کون بھنور میں ملاحوں سے اب تکرار کرے گا
Poet: Noshi Gilani By: Zeeshan, khi
کون بھنور میں ملاحوں سے اب تکرار کرے گا
اب تو قسمت سے ہی کوئی دریا پار کرے گا
سارا شہر ہی تاریکی پر یوں خاموش رہا تو
کون چراغ جلانے کے پیدا آثار کرے گا
جب اس کا کردار تمہارے سچ کی زد میں آیا
لکھنے والا شہر کی کالی ہر دیوار کرے گا
جانے کون سی دھن میں تیرے شہر میں آ نکلے ہیں
دل تجھ سے ملنے کی خواہش اب سو بار کرے گا
دل میں تیرا قیام تھا لیکن اب یہ کسے خبر تھی
دکھ بھی اپنے ہونے پر اتنا اصرار کرے گا
More Noshi Gilani Poetry
کوئی مجھ کو مرا بھر پور سراپا لا دے کوئی مجھ کو مرا بھر پور سراپا لا دے
مرے بازو ، مری آنکھیں، مرا چہرہ لا دے
ایسا دریا جو کسی اور سمندر میں گرے
اس سے بہتر ہے کہ مجھ کو مرا صحرا لا دے
کچھ نہیں چاہئے تجھ سے اے مری عمرِ رواں
مرا بچپن، مرے جگنو، مری گڑیا لا دے
جس کی آنکھیں مجھے اندر سے بھی پڑھ سکتی ہوں
کوئی چہرہ تو مرے شہر میں ایسا لا دے
کشتئ جاں تو بھنور میں ہے کئی برسوں سے
اے خدا اب تو ڈبو دے یا کنارا لا دے
مرے بازو ، مری آنکھیں، مرا چہرہ لا دے
ایسا دریا جو کسی اور سمندر میں گرے
اس سے بہتر ہے کہ مجھ کو مرا صحرا لا دے
کچھ نہیں چاہئے تجھ سے اے مری عمرِ رواں
مرا بچپن، مرے جگنو، مری گڑیا لا دے
جس کی آنکھیں مجھے اندر سے بھی پڑھ سکتی ہوں
کوئی چہرہ تو مرے شہر میں ایسا لا دے
کشتئ جاں تو بھنور میں ہے کئی برسوں سے
اے خدا اب تو ڈبو دے یا کنارا لا دے
رابعہ
کون بھنور میں ملاحوں سے اب تکرار کرے گا کون بھنور میں ملاحوں سے اب تکرار کرے گا
اب تو قسمت سے ہی کوئی دریا پار کرے گا
سارا شہر ہی تاریکی پر یوں خاموش رہا تو
کون چراغ جلانے کے پیدا آثار کرے گا
جب اس کا کردار تمہارے سچ کی زد میں آیا
لکھنے والا شہر کی کالی ہر دیوار کرے گا
جانے کون سی دھن میں تیرے شہر میں آ نکلے ہیں
دل تجھ سے ملنے کی خواہش اب سو بار کرے گا
دل میں تیرا قیام تھا لیکن اب یہ کسے خبر تھی
دکھ بھی اپنے ہونے پر اتنا اصرار کرے گا
اب تو قسمت سے ہی کوئی دریا پار کرے گا
سارا شہر ہی تاریکی پر یوں خاموش رہا تو
کون چراغ جلانے کے پیدا آثار کرے گا
جب اس کا کردار تمہارے سچ کی زد میں آیا
لکھنے والا شہر کی کالی ہر دیوار کرے گا
جانے کون سی دھن میں تیرے شہر میں آ نکلے ہیں
دل تجھ سے ملنے کی خواہش اب سو بار کرے گا
دل میں تیرا قیام تھا لیکن اب یہ کسے خبر تھی
دکھ بھی اپنے ہونے پر اتنا اصرار کرے گا
Zeeshan
کسی حرف میں کسی باب میں نہیں آئے گا کسی حرف میں کسی باب میں نہیں آئے گا
ترا ذکر میری کتاب میں نہیں آئے گا
نہیں جائے گی کسی آنکھ سے کہیں روشنی
کوئی خواب اس کے عذاب میں نہیں آئے گا
