رس ان آنکھوں کا ہے کہنے کو ذرا سا پانی
Poet: Arzoo Lakhnavi By: tanvir, khi
رس ان آنکھوں کا ہے کہنے کو ذرا سا پانی 
 سینکڑوں ڈوب گئے پھر بھی ہے اتنا پانی 
 
 آنکھ سے بہہ نہیں سکتا ہے بھرم کا پانی 
 پھوٹ بھی جائے گا چھالا تو نہ دے گا پانی 
 
 چاہ میں پاؤں کہاں آس کا میٹھا پانی 
 پیاس بھڑکی ہوئی ہے اور نہیں ملتا پانی 
 
 دل سے لوکا جو اٹھا آنکھ سے ٹپکا پانی 
 آگ سے آج نکلتے ہوئے دیکھا پانی 
 
 کس نے بھیگے ہوئے بالوں سے یہ جھٹکا پانی 
 جھوم کر آئی گھٹا ٹوٹ کے برسا پانی 
 
 پھیلتی دھوپ کا ہے روپ لڑکپن کا اٹھان 
 دوپہر ڈھلتے ہی اترے گا یہ چڑھتا پانی 
 
 ٹکٹکی باندھے وہ تکتے ہیں میں اس گھات میں ہوں 
 کہیں کھانے لگے چکر نہ یہ ٹھہرا پانی 
 
 کوئی متوالی گھٹا تھی کہ جوانی کی امنگ 
 جی بہا لے گیا برسات کا پہلا پانی 
 
 ہاتھ جل جائے گا چھالا نہ کلیجے کا چھوؤ 
 آگ مٹھی میں دبی ہے نہ سمجھنا پانی 
 
 رس ہی رس جن میں ہے پھر سیل ذرا سی بھی نہیں 
 مانگتا ہے کہیں ان آنکھوں کا مارا پانی 
 
 نہ ستا اس کو جو چپ رہ کے بھرے ٹھنڈی سانس 
 یہ ہوا کرتی ہے پتھر کا کلیجہ پانی 
 
 یہ پسینہ وہی آنسو ہیں جو پی جاتے تھے ہم 
 آرزوؔ لو وہ کھلا بھید وہ ٹوٹا پانی
سینکڑوں ڈوب گئے پھر بھی ہے اتنا پانی
آنکھ سے بہہ نہیں سکتا ہے بھرم کا پانی
پھوٹ بھی جائے گا چھالا تو نہ دے گا پانی
چاہ میں پاؤں کہاں آس کا میٹھا پانی
پیاس بھڑکی ہوئی ہے اور نہیں ملتا پانی
دل سے لوکا جو اٹھا آنکھ سے ٹپکا پانی
آگ سے آج نکلتے ہوئے دیکھا پانی
کس نے بھیگے ہوئے بالوں سے یہ جھٹکا پانی
جھوم کر آئی گھٹا ٹوٹ کے برسا پانی
پھیلتی دھوپ کا ہے روپ لڑکپن کا اٹھان
دوپہر ڈھلتے ہی اترے گا یہ چڑھتا پانی
ٹکٹکی باندھے وہ تکتے ہیں میں اس گھات میں ہوں
کہیں کھانے لگے چکر نہ یہ ٹھہرا پانی
کوئی متوالی گھٹا تھی کہ جوانی کی امنگ
جی بہا لے گیا برسات کا پہلا پانی
ہاتھ جل جائے گا چھالا نہ کلیجے کا چھوؤ
آگ مٹھی میں دبی ہے نہ سمجھنا پانی
رس ہی رس جن میں ہے پھر سیل ذرا سی بھی نہیں
مانگتا ہے کہیں ان آنکھوں کا مارا پانی
نہ ستا اس کو جو چپ رہ کے بھرے ٹھنڈی سانس
یہ ہوا کرتی ہے پتھر کا کلیجہ پانی
یہ پسینہ وہی آنسو ہیں جو پی جاتے تھے ہم
آرزوؔ لو وہ کھلا بھید وہ ٹوٹا پانی
آنکھوں سے خوں بہائے جا ہونٹوں سے مسکرائے جا
جانے سے پہلے بے وفا شب کو سحر بنائے جا
دل کو بجھا کے کیا چلا شمع کو بھی بجھائے جا
سانس کا تار ٹوٹ جائے ٹوٹے نہ تار آہ کا
ایک ہی لے پہ گائے جا ایک ہی دھن بجائے جا
حکم طلب کے منتظر شوق کی آبرو نہ کھو
سر کو قدم بنا کے چل آنکھوں سے بے بلائے جا
لے وہ دوائے تلخ ہے جس کا اثر ہے خوش گوار
پینے میں منہ بنائے جا دل میں مزے اٹھائے جا
جوشش چشم اشک بار مفت نہ رکھ کرم کا بار
میری لگی تو بجھ چکی اپنی لگی بجھائے جا
منزل بے خودیٔ شوق حد نظر سے دور ہے
پیچھے پلٹ کے بھی نہ دیکھ آگے قدم بڑھائے جا
اک ہمہ تن ہے پائے ناز اک ہمہ تن سر نیاز
یہ تو چلن جہاں کا ہے جتنا دے دبائے جا
ظرف شراب تیرے پاس ظروف سرور میرے پاس
دل تو نہیں بقدر جام دیکھ نہ منہ پلائے جا
دونوں ہیں ناز دلبری ضد میں ہے جن کی اور لطف
ایک طرف لگائے جا ایک طرف بجھائے جا
چاند میں گم چکور خود چاند کہیں چھپا ہوا
اپنی تلاش ختم کر اس کا پتہ لگائے جا
آرزوؔ اس سے کہہ دو صاف غم کا اثر ہے دیر پا
جلد ہنسی نہ آئے گی اور ابھی گدگدائے جا
دل سے نہیں اب جانے والا
گھر کو پھونک کے جانے والا
پھر کے نہیں ہے آنے والا
دوست تو ہے نادان ہے لیکن
بے سمجھے سمجھانے والا
آنسو پونچھ کے ہنس دیتا ہے
آگ میں آگ لگانے والا
ہے جو کوئی تو دھیان اسی کا
آنے والا جانے والا
حسن کی بستی میں ہے یارو
کوئی ترس بھی کھانے والا
ڈال رہا ہے کام میں مشکل
مشکل میں کام آنے والا
دی تھی تسلی یہ کس دل سے
چپ نہ ہوا چلانے والا
خواب کے پردے میں آتا ہے
سوتا پا کے جگانے والا
اک دن پردہ خود الٹے گا
چھپ چھپ کے ترسانے والا
آرزوؔ ان کے آگے ہے چپ کیوں
تم سا باتیں بنانے والا







 
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
 