قدم انساں کا راہ دہر میں تھرا ہی جاتا ہے
Poet: Josh Malihabadi By: zubair, khi
قدم انساں کا راہ دہر میں تھرا ہی جاتا ہے
چلے کتنا ہی کوئی بچ کے ٹھوکر کھا ہی جاتا ہے
نظر ہو خواہ کتنی ہی حقائق آشنا پھر بھی
ہجوم کشمکش میں آدمی گھبرا ہی جاتا ہے
خلاف مصلحت میں بھی سمجھتا ہوں مگر ناصح
وہ آتے ہیں تو چہرے پر تغیر آ ہی جاتا ہے
ہوائیں زور کتنا ہی لگائیں آندھیاں بن کر
مگر جو گھر کے آتا ہے وہ بادل چھا ہی جاتا ہے
شکایت کیوں اسے کہتے ہو یہ فطرت ہے انساں کی
مصیبت میں خیال عیش رفتہ آ ہی جاتا ہے
شگوفوں پر بھی آتی ہیں بلائیں یوں تو کہنے کو
مگر جو پھول بن جاتا ہے وہ کمھلا ہی جاتا ہے
سمجھتی ہیں مآل گل مگر کیا زور فطرت ہے
سحر ہوتے ہی کلیوں کو تبسم آ ہی جاتا ہے
More Josh Malihabadi Poetry
اس بات کی نہیں ہے کوئی انتہا نہ پوچھ اس بات کی نہیں ہے کوئی انتہا نہ پوچھ
اے مدعائے خلق مرا مدعا نہ پوچھ
کیا کہہ کے پھول بنتی ہیں کلیاں گلاب کی
یہ راز مجھ سے بلبل شیریں نوا نہ پوچھ
جتنے گدا نواز تھے کب کے گزر چکے
اب کیوں بچھائے بیٹھے ہیں ہم بوریا نہ پوچھ
پیش نظر ہے پست و بلند رہ جنوں
ہم بے خودوں سے قصۂ ارض و سما نہ پوچھ
سنبل سے واسطہ نہ چمن سے مناسبت
اس زلف مشکبار کا حال اے صبا نہ پوچھ
صد محفل نشاط ہے اک شعر دلنشیں
اس بربط سخن میں ہے کس کی صدا نہ پوچھ
کر رحم میرے جیب و گریباں پہ ہم نفس
چلتی ہے کوئے یار میں کیونکر ہوا نہ پوچھ
رہتا نہیں ہے دہر میں جب کوئی آسرا
اس وقت آدمی پہ گزرتی ہے کیا نہ پوچھ
ہر سانس میں ہے چشمۂ حیوان و سلسبیل
پھر بھی میں تشنہ کام ہوں یہ ماجرا نہ پوچھ
بندہ ترے وجود کا منکر نہیں مگر
دنیا نے کیا دیئے ہیں سبق اے خدا نہ پوچھ
کیوں جوشؔ راز دوست کی کرتا ہے جستجو
کہہ دو کوئی کہ شاہ کا حال اے گدا نہ پوچھ
اے مدعائے خلق مرا مدعا نہ پوچھ
کیا کہہ کے پھول بنتی ہیں کلیاں گلاب کی
یہ راز مجھ سے بلبل شیریں نوا نہ پوچھ
جتنے گدا نواز تھے کب کے گزر چکے
اب کیوں بچھائے بیٹھے ہیں ہم بوریا نہ پوچھ
پیش نظر ہے پست و بلند رہ جنوں
ہم بے خودوں سے قصۂ ارض و سما نہ پوچھ
سنبل سے واسطہ نہ چمن سے مناسبت
اس زلف مشکبار کا حال اے صبا نہ پوچھ
صد محفل نشاط ہے اک شعر دلنشیں
اس بربط سخن میں ہے کس کی صدا نہ پوچھ
کر رحم میرے جیب و گریباں پہ ہم نفس
چلتی ہے کوئے یار میں کیونکر ہوا نہ پوچھ
رہتا نہیں ہے دہر میں جب کوئی آسرا
اس وقت آدمی پہ گزرتی ہے کیا نہ پوچھ
ہر سانس میں ہے چشمۂ حیوان و سلسبیل
پھر بھی میں تشنہ کام ہوں یہ ماجرا نہ پوچھ
بندہ ترے وجود کا منکر نہیں مگر
دنیا نے کیا دیئے ہیں سبق اے خدا نہ پوچھ
کیوں جوشؔ راز دوست کی کرتا ہے جستجو
