Mir Taqi Mir Sad Poetry
Mir Taqi Mir Sad Poetry is best way to express your words and emotion. Check out the amazing collection of express your feeling in words. This section is based on a huge data of all the latest Mir Taqi Mir Sad Poetry that can be dedicated to your family, friends and love ones. Convey the inner feelings of heart with this world’s largest Mir Taqi Mir Sad Poetry compilation that offers an individual to show the sentiments through words.
آہ کریے کہ ٹک ہوا ہووے
جی ٹھہر جائے یا ہوا ہووے
دیکھیے ہوتے ہوتے کیا ہووے
کر نمک سود سینۂ مجروح
جی میں گر ہے کہ کچھ مزہ ہووے
کاہش دل کی کیجیے تدبیر
جان میں کچھ بھی جو رہا ہووے
چپ کا باعث ہے بے تمنائی
کہیے کچھ بھی تو مدعا ہووے
بیکلی مارے ڈالتی ہے نسیم
دیکھیے اب کے سال کیا ہووے
مر گئے ہم تو مر گئے تو جی
دل گرفتہ تری بلا ہووے
عشق کیا ہے درست اے ناصح
جانے وہ جس کا دل لگا ہووے
پھر نہ شیطاں سجود آدم سے
شاید اس پردے میں خدا ہووے
نہ سنا رات ہم نے اک نالہ
غالباً میرؔ مر رہا ہووے
اس خانماں خراب نے آنکھوں میں گھر کیا
رنگ اڑ چلا چمن میں گلوں کا تو کیا نسیم
ہم کو تو روزگار نے بے بال و پر کیا
نافع جو تھیں مزاج کو اول سو عشق میں
آخر انہیں دواؤں نے ہم کو ضرر کیا
مرتا ہوں جان دیں ہیں وطن داریوں پہ لوگ
اور سنتے جاتے ہیں کہ ہر اک نے سفر کیا
کیا جانوں بزم عیش کہ ساقی کی چشم دیکھ
میں صحبت شراب سے آگے سفر کیا
جس دم کہ تیغ عشق کھنچی بوالہوس کہاں
سن لیجیو کہ ہم ہی نے سینہ سپر کیا
دل زخمی ہو کے تجھ تئیں پہنچا تو کم نہیں
اس نیم کشتہ نے بھی قیامت جگر کیا
ہے کون آپ میں جو ملے تجھ سے مست ناز
ذوق خبر ہی نے تو ہمیں بے خبر کیا
وہ دشت خوف ناک رہا ہے مرا وطن
سن کر جسے خضر نے سفر سے حذر کیا
کچھ کم نہیں ہیں شعبدہ بازوں سے میگسار
دارو پلا کے شیخ کو آدم سے خر کیا
ہیں چاروں طرف خیمے کھڑے گرد باد کے
کیا جانیے جنوں نے ارادہ کدھر کیا
لکنت تری زبان کی ہے سحر جس سے شوخ
یک حرف نیم گفتہ نے دل پر اثر کیا
بے شرم محض ہے وہ گنہ گار جن نے میرؔ
ابر کرم کے سامنے داماں تر کیا
غم زدوں اندوہ گینوں ظلم کے ماروں میں تھے
دشمنی جانی ہے اب تو ہم سے غیروں کے لیے
اک سماں سا ہو گیا وہ بھی کہ ہم یاروں میں تھے
مت تبختر سے گزر قمری ہماری خاک پر
ہم بھی اک سرو رواں کے ناز برداروں میں تھے
مر گئے لیکن نہ دیکھا تو نے اودھر آنکھ اٹھا
آہ کیا کیا لوگ ظالم تیرے بیماروں میں تھے
شیخ جی مندیل کچھ بگڑی سی ہے کیا آپ بھی
رندوں بانکوں میکشوں آشفتہ دستاروں میں تھے
گرچہ جرم عشق غیروں پر بھی ثابت تھا ولے
قتل کرنا تھا ہمیں ہم ہی گنہ گاروں میں تھے
اک رہا مژگاں کی صف میں ایک کے ٹکڑے ہوئے
دل جگر جو میرؔ دونوں اپنے غم خواروں میں تھے
ہائے رے ذوق دل لگانے کے
میرے تغییر حال پر مت جا
اتفاقات ہیں زمانے کے
دم آخر ہی کیا نہ آنا تھا
اور بھی وقت تھے بہانے کے
اس کدورت کو ہم سمجھتے ہیں
ڈھب ہیں یہ خاک میں ملانے کے
بس ہیں دو برگ گل قفس میں صبا
