آگ اک اور لگا دیں گے ہمارے آنسو
Poet: Naushad Ali By: Manahil, khi
آگ اک اور لگا دیں گے ہمارے آنسو
نکلے آنکھوں سے اگر دل کے سہارے آنسو
حاصل خون جگر دل کے ہیں پارے آنسو
بے بہا لعل و گہر ہیں یہ ہمارے آنسو
ہے کوئی اب جو لگی دل کی بجھائے میری
ہجر میں روکے گنوا بیٹھا ہوں سارے آنسو
اس مسیحا کی جو فرقت میں ہوں رویا شب بھر
بن گئے چرخ چہارم کے ستارے آنسو
خون دل خون جگر بہہ گیا پانی ہو کر
کچھ نہ کام آئے محبت میں ہمارے آنسو
مجھ کو سونے نہ دیا اشک فشانی نے مری
رات بھر گنتے رہے چرخ کے تارے آنسو
وہ سنور کر کبھی آئے جو تصور میں مرے
چشم مشتاق نے صدقے میں اتارے آنسو
پاس رسوائی نے چھوڑا نہ سکوں کا دامن
گرتے گرتے رکے آنکھوں کے کنارے آنسو
لطف اب آیا مری اشک فشانی کا حضور
پیاری آنکھوں سے کسی کے بہے پیارے آنسو
میری قسمت میں ہے رونا مجھے رو لینے دو
تم نہ اس طرح بہاؤ مرے پیارے آنسو
ماہ و انجم پہ نہ پھر اپنے کبھی ناز کرے
دیکھ لے چرخ کسی دن جو ہمارے آنسو
یوں ہی طوفاں جو اٹھاتے رہے کچھ دن نوشادؔ
آگ دنیا میں لگا دیں گے ہمارے آنسو
یاد رکھنے کی بات یاد کرو
کون چھوٹا کہاں کہاں چھوٹا
راہ کے حادثات یاد کرو
ابھی کل تک وفا کی راہوں میں
تم بھی تھے میرے ساتھ یاد کرو
مجھ سے کیا پوچھتے ہو حال مرا
خود کوئی واردات یاد کرو
جس دم آنکھیں ملی تھی آنکھوں سے
تھی کہاں کائنات یاد کرو
بھول آئے جبیں کو رکھ کے کہاں
کہاں پہنچے تھے رات یاد کرو
دل کو آئینہ گر بنانا ہے
آئینے کے صفات یاد کرو
نکلے گا چاند انہیں اندھیروں سے
ان سے ملنے کی رات یاد کرو
چھوڑو جانے دو جو ہوا سو ہوا
آج کیوں کل کی بات یاد کرو
کرنا ہے شاعری اگر نوشادؔ
میرؔ کا کلیات یاد کرو
نکلے آنکھوں سے اگر دل کے سہارے آنسو
حاصل خون جگر دل کے ہیں پارے آنسو
بے بہا لعل و گہر ہیں یہ ہمارے آنسو
ہے کوئی اب جو لگی دل کی بجھائے میری
ہجر میں روکے گنوا بیٹھا ہوں سارے آنسو
اس مسیحا کی جو فرقت میں ہوں رویا شب بھر
بن گئے چرخ چہارم کے ستارے آنسو
خون دل خون جگر بہہ گیا پانی ہو کر
کچھ نہ کام آئے محبت میں ہمارے آنسو
مجھ کو سونے نہ دیا اشک فشانی نے مری
رات بھر گنتے رہے چرخ کے تارے آنسو
وہ سنور کر کبھی آئے جو تصور میں مرے
چشم مشتاق نے صدقے میں اتارے آنسو
پاس رسوائی نے چھوڑا نہ سکوں کا دامن
گرتے گرتے رکے آنکھوں کے کنارے آنسو
لطف اب آیا مری اشک فشانی کا حضور
پیاری آنکھوں سے کسی کے بہے پیارے آنسو
میری قسمت میں ہے رونا مجھے رو لینے دو
تم نہ اس طرح بہاؤ مرے پیارے آنسو
ماہ و انجم پہ نہ پھر اپنے کبھی ناز کرے
دیکھ لے چرخ کسی دن جو ہمارے آنسو
