Add Poetry

اس بات کی نہیں ہے کوئی انتہا نہ پوچھ

Poet: Josh Malihabadi By: wasif, khi
Is Baat Ki Nahi Hai Koi Intaha Na Pooch

اس بات کی نہیں ہے کوئی انتہا نہ پوچھ
اے مدعائے خلق مرا مدعا نہ پوچھ

کیا کہہ کے پھول بنتی ہیں کلیاں گلاب کی
یہ راز مجھ سے بلبل شیریں نوا نہ پوچھ

جتنے گدا نواز تھے کب کے گزر چکے
اب کیوں بچھائے بیٹھے ہیں ہم بوریا نہ پوچھ

پیش نظر ہے پست و بلند رہ جنوں
ہم بے خودوں سے قصۂ ارض و سما نہ پوچھ

سنبل سے واسطہ نہ چمن سے مناسبت
اس زلف مشکبار کا حال اے صبا نہ پوچھ

صد محفل نشاط ہے اک شعر دلنشیں
اس بربط سخن میں ہے کس کی صدا نہ پوچھ

کر رحم میرے جیب و گریباں پہ ہم نفس
چلتی ہے کوئے یار میں کیونکر ہوا نہ پوچھ

رہتا نہیں ہے دہر میں جب کوئی آسرا
اس وقت آدمی پہ گزرتی ہے کیا نہ پوچھ

ہر سانس میں ہے چشمۂ حیوان و سلسبیل
پھر بھی میں تشنہ کام ہوں یہ ماجرا نہ پوچھ

بندہ ترے وجود کا منکر نہیں مگر
دنیا نے کیا دیئے ہیں سبق اے خدا نہ پوچھ

کیوں جوشؔ راز دوست کی کرتا ہے جستجو
کہہ دو کوئی کہ شاہ کا حال اے گدا نہ پوچھ

Rate it:
Views: 1791
14 Jan, 2020
More Josh Malihabadi Poetry
ملا جو موقع تو روک دوں گا جلالؔ روز حساب تیرا ملا جو موقع تو روک دوں گا جلالؔ روز حساب تیرا
پڑھوں گا رحمت کا وہ قصیدہ کہ ہنس پڑے گا عتاب تیرا
یہی تو ہیں دو ستون محکم انہیں پہ قائم ہے نظم عالم
یہی تو ہے راز خلد و آدم نگاہ میری شباب تیرا
صبا تصدق ترے نفس پر چمن ترے پیرہن پہ قرباں
نسیم دوشیزگی میں کیسا بسا ہوا ہے شباب تیرا
تمام محفل کے روبرو گو اٹھائیں نظریں ملائیں آنکھیں
سمجھ سکا ایک بھی نہ لیکن سوال میرا جواب تیرا
ہزار شاخیں ادا سے لچکیں ہوا نہ تیرا سا لوچ پیدا
شفق نے کتنے ہی رنگ بدلے ملا نہ رنگ شباب تیرا
ادھر مرا دل تڑپ رہا ہے تری جوانی کی جستجو میں
ادھر مرے دل کی آرزو میں مچل رہا ہے شباب تیرا
کرے گی دونوں کا چاک پردہ رہے گا دونوں کو کر کے رسوا
یہ شورش ذوق دید میری یہ اہتمام حجاب تیرا
جڑیں پہاڑوں کی ٹوٹ جاتیں فلک تو کیا عرش کانپ اٹھتا
اگر میں دل پر نہ روک لیتا تمام زور شباب تیرا
بھلا ہوا جوشؔ نے ہٹایا نگاہ کا چشم تر سے پردہ
بلا سے جاتی رہیں گر آنکھیں کھلا تو بند نقاب تیرا
kinza
صبح بالیں پہ یہ کہتا ہوا غم خوار آیا صبح بالیں پہ یہ کہتا ہوا غم خوار آیا
اٹھ کہ فریاد رس عاشق بیمار آیا
بخت خوابیدہ گیا ظلمت شب کے ہم راہ
صبح کا نور لیے دولت بیدار آیا
خیر سے باغ میں پھر غنچہ گل رنگ کھلا
شکر ہے دور میں پھر ساغر سرشار آیا
جھوم اے تشنۂ گل بانگ نگار عشرت
کہ لب یار لیے چشمۂ گفتار آیا
شکر ایزد کہ وہ سرخیل مسیحا نفساں
زلف بر دوش پئے پرسش بیمار آیا
رخصت اے شکوۂ قسمت کہ سر بزم نشاط
ناسخ مسئلہ اندک و بسیار آیا
للہ الحمد کہ گلزار میں ہنگام صبوح
حکم آزادئ مرغان گرفتار آیا
غنچۂ بستہ چٹک جاگ اٹھی موج صبا
شعلۂ حسن بھڑک مصر کا بازار آیا
خوش ہو اے عشق کہ پھر حسن ہوا مائل ناز
مژدہ اے جنس محبت کہ خریدار آیا
اے نظر شکر بجا لا کہ کھلی زلف دراز
اے صدف آنکھ اٹھا ابر گہربار آیا
بادباں ناز سے لہرا کے چلی باد مراد
کارواں عید منا قافلہ سالار آیا
خوش ہو اے گوش کہ جبریل ترنم چہکا
مژدہ اے چشم کہ پیغمبر انوار آیا
خوش ہو اے پیر مغاں جوشؔ ہوا نغمہ فروش
مژدہ اے دختر رز رند قدح خوار آیا
murtaza
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets