وہ حسن سبز جو اترا نہیں ہے ڈالی پر
Poet: Akhtar Raza Saleemi By: yasir, khi
وہ حسن سبز جو اترا نہیں ہے ڈالی پر
فریفتہ ہے کسی پھول چننے والی پر
میں ہل چلاتے ہوئے جس کو سوچا کرتا تھا
اسی کی گندمی رنگت ہے بالی بالی پر
یہ لوگ سیر کو نکلے ہیں سو بہت خوش ہیں
میں دل گرفتہ ہوں سبزے کی پائمالی پر
اک اور رنگ ملا آ کے سات رنگوں میں
شعاع مہر پڑی جب سے تیری بالی پر
میں کھل کے سانس بھی لیتا نہیں چمن میں رضاؔ
مبادا بار گزرتا ہو سبز ڈالی پر
More Akhtar Raza Saleemi Poetry
وہ حسن سبز جو اترا نہیں ہے ڈالی پر وہ حسن سبز جو اترا نہیں ہے ڈالی پر
فریفتہ ہے کسی پھول چننے والی پر
میں ہل چلاتے ہوئے جس کو سوچا کرتا تھا
اسی کی گندمی رنگت ہے بالی بالی پر
یہ لوگ سیر کو نکلے ہیں سو بہت خوش ہیں
میں دل گرفتہ ہوں سبزے کی پائمالی پر
اک اور رنگ ملا آ کے سات رنگوں میں
شعاع مہر پڑی جب سے تیری بالی پر
میں کھل کے سانس بھی لیتا نہیں چمن میں رضاؔ
مبادا بار گزرتا ہو سبز ڈالی پر
فریفتہ ہے کسی پھول چننے والی پر
میں ہل چلاتے ہوئے جس کو سوچا کرتا تھا
اسی کی گندمی رنگت ہے بالی بالی پر
یہ لوگ سیر کو نکلے ہیں سو بہت خوش ہیں
میں دل گرفتہ ہوں سبزے کی پائمالی پر
اک اور رنگ ملا آ کے سات رنگوں میں
شعاع مہر پڑی جب سے تیری بالی پر
میں کھل کے سانس بھی لیتا نہیں چمن میں رضاؔ
مبادا بار گزرتا ہو سبز ڈالی پر
yasir
تمہارے ہونے کا شاید سراغ پانے لگے تمہارے ہونے کا شاید سراغ پانے لگے
کنار چشم کئی خواب سر اٹھانے لگے
پلک جھپکنے میں گزرے کسی فلک سے ہم
کسی گلی سے گزرتے ہوئے زمانے لگے
مرا خیال تھا یہ سلسلہ دیوں تک ہے
مگر یہ لوگ مرے خواب بھی بجھانے لگے
نجانے رات ترے مے کشوں کو کیا سوجھی
سبو اٹھاتے اٹھاتے فلک اٹھانے لگے
وہ گھر کرے کسی دل میں تو عین ممکن ہے
ہماری در بدری بھی کسی ٹھکانے لگے
میں گنگناتے ہوئے جا رہا تھا نام ترا
شجر حجر بھی مرے ساتھ گنگنانے لگے
حدود دشت میں آبادیاں جو ہونے لگیں
ہم اپنے شہر میں تنہائیاں بسانے لگے
دھواں دھنک ہوا انگار پھول بنتے گئے
تمہارے ہاتھ بھی کیا معجزے دکھانے لگے
رضاؔ وہ رن پڑا کل شب بہ رزم گاہ جنوں
کلاہیں چھوڑ کے سب لوگ سر بچانے لگ
کنار چشم کئی خواب سر اٹھانے لگے
پلک جھپکنے میں گزرے کسی فلک سے ہم
کسی گلی سے گزرتے ہوئے زمانے لگے
مرا خیال تھا یہ سلسلہ دیوں تک ہے
مگر یہ لوگ مرے خواب بھی بجھانے لگے
نجانے رات ترے مے کشوں کو کیا سوجھی
سبو اٹھاتے اٹھاتے فلک اٹھانے لگے
وہ گھر کرے کسی دل میں تو عین ممکن ہے
ہماری در بدری بھی کسی ٹھکانے لگے
میں گنگناتے ہوئے جا رہا تھا نام ترا
شجر حجر بھی مرے ساتھ گنگنانے لگے
حدود دشت میں آبادیاں جو ہونے لگیں
ہم اپنے شہر میں تنہائیاں بسانے لگے
دھواں دھنک ہوا انگار پھول بنتے گئے
تمہارے ہاتھ بھی کیا معجزے دکھانے لگے
رضاؔ وہ رن پڑا کل شب بہ رزم گاہ جنوں
کلاہیں چھوڑ کے سب لوگ سر بچانے لگ
qasim
وہ بھی کیا دن تھے کیا زمانے تھے وہ بھی کیا دن تھے کیا زمانے تھے
روز اک خواب دیکھ لیتے تھے
اب زمیں بھی جگہ نہیں دیتی
ہم کبھی آسماں پہ رہتے تھے
آخرش خود تک آن پہنچے ہیں
جو تری جستجو میں نکلے تھے
خواب گلیوں میں پھر رہے تھے اور
لوگ اپنے گھروں میں سوئے تھے
ہم کہیں دور تھے بہت ہی دور
اور ترے آس پاس بیٹھے تھے
روز اک خواب دیکھ لیتے تھے
اب زمیں بھی جگہ نہیں دیتی
ہم کبھی آسماں پہ رہتے تھے
آخرش خود تک آن پہنچے ہیں
جو تری جستجو میں نکلے تھے
خواب گلیوں میں پھر رہے تھے اور
لوگ اپنے گھروں میں سوئے تھے
ہم کہیں دور تھے بہت ہی دور
اور ترے آس پاس بیٹھے تھے
tahir






