana, Nahi Calculatoraana
Usse Mai Shumaar Karta, Jo Na Be-Shumaar Hota
Wahan Zair-E-Behs Aate, Khad-O-Khal-O-Khuye Khoobaan
Ahmed Arif
کیا جب آنکھیں نہ رہیں گی تو اجالا ہوگا
مشغلہ اس نے عجب سونپ دیا ہے یارو
عمر بھر سوچتے رہیے کہ وہ کیسا ہوگا
جانے کس رنگ سے روٹھے گی طبیعت اس کی
جانے کس ڈھنگ سے اب اس کو منانا ہوگا
اس طرف شہر ادھر ڈوب رہا تھا سورج
کون سیلاب کے منظر پہ نہ رویا ہوگا
یہی انداز تجارت ہے تو کل کا تاجر
برف کے باٹ لیے دھوپ میں بیٹھا ہوگا
دیکھنا حال ذرا ریت کی دیواروں کا
جب چلی تیز ہوا ایک تماشا ہوگا
آستینوں کی چمک نے ہمیں مارا انورؔ
ہم تو خنجر کو بھی سمجھے ید بیضا ہوگا arbaz
سر چھپانے کو میسر تو ہے گھر جیسا بھی ہے
اس کو مجھ سے مجھ کو اس سے نسبتیں ہیں بے شمار
میری چاہت کا ہے محور یہ نگر جیسا بھی ہے
چل پڑا ہوں شوق بے پروا کو مرشد مان کر
راستہ پر پیچ ہے یا پر خطر جیسا بھی ہے
سب گوارا ہے تھکن ساری دکھن ساری چبھن
ایک خوشبو کے لئے ہے یہ سفر جیسا بھی ہے
وہ تو ہے مخصوص اک تیری محبت کے لئے
تیرا انورؔ با ہنر یا بے ہنر جیسا بھی ہے zainab
اب نہ دیوار نہ زنجیر دکھائی دے گی
وقت گزرا ہے پہ موسم نہیں بدلا یارو
ایسی گردش ہے زمیں خود بھی دہائی دے گی
یہ دھندلکا سا جو ہے اس کو غنیمت جانو
دیکھنا پھر کوئی صورت نہ سجھائی دے گی
دل جو ٹوٹے گا تو اک طرفہ چراغاں ہوگا
کتنے آئینوں میں وہ شکل دکھائی دے گی
ساتھ کے گھر میں ترا شور بپا ہے انورؔ
کوئی آئے گا تو دستک نہ سنائی دے گی yasir
جس کو دیکھو وہ یہی بات لیے پھرتا ہے
اس نے پیکر میں نہ ڈھلنے کی قسم کھائی ہے
اور مجھے شوق ملاقات لیے پھرتا ہے
شاخچہ ٹوٹ چکا کب کا شجر سے لیکن
اب بھی کچھ سوکھے ہوئے پات لیے پھرتا ہے
سوچئے جسم ہے اب روح سے کیسے روٹھے
اپنے سائے کو بھی جو سات لیے پھرتا ہے
آسماں اپنے ارادوں میں مگن ہے لیکن
آدمی اپنے خیالات لیے پھرتا ہے
پرتو مہر سے ہے چاند کی جھلمل انورؔ
اپنے کاسے میں یہ خیرات لیے پھرتا ہے Adeena
ہر شخص سرابوں کے تعاقب میں رواں ہے
تنہا تری محفل میں نہیں ہوں کہ مرے ساتھ
اک لذت پابندیٔ اظہار و بیاں ہے
حق بات پہ ہے زہر بھرے جام کی تعزیر
اے غیرت ایماں لب سقراط کہاں ہے
کھیتوں میں سماتی نہیں پھولی ہوئی سرسوں
باغوں میں ابھی تک وہی ہنگام خزاں ہے
احساس مرا ہجر گزیدہ ہے ازل سے
کیا مجھ کو اگر کوئی قریب رگ جاں ہے
جو دل کے سمندر سے ابھرتا ہے یقیں ہے
جو ذہن کے ساحل سے گزرتا ہے گماں ہے
پھولوں پہ گھٹاؤں کے تو سائے نہیں انورؔ
آوارۂ گلزار نشیمن کا دھواں ہے laibah
چھلکے پھلوں سے مہنگے ہوں گے
ننھی ننھی چیونٹیوں کے بھی
ہاتھی جیسے سائے ہوں گے
بھیڑ تو ہوگی لیکن پھر بھی
سونے سونے رستے ہوں گے
پھول کھلیں گے تنہا تنہا
جھرمٹ جھرمٹ کانٹے ہوں گے
لوگ اسے بھگوان کہیں گے
جس کی جیب میں پیسے ہوں گے
ریت جلے گی دھوپ میں انورؔ
برف پہ بادل چھائے ہوں گے bilal
وہ ایک بار ملے تھے تو پھر ملا کرتے
کواڑ گرچہ مقفل تھے اس حویلی کے
مگر فقیر گزرتے رہے صدا کرتے
ہمیں قرینۂ رنجش کہاں میسر ہے
ہم اپنے بس میں جو ہوتے ترا گلا کرتے
تری جفا کا فلک سے نہ تذکرہ چھیڑا
ہنر کی بات کسی کم ہنر سے کیا کرتے
تجھے نہیں ہے ابھی فرصت کرم نہ سہی
تھکے نہیں ہیں مرے ہاتھ بھی دعا کرتے
انہیں شکایت بے ربطی سخن تھی مگر
جھجک رہا تھا میں اظہار مدعا کرتے
چقیں گری تھیں دریچوں پہ چار سو انورؔ
نظر جھکا کے نہ چلتے تو اور کیا کرتے Zubair
اپنی آنکھوں سے بھی میں زخم چھپاؤں اپنے
میں تو قائم ہوں ترے غم کی بدولت ورنہ
یوں بکھر جاؤں کہ خود ہاتھ نہ آؤں اپنے
شعر لوگوں کے بہت یاد ہیں اوروں کے لیے
تو ملے تو میں تجھے شعر سناؤں اپنے