یوں ہی طوفاں جو اٹھاتے رہے کچھ دن نوشادؔ
آگ دنیا میں لگا دیں گے ہمارے آنسو
ابھی زندگی کے بہانے بہت ہیں
یہ دنیا حقیقت کی قائل نہیں ہے
فسانے سناؤ فسانے بہت ہیں
ترے در کے باہر بھی دنیا پڑی ہے
کہیں جا رہیں گے ٹھکانے بہت ہیں
مرا اک نشیمن جلا بھی تو کیا ہے
چمن میں ابھی آشیانے بہت ہیں
نئے گیت پیدا ہوئے ہیں انہیں سے
جو پرسوز نغمے پرانے بہت ہیں
در غیر پر بھیک مانگو نہ فن کی
جب اپنے ہی گھر میں خزانے بہت ہیں
ہیں دن بدمذاقی کے نوشادؔ لیکن
ابھی تیرے فن کے دوانے بہت ہیں
تم اپنے جرم کو میرے حساب میں لکھنا
حدیث دل کو قلم سے نہ آشنا کرنا
کہانیاں ہی ہمیشہ جواب میں لکھنا
مجھے سمجھنے کی کوشش ہے شغل لا حاصل
جو چاہنا وہی تم میرے باب میں لکھنا
وہ کہتے ہیں لکھو نامہ مگر لحاظ رہے
ہمارا نام نہ ہرگز خطاب میں لکھنا
مٹا مٹا جو رہا ظلمتوں کے پردے میں
وہ حرف حق ورق آفتاب میں لکھنا
ہمیشہ جس کی ہوس کو تھی آرزوئے بہشت
اسی کی روح رہی تھی عذاب میں لکھنا
جو بات لکھنے کو تھا مضطرب بہت نوشادؔ
وہی میں بھول گیا اضطراب میں لکھنا
ہمیں سے یہ تماشہ ہے نہ ہم ہوتے تو کیا ہوتا
نہ ایسی منزلیں ہوتیں نہ ایسا راستہ ہوتا
سنبھل کر ہم ذرا چلتے تو عالم زیر پا ہوتا
گھٹا چھاتی بہار آتی تمہارا تذکرہ ہوتا
پھر اس کے بعد گل کھلتے کہ زخم دل ہرا ہوتا
زمانے کو تو بس مشق ستم سے لطف لینا ہے
نشانے پر نہ ہم ہوتے تو کوئی دوسرا ہوتا
ترے شان کرم کی لاج رکھ لی غم کے ماروں نے
نہ ہوتا غم تو اس دنیا میں ہر بندہ خدا ہوتا
مصیبت بن گئے ہیں اب تو یہ سانسوں کے دو تنکے
جلا تھا جب تو پورا آشیانہ جل گیا ہوتا
ہمیں تو ڈوبنا ہی تھا یہ حسرت رہ گئی دل میں
کنارے آپ ہوتے اور سفینہ ڈوبتا ہوتا
ارے او جیتے جی درد جدائی دینے والے سن
تجھے ہم صبر کر لیتے اگر مر کے جدا ہوتا
بلا کر تم نے محفل میں ہمیں غیروں سے اٹھوایا
ہمیں خود اٹھ گئے ہوتے اشارہ کر دیا ہوتا
ترے احباب تجھ سے مل کے پھر مایوس لوٹ آئے
تجھے نوشادؔ کیسی چپ لگی کچھ تو کہا ہوتا
دیکھ کر چپ تری تصویر پہ رونا آیا
کیا حسیں خواب محبت نے دکھائے تھے ہمیں
جب کھلی آنکھ تو تعبیر پہ رونا آیا
اشک بھر آئے جو دنیا نے ستم دل پہ کئے
اپنی لٹتی ہوئی جاگیر پہ رونا آیا
خون دل سے جو لکھا تھا وہ مٹا اشکوں سے
اپنے ہی نامے کی تحریر پہ رونا آیا
جب تلک قید تھے تقدیر پہ ہم روتے تھے
آج ٹوٹی ہوئی زنجیر پہ رونا آیا
راہ ہستی پہ چلا موت کی منزل پہ ملا
ہم کو اس راہ کے رہ گیر پہ رونا آیا
جو نشانے پہ لگا اور نہ پلٹ کر آیا
ہم کو نوشادؔ اسی تیر پہ رونا آیا






