عجب معمول ہے آوارگی کا
Poet: Aftab Shakeel By: Kashaf, khi
عجب معمول ہے آوارگی کا
گریباں جھانکتی ہے ہر گلی کا
نہ جانے کس طرح کیسے خدا نے
بھروسہ کر لیا تھا آدمی کا
ابھی اس وقت ہے جو کچھ ہے ورنہ
کوئی لمحہ نہیں موجودگی کا
مجھے تم سے بچھڑنے کے عوض میں
وسیلہ مل گیا ہے شاعری کا
زمیں ہے رقص میں سورج کی جانب
چھپا کر جسم آدھا تیرگی کا
میں اک ہی سطح پر ٹھہروں گا کیسے
اترتا چڑھتا پانی ہوں ندی کا
میں مٹی گوندھ کر یہ سوچتا ہوں
مجھے فن آ گیا کوزہ گری کا
کھٹک جاؤں گا صوفے کو تمہارے
میں بندہ بیٹھنے والا دری کا
میں اس منظر میں پایا ہی گیا کب
جہاں بھی زاویہ نکلا خوشی کا
سمندر جس کی آنکھوں کا ہو خالی
وہ کیسے خواب دیکھے جل پری کا
نکالو کیل کو دیوار میں سے
وگرنہ ٹانگ لو فوٹو کسی کا
More Aftab Shakeel Poetry
فرضی دعویدار ہے فرضی دعویدار ہے
اپنی جو بھی یاری ہے
میرے وعدے پر مت جا
یہ بالکل سرکاری ہے
وقت کو کوسو کے اس کی
رگ رگ میں مکاری ہے
اور بھلا کیا ہے جینا
مرنے کی تیاری ہے
اک بس تو ہی ہے تیرا
باقی دنیا داری ہے
اور تو کیا کرتے تنہا
خود سے ہی جھک ماری ہے
تم کو پڑھ کر بھول گیا
دل بھی کیسا کاری ہے
دل نے عشق کی ناکامی
قسمت پر دے ماری ہے
غم کو اماں دینا آفیؔ
صدموں کی فن کاری ہے
اپنی جو بھی یاری ہے
میرے وعدے پر مت جا
یہ بالکل سرکاری ہے
وقت کو کوسو کے اس کی
رگ رگ میں مکاری ہے
اور بھلا کیا ہے جینا
مرنے کی تیاری ہے
اک بس تو ہی ہے تیرا
باقی دنیا داری ہے
اور تو کیا کرتے تنہا
خود سے ہی جھک ماری ہے
تم کو پڑھ کر بھول گیا
دل بھی کیسا کاری ہے
دل نے عشق کی ناکامی
قسمت پر دے ماری ہے
غم کو اماں دینا آفیؔ
صدموں کی فن کاری ہے
hadia
عجب معمول ہے آوارگی کا عجب معمول ہے آوارگی کا
گریباں جھانکتی ہے ہر گلی کا
نہ جانے کس طرح کیسے خدا نے
بھروسہ کر لیا تھا آدمی کا
ابھی اس وقت ہے جو کچھ ہے ورنہ
کوئی لمحہ نہیں موجودگی کا
مجھے تم سے بچھڑنے کے عوض میں
وسیلہ مل گیا ہے شاعری کا
زمیں ہے رقص میں سورج کی جانب
چھپا کر جسم آدھا تیرگی کا
میں اک ہی سطح پر ٹھہروں گا کیسے
اترتا چڑھتا پانی ہوں ندی کا
میں مٹی گوندھ کر یہ سوچتا ہوں
مجھے فن آ گیا کوزہ گری کا
کھٹک جاؤں گا صوفے کو تمہارے
میں بندہ بیٹھنے والا دری کا
میں اس منظر میں پایا ہی گیا کب
جہاں بھی زاویہ نکلا خوشی کا
سمندر جس کی آنکھوں کا ہو خالی
وہ کیسے خواب دیکھے جل پری کا
نکالو کیل کو دیوار میں سے
وگرنہ ٹانگ لو فوٹو کسی کا
گریباں جھانکتی ہے ہر گلی کا
نہ جانے کس طرح کیسے خدا نے
بھروسہ کر لیا تھا آدمی کا
ابھی اس وقت ہے جو کچھ ہے ورنہ
کوئی لمحہ نہیں موجودگی کا
مجھے تم سے بچھڑنے کے عوض میں
وسیلہ مل گیا ہے شاعری کا
زمیں ہے رقص میں سورج کی جانب
چھپا کر جسم آدھا تیرگی کا
میں اک ہی سطح پر ٹھہروں گا کیسے
اترتا چڑھتا پانی ہوں ندی کا
میں مٹی گوندھ کر یہ سوچتا ہوں
مجھے فن آ گیا کوزہ گری کا
کھٹک جاؤں گا صوفے کو تمہارے
میں بندہ بیٹھنے والا دری کا
میں اس منظر میں پایا ہی گیا کب
جہاں بھی زاویہ نکلا خوشی کا
سمندر جس کی آنکھوں کا ہو خالی
وہ کیسے خواب دیکھے جل پری کا
نکالو کیل کو دیوار میں سے
وگرنہ ٹانگ لو فوٹو کسی کا
Kashaf