تیرے رستے کا جو کانٹا بھی میسر آئے
میں اسے شوق سے کالر پر سجاؤں اپنے
سوچتا ہوں کہ بجھا دوں میں یہ کمرے کا دیا
اپنے سائے کو بھی کیوں ساتھ جگاؤں اپنے
اس کی تلوار نے وہ چال چلی ہے اب کے
پاؤں کٹتے ہیں اگر ہاتھ بچاؤں اپنے
آخری بات مجھے یاد ہے اس کی انورؔ
جانے والے کو گلے سے نہ لگاؤں اپنے taha
دل میں اک تیری تمنا جو بسا رکھی ہے
سر بکف میں بھی ہوں شمشیر بکف ہے تو بھی
تو نے کس دن پہ یہ تقریب اٹھا رکھی ہے
دل سلگتا ہے ترے سرد رویے سے مرا
دیکھ اس برف نے کیا آگ لگا رکھی ہے
آئنہ دیکھ ذرا کیا میں غلط کہتا ہوں
تو نے خود سے بھی کوئی بات چھپا رکھی ہے
جیسے تو حکم کرے دل مرا ویسے دھڑکے
یہ گھڑی تیرے اشاروں سے ملا رکھی ہے
مطمئن مجھ سے نہیں ہے جو رعیت میری
یہ مرا تاج رکھا ہے یہ قبا رکھی ہے
گوہر اشک سے خالی نہیں آنکھیں انورؔ
یہی پونجی تو زمانے سے بچا رکھی ہے imran
بجلی نے گھٹاؤں پہ جو تحریر لکھی تھی
چپ سادھ کے بیٹھے تھے سبھی لوگ وہاں پر
پردے پہ جو تصویر تھی کچھ بول رہی تھی
لہراتے ہوئے آئے تھے وہ امن کا پرچم
پرچم کو اٹھائے ہوئے نیزے کی انی تھی
ڈوبے ہوئے تاروں پہ میں کیا اشک بہاتا
چڑھتے ہوئے سورج سے مری آنکھ لڑی تھی
اس وقت وہاں کون دھواں دیکھنے جائے
اخبار میں پڑھ لیں گے کہاں آگ لگی تھی
شبنم کی تراوش سے بھی دکھتا تھا دل زار
گھنگھور گھٹاؤں کو برسنے کی پڑی تھی
پلکوں کے ستارے بھی اڑا لے گئی انورؔ
وہ درد کی آندھی کہ سر شام چلی تھی ahsan
کچھ نہ کچھ میری وفاؤں کا صلا دے جاؤ
یوں نہ جاؤ کہ میں رو بھی نہ سکوں فرقت میں
میری راتوں کو ستاروں کی ضیا دے جاؤ
ایک بار آؤ کبھی اتنے اچانک پن سے
نا امیدی کو تحیر کی سزا دے جاؤ
دشمنی کا کوئی پیرایۂ نادر ڈھونڈو
جب بھی آؤ مجھے جینے کی دعا دے جاؤ
وہی اخلاص و مروت کی پرانی تہمت
دوستو کوئی تو الزام نیا دے جاؤ
کوئی صحرا بھی اگر راہ میں آئے انورؔ
دل یہ کہتا ہے کہ اک بار صدا دے جاؤ muneeb
کل جو شامل تھے ترے حاشیہ برداروں میں
زہر ایجاد کرو اور یہ پیہم سوچو
زندگی ہے کہ نہیں دوسرے سیاروں میں
کتنے آنسو ہیں کہ پلکوں پہ نہیں آ سکتے
کتنی خبریں ہیں جو چھپتی نہیں اخباروں میں
اب تو دریا کی طبیعت بھی ہے گرداب پسند
اور وہ پہلی سی سکت بھی نہیں پتواروں میں
آپ کے قصر کی جانب کوئی دیکھے توبہ
جرم ثابت ہو تو چن دیجئے دیواروں میں
آج تہذیب کے تیور بھی ہیں کاروں جیسے
دفن ہو جائے نہ کل اپنے ہی انباروں میں
اپنی آواز کو بھی کان ترستے ہیں مرے
جنس گفتار لیے پھرتا ہوں بازاروں میں
تہمتیں حضرت انساں پہ نہ دھرئیے انورؔ
دشمنی ہے کہ چلی آتی ہے تلواروں میں imtiaz
کس کو منظور یہ زہر غم دنیا ہوتا
کیا قیامت ہے کہ اب میں بھی نہیں وہ بھی نہیں
دیکھنا تھا تو اسے دور سے دیکھا ہوتا
کاسۂ زخم طلب لے کے چلا ہوں خالی
سنگ ریزہ ہی کوئی آپ نے پھینکا ہوتا
فلسفہ سر بہ گریباں ہے بڑی مدت سے
کچھ نہ ہوتا تو خدا جانے کہ پھر کیا ہوتا
ہم بھی نوخیز شعاعوں کی بلائیں لیتے
اپنے زنداں میں اگر کوئی دریچہ ہوتا
آپ نے حال دل زار تو پوچھا لیکن
پوچھنا تھا تو کوئی اس کا مداوا ہوتا
دست مفلس سے تہی تر ہے سفینہ انورؔ
اس پہنچنے سے تو ساحل پہ نہ پہنچا ہوتا
rubab
آئنے کی بات سچی ہے کہ میں تنہا نہیں
بیٹھیے پیڑوں کی اترن کا الاؤ تاپئے
برگ سوزاں کے سوا درویش کچھ رکھتا نہیں
اف چٹخنے کی صدا سے کس قدر ڈرتا ہوں میں
کتنی باتیں ہیں کہ دانستہ جنہیں سوچا نہیں
اپنی اپنی سب کی آنکھیں اپنی اپنی خواہشیں
کس نظر میں جانے کیا جچتا ہے کیا جچتا نہیں
چین کا دشمن ہوا اک مسئلہ میری طرف
اس نے کل دیکھا تھا کیوں اور آج کیوں دیکھا نہیں
اب جہاں لے جائے مجھ کو جلتی بجھتی آرزو
