ایک قطرہ اشک کا چھلکا تو دریا کر دیا
Poet: Adil Mansuri By: nusrat, khi
ایک قطرہ اشک کا چھلکا تو دریا کر دیا
ایک مشت خاک جو بکھری تو صحرا کر دیا
میرے ٹوٹے حوصلے کے پر نکلتے دیکھ کر
اس نے دیواروں کو اپنی اور اونچا کر دیا
واردات قلب لکھی ہم نے فرضی نام سے
اور ہاتھوں ہاتھ اس کو خود ہی لے جا کر دیا
اس کی ناراضی کا سورج جب سوا نیزے پہ تھا
اپنے حرف عجز ہی نے سر پہ سایہ کر دیا
دنیا بھر کی خاک کوئی چھانتا پھرتا ہے اب
آپ نے در سے اٹھا کر کیسا رسوا کر دیا
اب نہ کوئی خوف دل میں اور نہ آنکھوں میں امید
تو نے مرگ ناگہاں بیمار اچھا کر دیا
بھول جا یہ کل ترے نقش قدم تھے چاند پر
دیکھ ان ہاتھوں کو کس نے آج کاسہ کر دیا
ہم تو کہنے جا رہے تھے ہمزہ یے والسلام
بیچ میں اس نے اچانک نون غنہ کر دیا
ہم کو گالی کے لیے بھی لب ہلا سکتے نہیں
غیر کو بوسہ دیا تو منہ سے دکھلا کر دیا
تیرگی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے آخر میاں
سرخ پرچم کو جلا کر ہی اجالا کر دیا
بزم میں اہل سخن تقطیع فرماتے رہے
اور ہم نے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر دیا
جانے کس کے منتظر بیٹھے ہیں جھاڑو پھیر کر
دل سے ہر خواہش کو عادلؔ ہم نے چلتا کر دیا
اک شخص چیختا ہے سمندر کے آر پار
آنکھوں سے راہ نکلی ہے تحت الشعور تک
رگ رگ میں رینگتا ہے سلگتا ہوا خمار
گرتے رہے نجوم اندھیرے کی زلف سے
شب بھر رہیں خموشیاں سایوں سے ہمکنار
دیوار و در پہ خوشبو کے ہالے بکھر گئے
تنہائی کے فرشتوں نے چومی قبائے یار
کب تک پڑے رہو گے ہواؤں کے ہاتھ میں
کب تک چلے گا کھوکھلے شبدوں کا کاروبار
ہیں ان کے دل میں وسوسے اب احتساب کے
وہ جو تمہارے ہاتھ سے آ کر نکل گیا
ہم بھی قتیل ہیں اسی خانہ خراب کے
پھولوں کی سیج پر ذرا آرام کیا کیا
اس گلبدن پہ نقش اٹھ آئے گلاب کے
سوئے تو دل میں ایک جہاں جاگنے لگا
جاگے تو اپنی آنکھ میں جالے تھے خواب کے
بس تشنگی کی آنکھ سے دیکھا کرو انہیں
دریا رواں دواں ہیں چمکتے سراب کے
اوکاڑہ اتنی دور نہ ہوتا تو ایک دن
بھر لاتے سانس سانس میں گل آفتاب کے
کس طرح جمع کیجیے اب اپنے آپ کو
کاغذ بکھر رہے ہیں پرانی کتاب کے
سورج کا ہاتھ شام کی گردن پہ جا پڑا
چھت پر پگھل کے جم گئی خوابوں کی چاندنی
کمرے کا درد ہانپتے سایوں کو کھا گیا
بستر میں ایک چاند تراشا تھا لمس نے
اس نے اٹھا کے چائے کے کپ میں ڈبو دیا
ہر آنکھ میں تھی ٹوٹتے لمحوں کی تشنگی
ہر جسم پہ تھا وقت کا سایہ پڑا ہوا
دیکھا تھا سب نے ڈوبنے والے کو دور دور
پانی کی انگلیوں نے کنارے کو چھو لیا
آئے گی رات منہ پہ سیاہی ملے ہوئے
رکھ دے گا دن بھی ہاتھ میں کاغذ پھٹا ہوا
سایہ سایہ ٹوٹ گیا
جب گل کا سینہ چیرا
خوشبو کا کانٹا نکلا
تو کس کے کمرے میں تھی
میں تیرے کمرے میں تھا
کھڑکی نے آنکھیں کھولی
دروازے کا دل دھڑکا
دل کی اندھی خندق میں
خواہش کا تارا ٹوٹا
جسم کے کالے جنگل میں
لذت کا چیتا لپکا
پھر بالوں میں رات ہوئی
پھر ہاتھوں میں چاند کھلا
اندھیروں کے اندر اتر جاؤں گا
مری پتیاں ساری سوکھی ہوئیں
نئے موسموں میں بکھر جاؤں گا
اگر آ گیا آئنہ سامنے
تو اپنے ہی چہرے سے ڈر جاؤں گا
وہ اک آنکھ جو میری اپنی بھی ہے
نہ آئی نظر تو کدھر جاؤں گا
وہ اک شخص آواز دے گا اگر
میں خالی سڑک پر ٹھہر جاؤں گا
پلٹ کر نہ پایا کسی کو اگر
تو اپنی ہی آہٹ سے ڈر جاؤں گا
تری ذات میں سانس لی ہے سدا
تجھے چھوڑ کر میں کدھر جاؤں گا