کہہ دو کوئی کہ شاہ کا حال اے گدا نہ پوچھ
wasif
قدم انساں کا راہ دہر میں تھرا ہی جاتا ہے قدم انساں کا راہ دہر میں تھرا ہی جاتا ہے
چلے کتنا ہی کوئی بچ کے ٹھوکر کھا ہی جاتا ہے
نظر ہو خواہ کتنی ہی حقائق آشنا پھر بھی
ہجوم کشمکش میں آدمی گھبرا ہی جاتا ہے
خلاف مصلحت میں بھی سمجھتا ہوں مگر ناصح
وہ آتے ہیں تو چہرے پر تغیر آ ہی جاتا ہے
ہوائیں زور کتنا ہی لگائیں آندھیاں بن کر
مگر جو گھر کے آتا ہے وہ بادل چھا ہی جاتا ہے
شکایت کیوں اسے کہتے ہو یہ فطرت ہے انساں کی
مصیبت میں خیال عیش رفتہ آ ہی جاتا ہے
شگوفوں پر بھی آتی ہیں بلائیں یوں تو کہنے کو
مگر جو پھول بن جاتا ہے وہ کمھلا ہی جاتا ہے
سمجھتی ہیں مآل گل مگر کیا زور فطرت ہے
سحر ہوتے ہی کلیوں کو تبسم آ ہی جاتا ہے
چلے کتنا ہی کوئی بچ کے ٹھوکر کھا ہی جاتا ہے
نظر ہو خواہ کتنی ہی حقائق آشنا پھر بھی
ہجوم کشمکش میں آدمی گھبرا ہی جاتا ہے
خلاف مصلحت میں بھی سمجھتا ہوں مگر ناصح
وہ آتے ہیں تو چہرے پر تغیر آ ہی جاتا ہے
ہوائیں زور کتنا ہی لگائیں آندھیاں بن کر
مگر جو گھر کے آتا ہے وہ بادل چھا ہی جاتا ہے
شکایت کیوں اسے کہتے ہو یہ فطرت ہے انساں کی
مصیبت میں خیال عیش رفتہ آ ہی جاتا ہے
شگوفوں پر بھی آتی ہیں بلائیں یوں تو کہنے کو
مگر جو پھول بن جاتا ہے وہ کمھلا ہی جاتا ہے
سمجھتی ہیں مآل گل مگر کیا زور فطرت ہے
سحر ہوتے ہی کلیوں کو تبسم آ ہی جاتا ہے
zubair
ملا جو موقع تو روک دوں گا جلالؔ روز حساب تیرا ملا جو موقع تو روک دوں گا جلالؔ روز حساب تیرا
پڑھوں گا رحمت کا وہ قصیدہ کہ ہنس پڑے گا عتاب تیرا
یہی تو ہیں دو ستون محکم انہیں پہ قائم ہے نظم عالم
یہی تو ہے راز خلد و آدم نگاہ میری شباب تیرا
صبا تصدق ترے نفس پر چمن ترے پیرہن پہ قرباں
نسیم دوشیزگی میں کیسا بسا ہوا ہے شباب تیرا
تمام محفل کے روبرو گو اٹھائیں نظریں ملائیں آنکھیں
سمجھ سکا ایک بھی نہ لیکن سوال میرا جواب تیرا
ہزار شاخیں ادا سے لچکیں ہوا نہ تیرا سا لوچ پیدا
شفق نے کتنے ہی رنگ بدلے ملا نہ رنگ شباب تیرا
ادھر مرا دل تڑپ رہا ہے تری جوانی کی جستجو میں
ادھر مرے دل کی آرزو میں مچل رہا ہے شباب تیرا
کرے گی دونوں کا چاک پردہ رہے گا دونوں کو کر کے رسوا
یہ شورش ذوق دید میری یہ اہتمام حجاب تیرا
جڑیں پہاڑوں کی ٹوٹ جاتیں فلک تو کیا عرش کانپ اٹھتا
اگر میں دل پر نہ روک لیتا تمام زور شباب تیرا
بھلا ہوا جوشؔ نے ہٹایا نگاہ کا چشم تر سے پردہ
بلا سے جاتی رہیں گر آنکھیں کھلا تو بند نقاب تیرا
پڑھوں گا رحمت کا وہ قصیدہ کہ ہنس پڑے گا عتاب تیرا
یہی تو ہیں دو ستون محکم انہیں پہ قائم ہے نظم عالم
یہی تو ہے راز خلد و آدم نگاہ میری شباب تیرا