میں بھی اس جگنو کا پیچھا چھوڑنے والا نہیں
کیسی کیسی پرسشیں انورؔ رلاتی ہیں مجھے
کھیتیوں سے کیا کہوں میں ابر کیوں برسا نہیں sadia
سو اب یہ طے ہوا ہے شہر سے سادھو نکلتے ہیں
ہم آ نکلے عجب سے ایک صحرائے محبت میں
شکاری کے تعاقب میں یہاں آہو نکلتے ہیں
یہ اک منظر بہت ہے عمر بھر حیران رہنے کو
کہ مٹی کے مساموں سے بھی رنگ و بو نکلتے ہیں
ضمیر سنگ تجھ کو تیرا پیکر ساز آ پہنچا
ابھی آنکھیں ابھرتی ہیں ابھی آنسو نکلتے ہیں
کوئی نادر خزینہ ہے مرے دست تصرف میں
جھپٹنے کو در و دیوار سے بازو نکلتے ہیں
میں اپنے دشمنوں کا کس قدر ممنون ہوں انورؔ
کہ ان کے شر سے کیا کیا خیر کے پہلو نکلتے ہیں imama
مگر یہ آس کا رشتہ کہ ٹوٹتا بھی نہیں
گھرے ہوئے ہیں خموشی کی برف میں کب سے
کسی کے پاس کوئی تیشۂ صدا بھی نہیں
مآل غنچہ و گل ہے مری نگاہوں میں
مجھے تبسم کاذب کا حوصلہ بھی نہیں
طلوع صبح ازل سے میں ڈھونڈھتا تھا جسے
ملا تو ہے پہ مری سمت دیکھتا بھی نہیں
مری صدا سے بھی رفتار تیز تھی اس کی
مجھے گلہ بھی نہیں ہے جو وہ رکا بھی نہیں
بکھر گئی ہے نگاہوں کی روشنی ورنہ
نظر نہ آئے وہ اتنا تو فاصلہ بھی نہیں
سنا ہے آج کا موضوع مجلس تنقید
وہ شعر ہے کہ ابھی میں نے جو کہا بھی نہیں
سمٹ رہے ہیں ستاروں کے فاصلے انورؔ
پڑوسیوں کو مگر کوئی جانتا بھی نہیں
ishrat
کیا گھنے جنگل چھپے بیٹھے ہیں اک دانے کے بیچ
رفتہ رفتہ رخنہ رخنہ ہو گئی مٹی کی گیند
اب خلیجوں کے سوا کیا رہ گیا نقشے کے بیچ
میں تو باہر کے مناظر سے ابھی فارغ نہیں
کیا خبر ہے کون سے اسرار ہیں پردے کے بیچ
اے دل ناداں کسی کا روٹھنا مت یاد کر
آن ٹپکے گا کوئی آنسو بھی اس جھگڑے کے بیچ
سارے اخباروں میں دیکھوں حال اپنے برج کا
اب ملاقات اس سے ہوگی کون سے ہفتے کے بیچ
میں نے انورؔ اس لیے باندھی کلائی پر گھڑی
وقت پوچھیں گے کئی مزدور بھی رستے کے بیچ
mahad
کہ جس مقام پہ میں تھا وہاں اجالا تھا
درست ہے کہ وہ جنگل کی آگ تھی لیکن
وہیں قریب ہی دریا بھی اک گزرتا تھا
تم آ گئے تو چمکنے لگی ہیں دیواریں
ابھی ابھی تو یہاں پر بڑا اندھیرا تھا
لبوں پہ خیر تبسم بکھر بکھر ہی گیا
یہ اور بات کہ ہنسنے کو دل ترستا تھا
سنا ہے لوگ بہت سے ملے تھے رستے میں
مری نظر سے تو بس ایک شخص گزرا تھا
الجھ پڑی تھی مقدر سے آرزو میری
دام فراق اسے روکنا بھی چاہا تھا
مہک رہا ہے چمن کی طرح وہ آئینہ
کہ جس میں تو نے کبھی اپنا روپ دیکھا تھا
گھٹا اٹھی ہے تو پھر یاد آ گیا انورؔ
عجیب شخص تھا اکثر اداس رہتا تھا mehwish
ظالم اسے کہیے جو دہائی نہیں دیتا
کہتا ہے کہ آواز یہیں چھوڑ کے جاؤ
میں ورنہ تمہیں اذن رہائی نہیں دیتا
چرکے بھی لگے جاتے ہیں دیوار بدن پر
اور دست ستم گر بھی دکھائی نہیں دیتا
آنکھیں بھی ہیں رستا بھی چراغوں کی ضیا بھی
سب کچھ ہے مگر کچھ بھی سجھائی نہیں دیتا
اب اپنی زمیں چاند کے مانند ہے انورؔ
بولیں تو کسی کو بھی سنائی نہیں دیتا
burhan
مرے اندر بھی اک پہرا لگا تھا
ابھی آثار سے باقی ہیں دل میں
کبھی اس شہر میں میلہ لگا تھا
جدا ہوگی کسک دل سے نہ اس کی
جدا ہوتے ہوئے اچھا لگا تھا
اکٹھے ہو گئے تھے پھول کتنے
وہ چہرہ ایک باغیچہ لگا تھا
پئے جاتا تھا انورؔ آنسوؤں کو
عجب اس شخص کو چسکا لگا تھا
nadir
Anwar Masood Poetry in Urdu
Anwar Masood Poetry – When talk about humor, there are several poets in Pakistan. However, the name of Anwar Masood is well established between them. His poetry or kalam not just loved by the mature people but the young generation also enjoys it a lot. Mela Akhiyan Da, Roz Ba Roz, and Taqreeb are among his famous books collection.
 
