تیرے لیے چلے تھے ہم تیرے لیے ٹھہر گئے
Poet: Adeem Hashmi By: ali, khi
تیرے لیے چلے تھے ہم تیرے لیے ٹھہر گئے
تو نے کہا تو جی اٹھے تو نے کہا تو مر گئے
کٹ ہی گئی جدائی بھی کب یہ ہوا کہ مر گئے
تیرے بھی دن گزر گئے میرے بھی دن گزر گئے
تو بھی کچھ اور اور ہے ہم بھی کچھ اور اور ہیں
جانے وہ تو کدھر گیا جانے وہ ہم کدھر گئے
راہوں میں ہی ملے تھے ہم راہیں نصیب بن گئیں
وہ بھی نہ اپنے گھر گیا ہم بھی نہ اپنے گھر گئے
وقت ہی جدائی کا اتنا طویل ہو گیا
دل میں ترے وصال کے جتنے تھے زخم بھر گئے
ہوتا رہا مقابلہ پانی کا اور پیاس کا
صحرا امڈ امڈ پڑے دریا بپھر بپھر گئے
وہ بھی غبار خواب تھا ہم بھی غبار خواب تھے
وہ بھی کہیں بکھر گیا ہم بھی کہیں بکھر گئے
کوئی کنار آب جو بیٹھا ہوا ہے سرنگوں
کشتی کدھر چلی گئی جانے کدھر بھنور گئے
آج بھی انتظار کا وقت حنوط ہو گیا
ایسا لگا کہ حشر تک سارے ہی پل ٹھہر گئے
بارش وصل وہ ہوئی سارا غبار دھل گیا
وہ بھی نکھر نکھر گیا ہم بھی نکھر نکھر گئے
آب محیط عشق کا بحر عجیب بحر ہے
تیرے تو غرق ہو گئے ڈوبے تو پار کر گئے
اتنے قریب ہو گئے اپنے رقیب ہو گئے
وہ بھی عدیمؔ ڈر گیا ہم بھی عدیمؔ ڈر گئے
اس کے سلوک پر عدیمؔ اپنی حیات و موت ہے
وہ جو ملا تو جی اٹھے وہ نہ ملا تو مر گئے
تو نے کہا تو جی اٹھے تو نے کہا تو مر گئے
کٹ ہی گئی جدائی بھی کب یہ ہوا کہ مر گئے
تیرے بھی دن گزر گئے میرے بھی دن گزر گئے
تو بھی کچھ اور اور ہے ہم بھی کچھ اور اور ہیں
جانے وہ تو کدھر گیا جانے وہ ہم کدھر گئے
راہوں میں ہی ملے تھے ہم راہیں نصیب بن گئیں
وہ بھی نہ اپنے گھر گیا ہم بھی نہ اپنے گھر گئے
وقت ہی جدائی کا اتنا طویل ہو گیا
دل میں ترے وصال کے جتنے تھے زخم بھر گئے
ہوتا رہا مقابلہ پانی کا اور پیاس کا
صحرا امڈ امڈ پڑے دریا بپھر بپھر گئے
وہ بھی غبار خواب تھا ہم بھی غبار خواب تھے
وہ بھی کہیں بکھر گیا ہم بھی کہیں بکھر گئے
کوئی کنار آب جو بیٹھا ہوا ہے سرنگوں
کشتی کدھر چلی گئی جانے کدھر بھنور گئے
آج بھی انتظار کا وقت حنوط ہو گیا
ایسا لگا کہ حشر تک سارے ہی پل ٹھہر گئے
بارش وصل وہ ہوئی سارا غبار دھل گیا
وہ بھی نکھر نکھر گیا ہم بھی نکھر نکھر گئے
آب محیط عشق کا بحر عجیب بحر ہے
تیرے تو غرق ہو گئے ڈوبے تو پار کر گئے
اتنے قریب ہو گئے اپنے رقیب ہو گئے
وہ بھی عدیمؔ ڈر گیا ہم بھی عدیمؔ ڈر گئے
اس کے سلوک پر عدیمؔ اپنی حیات و موت ہے
وہ جو ملا تو جی اٹھے وہ نہ ملا تو مر گئے
اس نے پوچھا تو ہے اتنا ترا حال اچھا ہے
ماہ اچھا ہے بہت ہی نہ یہ سال اچھا ہے
پھر بھی ہر ایک سے کہتا ہوں کہ حال اچھا ہے
ترے آنے سے کوئی ہوش رہے یا نہ رہے
اب تلک تو ترے بیمار کا حال اچھا ہے
یہ بھی ممکن ہے تری بات ہی بن جائے کوئی
اسے دے دے کوئی اچھی سی مثال اچھا ہے
دائیں رخسار پہ آتش کی چمک وجہ جمال
بائیں رخسار کی آغوش میں خال اچھا ہے
آؤ پھر دل کے سمندر کی طرف لوٹ چلیں
وہی پانی وہی مچھلی وہی جال اچھا ہے
کوئی دینار نہ درہم نہ ریال اچھا ہے
جو ضرورت میں ہو موجود وہ مال اچھا ہے
کیوں پرکھتے ہو سوالوں سے جوابوں کو عدیمؔ
ہونٹ اچھے ہوں تو سمجھو کہ سوال اچھا ہے
سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا
وہ کہ خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سو
میں اسے محسوس کر سکتا تھا چھو سکتا نہ تھا
رات بھر پچھلی سی آہٹ کان میں آتی رہی
جھانک کر دیکھا گلی میں کوئی بھی آیا نہ تھا
میں تری صورت لیے سارے زمانے میں پھرا
ساری دنیا میں مگر کوئی ترے جیسا نہ تھا
آج ملنے کی خوشی میں صرف میں جاگا نہیں
تیری آنکھوں سے بھی لگتا ہے کہ تو سویا نہ تھا
یہ سبھی ویرانیاں اس کے جدا ہونے سے تھیں
آنکھ دھندلائی ہوئی تھی شہر دھندلایا نہ تھا
سینکڑوں طوفان لفظوں میں دبے تھے زیر لب
ایک پتھر تھا خموشی کا کہ جو ہٹتا نہ تھا
یاد کر کے اور بھی تکلیف ہوتی تھی عدیمؔ
بھول جانے کے سوا اب کوئی بھی چارا نہ تھا
مصلحت نے اجنبی ہم کو بنایا تھا عدیمؔ
ورنہ کب اک دوسرے کو ہم نے پہچانا نہ تھا