صبا تصدق ترے نفس پر چمن ترے پیرہن پہ قرباں
نسیم دوشیزگی میں کیسا بسا ہوا ہے شباب تیرا
تمام محفل کے روبرو گو اٹھائیں نظریں ملائیں آنکھیں
سمجھ سکا ایک بھی نہ لیکن سوال میرا جواب تیرا
ہزار شاخیں ادا سے لچکیں ہوا نہ تیرا سا لوچ پیدا
شفق نے کتنے ہی رنگ بدلے ملا نہ رنگ شباب تیرا
ادھر مرا دل تڑپ رہا ہے تری جوانی کی جستجو میں
ادھر مرے دل کی آرزو میں مچل رہا ہے شباب تیرا
کرے گی دونوں کا چاک پردہ رہے گا دونوں کو کر کے رسوا
یہ شورش ذوق دید میری یہ اہتمام حجاب تیرا
جڑیں پہاڑوں کی ٹوٹ جاتیں فلک تو کیا عرش کانپ اٹھتا
اگر میں دل پر نہ روک لیتا تمام زور شباب تیرا
بھلا ہوا جوشؔ نے ہٹایا نگاہ کا چشم تر سے پردہ
بلا سے جاتی رہیں گر آنکھیں کھلا تو بند نقاب تیرا
kinza
گداز دل سے باطن کا تجلی زار ہو جانا گداز دل سے باطن کا تجلی زار ہو جانا
محبت اصل میں ہے روح کا بیدار ہو جانا
نوید عیش سے اے دل ذرا ہشیار ہو جانا
کسی تازہ مصیبت کے لیے تیار ہو جانا
وہ ان کے دل میں شوق خودنمائی کا خیال آنا
وہ ہر شے کا تبسم کے لیے تیار ہو جانا
مزاج حسن کو اب بھی نہ سمجھو تو قیامت ہے
ہمارا اور وفا کے نام سے بے زار ہو جانا
سحر کا اس طرح انگڑائی لینا دل فریبی سے
ادھر شاعر کے محسوسات کا بیدار ہو جانا
توسل سے ترے دل میں بھروں گا قوتیں برقی
ذرا میری طرف بھی اے نگاہ یار ہو جانا
وہ آرائش میں سب قوت کسی کا صرف کر دینا
تحمل میں وہ ہر کوشش مری بے کار ہو جانا
معاذ اللہ اب یہ رنگ ہے دنیا کی محفل کا
خدا کا نام لینا اور ذلیل و خوار ہو جانا
رگوں سے خون سارا زہر بن کر پھوٹ نکلے گا
ذرا اے جوشؔ ضبط شوق سے ہشیار ہو جانا
محبت اصل میں ہے روح کا بیدار ہو جانا
نوید عیش سے اے دل ذرا ہشیار ہو جانا
کسی تازہ مصیبت کے لیے تیار ہو جانا
وہ ان کے دل میں شوق خودنمائی کا خیال آنا
وہ ہر شے کا تبسم کے لیے تیار ہو جانا
مزاج حسن کو اب بھی نہ سمجھو تو قیامت ہے
ہمارا اور وفا کے نام سے بے زار ہو جانا
سحر کا اس طرح انگڑائی لینا دل فریبی سے
ادھر شاعر کے محسوسات کا بیدار ہو جانا
توسل سے ترے دل میں بھروں گا قوتیں برقی
ذرا میری طرف بھی اے نگاہ یار ہو جانا
وہ آرائش میں سب قوت کسی کا صرف کر دینا
تحمل میں وہ ہر کوشش مری بے کار ہو جانا
معاذ اللہ اب یہ رنگ ہے دنیا کی محفل کا
خدا کا نام لینا اور ذلیل و خوار ہو جانا
رگوں سے خون سارا زہر بن کر پھوٹ نکلے گا
ذرا اے جوشؔ ضبط شوق سے ہشیار ہو جانا
junaid
میں رو رہا ہوں تیری نظر ہے عتاب کی میں رو رہا ہوں تیری نظر ہے عتاب کی
شبنم کو پی رہی ہے کرن آفتاب کی
بجھنے پہ دل ہے سانس میں بھی ضابطہ نہیں
ظالم دہائی ہے ترے زور شباب کی
