اُلفت کی نظر سے ہمیں اک بار تو دیکھو
Poet: کاشف عمران By: کاشف عمران, Mianwaliاُلفت کی نظر سے ہمیں اک بار تو دیکھو
کرتے ہیں کیا کیا تُم پے نثار تو دیکھو
جذبے گر ہوں سچے اور دل میں لگن ہو
گِر جاتی ہے رستے کی ہر اک دیوار تو دیکھو
کروں کیسے اُس سے میں اپنے دل کی بات
کیا ہے میری اوقات، ذرا مرے سرکار تو دیکھو
دیتی ہے زخم ایسے، جس کا مرہم بھی نہیں کوئی
شمشیرسے بھی ہوتی ہے زبان تیز دھار تو دیکھو
بات جو بھی کرو جس بھی کرو پوری کرو
ٹوٹ جائے جو اک بار تو پھر ہوتا نہیں اعتبار تو دیکھو
زندگی ہو جائے گی آساں اور کبھی محتاج نہ ہوگے
چادر دیکھ کے گر پھیلاؤ گے پاؤں ہر بار تو دیکھو
ساتھ دے گا خود خدا بھی آپ کا ہر جگہ
ڈٹ جاؤ، جب بھی دو حق کی للکار تو دیکھو
بھاگے گا یہ باطل، چھٹ جائے گا یہ اندھیرا
ساتھ حق کا تم دے کر اک بار تو دیکھو
قبول ہوجائے گی زندگی کی تری ہر ایک دُعا
دل سے اپنے رب کو ہر وقت پکار تو دیکھو
چل ذرا سنبھل کے اور اُٹھا دیکھ کے اپنا ہر قدم
راہیں زندگی کی ہوتی نہیں ہموار تو دیکھو
ہارو نہ کبھی ہمت اور حوصلہ کبھی نہ چھوڑو
میداں میں تو گرتے ہیں شہسوار تو دیکھو
بھُول جاؤ گے دُنیا کے سب حسیں نظاروں کو
سبز گنبد کے ذرا جا کے تُم انوار تو دیکھو
خلقِ خدا کی خدمت سے ہی راحت ہے
خزاں میں بھی ہوجائے گی پھولوں کی مہکار تو دیکھو
کتنے خوش بخت ہیں وہ اور رشک کے قابل
کرتے ہیں جو ہر روز، ترا دیدار تو دیکھو
دل سے کھیلو گے گر یہ کھیل، تو کھیلو
عشق میں جیت ہوتی ہے نہ ہار تو دیکھو
پھول ہی پھول کھل جائیں گے تری راہوں میں
اووروں کے راستوں کے ہٹا کے تم خار تو دیکھو
گدا تو گدا ہیں جھکتے ہیں شاہ بھی وہاں پر
ایسا بھی ہے جہاں میں اک دربار تو دیکھو
کیسے ملیں گی منزلیں نہ جانے کب ملیں
قافلے کا اپنے ذرا تُم سردار تو دیکھو
رُخِ یار نظر آتے ہی آ جاتی ہی چہرے پہ رونق
عشق کا ایسا ہی ہے یارو یہ بیمار تو دیکھو
نفرت نہ کرو کسی سے، محبت کو عام کرو
بن جائے گی پھر یہ زندگی گلزار تو دیکھو
خوشی کو تو بھول جاتے ہیں جو ملتی ہے زندگی میں
غم کو ہی کر لیتے ہیں سر پہ سوار تو دیکھو
اپنے تو اپنے ہیں غیروں نے بھی جسے مانا ہے
ایسے ہیں مرے آقاﷺ، ہر اک کے غم خوار تو دیکھو
شکوہ اپنے رب کا کرتے ہو کہ نہیں سنتا دعائیں
اپنا گریباں جھانکو اور ذرا اپنے اطوار تو دیکھو
لقمے کو ترس رہا ہے، کوئی فاقے سے مر رہا ہے
کہیں پہ لگے ہیں مگر دولت کے انبار تو دیکھو
امید کی کرن ہو اور جو دل کو حوصلہ دے
ایسا کوئی کاشف زندگی میں اب آثار تو دیکھو