 The best part about Anwar Masood is that he elaborates about different social issues on a very lighter note. The elements of comic, satire, and poignancy seem much visible in his poetry.He writes in multi-languages which include the divine Urdu, monumental and great Persian and raw Punjabi languages. Anwar Masood Qalam has found the way to express strong emotions creatively. If his verse contains comedy then necessarily does it contain poignancy in disguise and can be easily identified. With suck a skill, Anwar Masood Poetry does not sadden the reader but cheers him with comedic way and by using light & relatable words. However, he does not miss to aim for a subject when he moves his pen.
 
 Which are the key books and publications of Anwar Masood?
 
 Below you can check the famous books and publications written byAnwar Masood.
 • Taqreeb (Essays in different ceremonies)
 • Siddiqa Anwar kenaam (Collection of letters)
 • Shaakh-e-Tabassum (Essays based on humorous poets)
 • Saif-ul-Muluk (Urdu based translation in prose)
 • Qataa Kalami (Urdu Based Poetry)
 • Payan Safar Neest (Persian Based Poetry)
 • Meli Meli Dhoop (Environment Based Poetry)
 • Mela Akhiyan Da (Punjabi Based Poetry)
 • Kuch Urdu Kuch Punjabi (Punjabi and Urdu Poetry)
 • Hun Ki Kariye (Punjabi Based Poetry)
 • Ghuncha Phir Laga Khilnay (Humor Based Poetry)
 • Farsi Adab ke chand goshay (Research Based Work)
 • Ek Dareecha, Ek Chiragh (Urdu Based Poetry)
 • Darpesh (Humor Based Poetry)
 • Bariyaab (NaatsCollection in Persian, Punjabi, and Urdu)
 • Baat Se Baat (Radio Talks Compilation)
 
