چہروں پہ لکھا ہے کوئی اپنا نہیں ملتا
Poet: Jazib Qureshi By: nabeel, khi
چہروں پہ لکھا ہے کوئی اپنا نہیں ملتا 
 کیا شہر ہے اک شخص بھی جھوٹا نہیں ملتا 
 
 چاہت کی قبا میں تو بدن اور جلیں گے 
 صحرا کے شجر سے کوئی دریا نہیں ملتا 
 
 میں جان گیا ہوں تری خوشبو کی رقابت 
 تو مجھ سے ملے تو غم دنیا نہیں ملتا 
 
 زلف و لب و رخسار کے آذر تو بہت ہیں 
 ٹوٹے ہوئے خوابوں کا مسیحا نہیں ملتا 
 
 میں اپنے خیالوں کی تھکن کیسے اتاروں 
 رنگوں میں کوئی رنگ بھی گہرا نہیں ملتا 
 
 ڈوبے ہوئے سورج کو سمندر سے نکالو 
 ساحل کو جلانے سے اجالا نہیں ملتا
More Jazib Quraishi Poetry
چہروں پہ لکھا ہے کوئی اپنا نہیں ملتا چہروں پہ لکھا ہے کوئی اپنا نہیں ملتا 
کیا شہر ہے اک شخص بھی جھوٹا نہیں ملتا
چاہت کی قبا میں تو بدن اور جلیں گے
صحرا کے شجر سے کوئی دریا نہیں ملتا
میں جان گیا ہوں تری خوشبو کی رقابت
تو مجھ سے ملے تو غم دنیا نہیں ملتا
زلف و لب و رخسار کے آذر تو بہت ہیں
ٹوٹے ہوئے خوابوں کا مسیحا نہیں ملتا
میں اپنے خیالوں کی تھکن کیسے اتاروں
رنگوں میں کوئی رنگ بھی گہرا نہیں ملتا
ڈوبے ہوئے سورج کو سمندر سے نکالو
ساحل کو جلانے سے اجالا نہیں ملتا
کیا شہر ہے اک شخص بھی جھوٹا نہیں ملتا
چاہت کی قبا میں تو بدن اور جلیں گے
صحرا کے شجر سے کوئی دریا نہیں ملتا
میں جان گیا ہوں تری خوشبو کی رقابت
تو مجھ سے ملے تو غم دنیا نہیں ملتا
زلف و لب و رخسار کے آذر تو بہت ہیں
ٹوٹے ہوئے خوابوں کا مسیحا نہیں ملتا
میں اپنے خیالوں کی تھکن کیسے اتاروں
رنگوں میں کوئی رنگ بھی گہرا نہیں ملتا
ڈوبے ہوئے سورج کو سمندر سے نکالو
ساحل کو جلانے سے اجالا نہیں ملتا
nabeel
صحرا میں کوئی سایۂ دیوار تو دیکھو صحرا میں کوئی سایۂ دیوار تو دیکھو 
اے ہم سفرو دھوپ کے اس پار تو دیکھو
جلتا ہوں اندھیروں میں کہ چمکے کوئی چہرہ
موسم ہیں عداوت کے مگر پیار تو دیکھو
دفتر کی تھکن اوڑھ کے تم جس سے ملے ہو
اس شخص کے تازہ لب و رخسار تو دیکھو
کیوں مانگ رہے ہو کسی بارش کی دعائیں
تم اپنے شکستہ در و دیوار تو دیکھو
کل شام وہ تنہا تھا سمندر کے کنارے
کیا سوچ رہے ہو کوئی اخبار تو دیکھو
آنکھیں ہیں کہ زخمی ہیں بدن ہیں کہ شکستہ
آشوب سفر ہوں مری رفتار تو دیکھو
اے ہم سفرو دھوپ کے اس پار تو دیکھو
جلتا ہوں اندھیروں میں کہ چمکے کوئی چہرہ
موسم ہیں عداوت کے مگر پیار تو دیکھو
دفتر کی تھکن اوڑھ کے تم جس سے ملے ہو
اس شخص کے تازہ لب و رخسار تو دیکھو
کیوں مانگ رہے ہو کسی بارش کی دعائیں
تم اپنے شکستہ در و دیوار تو دیکھو
کل شام وہ تنہا تھا سمندر کے کنارے
کیا سوچ رہے ہو کوئی اخبار تو دیکھو
آنکھیں ہیں کہ زخمی ہیں بدن ہیں کہ شکستہ
آشوب سفر ہوں مری رفتار تو دیکھو
tariq







 
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
 