ہمیں دَردِ دِل کی سزا تو دے، مگر اپنے لَب کبھی کہہ نہ دے۔
یہ چراغِ اَشک ہے دوستو، اِسے شوق سے نہ بُجھا دینا،
یہی ایک ہمدمِ بے وفا، ہمیں بے خبر کبھی کہہ نہ دے۔
مجھے زَخم دے، مجھے رَنج دے، یہ گلہ نہیں مرے چارہ گر،
مگر اپنے فیض کی ایک گھڑی مرا مُستقل کبھی کہہ نہ دے۔
مرے عَزم میں ہے وہ اِستقامت کہ شرر بھی اپنا اَثر نہ دے،
مجھے ڈر فقط ہے نسیم سے کہ وہ خاکِ چمن کبھی کہہ نہ دے۔
وہ جو بیٹھے ہیں لبِ جام پر، وہ جو مَست ہیں مرے حال پر،
انہی بزم والوں سے ڈر ہے مظہرؔ کہ وہ میرا نشاں کبھی کہہ نہ دے۔
مجھے توڑنے کی ہوس نہ ہو، مجھے آزمانے کی ضِد نہ ہو،
مجھے قرب دَشت کا شوق ہے، کوئی کارواں کبھی کہہ نہ دے۔
یہ جو صَبر ہے یہ وَقار ہے، یہ وَقار میرا نہ لُوٹ لینا،
مجھے زَخم دے کے زمانہ پھر مجھے بے اَماں کبھی کہہ نہ دے۔
مرے حوصلے کی ہے اِنتہا کہ زمانہ جُھک کے سَلام دے،
مگر اے نگاہِ کرم سنَبھل، مجھے سَرکشی کبھی کہہ نہ دے۔
جو چراغ ہوں مرے آستاں، جو اُجالہ ہو مرے نام کا،
کسی بَدزبان کی سازشیں اُسے ناگہاں کبھی کہہ نہ دے۔
یہی عَرض مظہرؔ کی ہے فقط کہ وَفا کی آنچ سَلامت ہو،
کوئی دِلرُبا مرے شہر میں مجھے بے وَفا کبھی کہہ نہ دے۔
دل کی خوشی چھن گئی اور آنکھوں میں خاری بن گئی ہے۔
یادوں کے طوفاں چلے اور نیندیں بھی ساری بن گئی ہے،
غم کی وہ زنجیر جس کو توڑی تھی، بھاری بن گئی ہے۔
جس کو سمجھتے تھے راحتوں کی سواری بن گئی ہے،
زندگی سچ کہہ رہی، محض ایک مجبوری بن گئی ہے۔
ہر دن نئی اِک کسک دل میں بیداری بن گئی ہے،
سانسوں کی ڈوری بھی اب تو اِک مجبوری بن گئی ہے۔
خوابوں کا عالم بھی اب محض بیقراری بن گئی ہے،
چاہت تھی جو روشنی، اب تو تاریکی بن گئی ہے۔
کل جو تھا دلکش بہت، آج وہ بیزاری بن گئی ہے،
رنگوں کی دنیا بھی مظہرؔ سنساری بن گئی ہے۔
لمحے جو تھے خوشنما، اب تو عیاری بن گئی ہے،
حالات کی موج ہر پل اِک دشواری بن گئی ہے۔
یادوں کا طوفان اب دل پہ سرکاری بن گئی ہے،
پہلے جو راحت تھی وہ زخمِ کاری بن گئی ہے۔
مظہرؔ جو کل تک دل میں تھی ایک چنگاری بن گئی ہے،
اب تو محبت ہر سمت کی بازار داری بن گئی ہے۔
دل کو تیری نظر لُٹا دیں گے
جس کو چاہا تھا اپنی دنیا میں
ہم وہی درد اب لگا دیں گے
خود سُنے گا زمانہ قصّہ اپنا
غم کی محفل میں یہ سُنا دیں گے
خاک ہونے کا کب گِلہ ہم کو
اپنے ارمان سب جلا دیں گے
وقت کی گرد میں چھپا ہر زخم
پھر کسی دن تمہیں چُبھا دیں گے
زندگی کا ہر اِک فسانہ ہم
دھوپ میں اپنے نام مِٹا دیں گے
میرے مظہرؔ نہ پوچھ دردِ دل
جو کمایا ہے سب اُڑا دیں گے