 Anwar Masood Poetry – A Brief Analysis
 
 The ideology behind the Anwar Masood Poetry is to disseminate Punjabi culture around the globe. His dialogue delivery of comic poetry is unique and venerable that allow person to request him to recite his verses again and again. Some of his famous poems and books include Anar Kali Diyan Shana, Aj Kee Pakaeay, Banyan, Juma Bazaar, Jehlam Da Pul, Ambri, Shakh-e-Tabasum and many more. Anwar Masood Poetry is considered to be the classical humor. He is well- recognized poet, who has performed in several international communities and also participated and judged different TV channel Poetry competition programs.
 
 As below Anwar Masood poetry brings in light the social and educational crisis of Pakistan in a very entertaining and precise way which surely conceals a great message for our systems. If one attempts to explain the verse, the vastness will be unpredictable.
 
 Dosto English Zaroori Hai Hamare Wastay
 Fail Honey Ko Bhi Koi Mazmoon Hona Chahiye
 
 Nursery Ka Daḳhila Bhi Sarsari Mat Janiye 
 Aap Ke Bachche Ko Aflatun Hona Chahiye 
 
 Sirf Mehnat Kya Hai 'Anwar' Kamyabi Ke Liye 
 Koi Uupar Se Bhi Telephone Hona Chahiye
 
 A deep wise mind with broad understanding of world twinned with humor and abilities of expressing satire without causing actually anger are the trait-collection which reminds us of the majestic Jaun Elia, matchless and remarkable Rahat Indori while Anwar Masood seem to originate from the same portal of poets as that of Jaun’s and Indori’s.
 
 Anwar Masood Shayari has nuance of tragedy in his poems which is a reflection of social injustice, discriminations and personal misfortunes of his characters. You can find complete Anwar Masood’s Poetry Collection online on HamariWeb.com. This page is wholly dedicated for Anwar Masood’s Shayari and Shayari lovers so if you are looking to read some entertaining, light and deep meaning Poetry, head on to Anwar Masood's Poetry section just below. While don’t forget to comment your reviews and feedbacks in the comment section.
 Read other famous Urdu Poets Shayari and Ghazalz such as  Khwaja Mir Dard,  Mirza Ghalib,  Zafar Iqbal and  Kaifi Azmi, etc on HamariWeb poetry.
 
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
 