رہبر کہوں یا راہزن میں حاکمِ وطن کو
ویراں کر دیں خود جو تہذیب کے چمن کو
کیسے محافظ دیس کے کیسے ہیں چارہ گر یہ
اپنی ثقافت سے وراثت سے ہیں بے خبر یہ
ساحل سے کشتی ڈگمگاتی دیکھتے رہے یہ
طوفان جب تھمنے لگا ہر موج سے لڑے یہ
اے دخترِ مشرق حیا زیور رہا تیرا سدا
اغیار کے کیوں نام کر دی تو نے تن کی یہ رِدا
تجھ کو نہیں معلوم کہ معراجِ فن ہے کیا بھلا
اقبال کے اشعار میں پیغامِ زن ہے کیا بھلا
یہ تو سیاست دان دھجیاں دیس کی اُڑا دیں
یہ خود لگا دیں آگ بھی خود ہی اِسے بجھا دیں