نہیں بھوکے ہم آب و دانے کے
مرنے پر بیٹھے ہیں سنو صاحب
بندے ہیں اپنے جی چلانے کے
اب گریباں کہاں کہ اے ناصح
چڑھ گیا ہاتھ اس دوانے کے
چشم نجم سپہر جھپکے ہے
صدقے اس انکھڑیاں لڑانے کے
دل و دیں ہوش و صبر سب ہی گئے
آگے آگے تمہارے آنے کے
کب تو سوتا تھا گھر مرے آ کر
جاگے تالا غریب خانے کے
مژہ ابرو نگہ سے اس کی میرؔ
کشتہ ہیں اپنے دل لگانے کے
تیر و تلوار و سیل یکجا ہیں
سارے اسباب مار جانے کے
اکثر ہمارے ساتھ کے بیمار مر گئے
ہوتا نہیں ہے اس لب نوخط پہ کوئی سبز
عیسیٰ و خضر کیا سبھی یک بار مر گئے
یوں کانوں کان گل نے نہ جانا چمن میں آہ
سر کو پٹک کے ہم پس دیوار مر گئے
صد کارواں وفا ہے کوئی پوچھتا نہیں
گویا متاع دل کے خریدار مر گئے
مجنوں نہ دشت میں ہے نہ فرہاد کوہ میں
تھا جن سے لطف زندگی وے یار مر گئے
گر زندگی یہی ہے جو کرتے ہیں ہم اسیر
تو وے ہی جی گئے جو گرفتار مر گئے
افسوس وے شہید کہ جو قتل گاہ میں
لگتے ہی اس کے ہاتھ کی تلوار مر گئے
تجھ سے دو چار ہونے کی حسرت کے مبتلا
جب جی ہوئے وبال تو ناچار مر گئے
گھبرا نہ میرؔ عشق میں اس سہل زیست پر
جب بس چلا نہ کچھ تو مرے یار مر گئے
دل پر خوں کی اک گلابی سے
جی ڈھا جائے ہے سحر سے آہ
رات گزرے گی کس خرابی سے
کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے
اس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے
برقعہ اٹھتے ہی چاند سا نکلا
داغ ہوں اس کی بے حجابی سے
کام تھے عشق میں بہت پر میرؔ
ہم ہی فارغ ہوئے شتابی سے
اب دو تو جام خالی ہی دو میں نشے میں ہوں
ایک ایک قرط دور میں یوں ہی مجھے بھی دو
جام شراب پر نہ کرو میں نشے میں ہوں
مستی سے درہمی ہے مری گفتگو کے بیچ
جو چاہو تم بھی مجھ کو کہو میں نشے میں ہوں
یا ہاتھوں ہاتھ لو مجھے مانند جام مے
یا تھوڑی دور ساتھ چلو میں نشے میں ہوں
معذور ہوں جو پاؤں مرا بے طرح پڑے
تم سرگراں تو مجھ سے نہ ہو میں نشے میں ہوں
بھاگی نماز جمعہ تو جاتی نہیں ہے کچھ
چلتا ہوں میں بھی ٹک تو رہو میں نشے میں ہوں
نازک مزاج آپ قیامت ہیں میرؔ جی
جوں شیشہ میرے منہ نہ لگو میں نشے میں ہوں
چھوڑا وفا کو ان نے مروت کو کیا ہوا
امیدوار وعدۂ دیدار مر چلے
آتے ہی آتے یارو قیامت کو کیا ہوا
کب تک تظلم آہ بھلا مرگ کے تئیں
کچھ پیش آیا واقعہ رحمت کو کیا ہوا
اس کے گئے پر ایسے گئے دل سے ہم نشیں
معلوم بھی ہوا نہ کہ طاقت کو کیا ہوا
بخشش نے مجھ کو ابر کرم کی کیا خجل
اے چشم جوش اشک ندامت کو کیا ہوا
جاتا ہے یار تیغ بکف غیر کی طرف
اے کشتۂ ستم تری غیرت کو کیا ہوا
تھی صعب عاشقی کی بدایت ہی میرؔ پر
کیا جانیے کہ حال نہایت کو کیا ہوا
Mir Taqi Mir Sad Poetry - Express your feeling with Pakistan’s largest collection of Mir Taqi Mir Sad Poetry in Urdu. He was a good at Urdu language. Latest collections of Mir Taqi Mir Sad Shayari are here. You want to read your feelings with your loved ones, and then say it all with Mir Taqi Mir Sad Poetry that can be dedicated and shared easily from this online page.