منظور ہے خدا کو تو پہنچوں گا روز حشر
چہرے پہ خاک مل کے در بوتراب کی
صورت پرست میری نگاہوں نے اصل میں
دل کیا مرے وجود کی مٹی خراب کی
ہر پنکھڑی کے طاق میں ہنس ہنس کے صبح کو
شمعیں جلا رہی ہے کرن آفتاب کی
شبنم کو پی رہی ہے کرن آفتاب کی
بجھنے پہ دل ہے سانس میں بھی ضابطہ نہیں
ظالم دہائی ہے ترے زور شباب کی
منظور ہے خدا کو تو پہنچوں گا روز حشر
چہرے پہ خاک مل کے در بوتراب کی
صورت پرست میری نگاہوں نے اصل میں
دل کیا مرے وجود کی مٹی خراب کی
ہر پنکھڑی کے طاق میں ہنس ہنس کے صبح کو
شمعیں جلا رہی ہے کرن آفتاب کی
vaneeza
صبح بالیں پہ یہ کہتا ہوا غم خوار آیا صبح بالیں پہ یہ کہتا ہوا غم خوار آیا
اٹھ کہ فریاد رس عاشق بیمار آیا
بخت خوابیدہ گیا ظلمت شب کے ہم راہ
صبح کا نور لیے دولت بیدار آیا
خیر سے باغ میں پھر غنچہ گل رنگ کھلا
شکر ہے دور میں پھر ساغر سرشار آیا
جھوم اے تشنۂ گل بانگ نگار عشرت
کہ لب یار لیے چشمۂ گفتار آیا
شکر ایزد کہ وہ سرخیل مسیحا نفساں
زلف بر دوش پئے پرسش بیمار آیا
رخصت اے شکوۂ قسمت کہ سر بزم نشاط
ناسخ مسئلہ اندک و بسیار آیا
للہ الحمد کہ گلزار میں ہنگام صبوح
حکم آزادئ مرغان گرفتار آیا
غنچۂ بستہ چٹک جاگ اٹھی موج صبا
شعلۂ حسن بھڑک مصر کا بازار آیا
خوش ہو اے عشق کہ پھر حسن ہوا مائل ناز
مژدہ اے جنس محبت کہ خریدار آیا
اے نظر شکر بجا لا کہ کھلی زلف دراز
اے صدف آنکھ اٹھا ابر گہربار آیا
بادباں ناز سے لہرا کے چلی باد مراد
کارواں عید منا قافلہ سالار آیا
خوش ہو اے گوش کہ جبریل ترنم چہکا
مژدہ اے چشم کہ پیغمبر انوار آیا
خوش ہو اے پیر مغاں جوشؔ ہوا نغمہ فروش
مژدہ اے دختر رز رند قدح خوار آیا
اٹھ کہ فریاد رس عاشق بیمار آیا
بخت خوابیدہ گیا ظلمت شب کے ہم راہ
صبح کا نور لیے دولت بیدار آیا
خیر سے باغ میں پھر غنچہ گل رنگ کھلا
شکر ہے دور میں پھر ساغر سرشار آیا
جھوم اے تشنۂ گل بانگ نگار عشرت
کہ لب یار لیے چشمۂ گفتار آیا
شکر ایزد کہ وہ سرخیل مسیحا نفساں
زلف بر دوش پئے پرسش بیمار آیا
رخصت اے شکوۂ قسمت کہ سر بزم نشاط
ناسخ مسئلہ اندک و بسیار آیا
للہ الحمد کہ گلزار میں ہنگام صبوح
حکم آزادئ مرغان گرفتار آیا
غنچۂ بستہ چٹک جاگ اٹھی موج صبا
شعلۂ حسن بھڑک مصر کا بازار آیا
خوش ہو اے عشق کہ پھر حسن ہوا مائل ناز
مژدہ اے جنس محبت کہ خریدار آیا
اے نظر شکر بجا لا کہ کھلی زلف دراز
اے صدف آنکھ اٹھا ابر گہربار آیا
بادباں ناز سے لہرا کے چلی باد مراد
کارواں عید منا قافلہ سالار آیا
خوش ہو اے گوش کہ جبریل ترنم چہکا
مژدہ اے چشم کہ پیغمبر انوار آیا
خوش ہو اے پیر مغاں جوشؔ ہوا نغمہ فروش
مژدہ اے دختر رز رند قدح خوار آیا
murtaza