کوئی خود کو صحرا نہیں کرے گا مری طرح
کوئی خواہشوں کے سراب میں نہیں آئے گا
دل بد گماں ترے موسموں کو نوید ہو
کوئی خار دست گلاب میں نہیں آئے گا
اسے لاکھ دل سے پکار لو اسے دیکھ لو
کوئی ایک حرف جواب میں نہیں آئے گا
تری راہ تکتے رہے اگرچہ خبر بھی تھی
کہ یہ دن بھی تیرے حساب میں نہیں آئے گا
ترا ذکر میری کتاب میں نہیں آئے گا
نہیں جائے گی کسی آنکھ سے کہیں روشنی
کوئی خواب اس کے عذاب میں نہیں آئے گا
کوئی خود کو صحرا نہیں کرے گا مری طرح
کوئی خواہشوں کے سراب میں نہیں آئے گا
دل بد گماں ترے موسموں کو نوید ہو
کوئی خار دست گلاب میں نہیں آئے گا
اسے لاکھ دل سے پکار لو اسے دیکھ لو
کوئی ایک حرف جواب میں نہیں آئے گا
تری راہ تکتے رہے اگرچہ خبر بھی تھی
کہ یہ دن بھی تیرے حساب میں نہیں آئے گا
veena
دل تھا کہ خوش خیال تجھے دیکھ کر ہوا دل تھا کہ خوش خیال تجھے دیکھ کر ہوا
یہ شہر بے مثال تجھے دیکھ کر ہوا
اپنے خلاف شہر کے اندھے ہجوم میں
دل کو بہت ملال تجھے دیکھ کر ہوا
طول شب فراق تری خیر ہو کہ دل
آمادۂ وصال تجھے دیکھ کر ہوا
یہ ہم ہی جانتے ہیں جدائی کے موڑ پر
اس دل کا جو بھی حال تجھے دیکھ کر ہوا
آئی نہ تھی کبھی مرے لفظوں میں روشنی
اور مجھ سے یہ کمال تجھے دیکھ کر ہوا
بچھڑے تو جیسے ذہن معطل سا ہو گیا
شہر سخن بحال تجھے دیکھ کر ہوا
پھر لوگ آ گئے مرا ماضی کریدنے
پھر مجھ سے اک سوال تجھے دیکھ کر ہوا
یہ شہر بے مثال تجھے دیکھ کر ہوا
اپنے خلاف شہر کے اندھے ہجوم میں
دل کو بہت ملال تجھے دیکھ کر ہوا
طول شب فراق تری خیر ہو کہ دل
آمادۂ وصال تجھے دیکھ کر ہوا
یہ ہم ہی جانتے ہیں جدائی کے موڑ پر
اس دل کا جو بھی حال تجھے دیکھ کر ہوا
آئی نہ تھی کبھی مرے لفظوں میں روشنی
اور مجھ سے یہ کمال تجھے دیکھ کر ہوا
بچھڑے تو جیسے ذہن معطل سا ہو گیا
شہر سخن بحال تجھے دیکھ کر ہوا
پھر لوگ آ گئے مرا ماضی کریدنے
پھر مجھ سے اک سوال تجھے دیکھ کر ہوا
Akif
اب کس سے کہیں اور کون سنے جو حال تمہارے بعد ہوا اب کس سے کہیں اور کون سنے جو حال تمہارے بعد ہوا
اس دل کی جھیل سی آنکھوں میں اک خواب بہت برباد ہوا
یہ ہجر ہوا بھی دشمن ہے اس نام کے سارے رنگوں کی
وہ نام جو میرے ہونٹوں پر خوشبو کی طرح آباد ہوا
اس شہر میں کتنے چہرے تھے کچھ یاد نہیں سب بھول گئے
اک شخص کتابوں جیسا تھا وہ شخص زبانی یاد ہوا
وہ اپنے گاؤں کی گلیاں تھیں دل جن میں ناچتا گاتا تھا
اب اس سے فرق نہیں پڑتا ناشاد ہوا یا شاد ہوا
بے نام ستائش رہتی تھی ان گہری سانولی آنکھوں میں
ایسا تو کبھی سوچا بھی نہ تھا دل اب جتنا بیداد ہوا
اس دل کی جھیل سی آنکھوں میں اک خواب بہت برباد ہوا
یہ ہجر ہوا بھی دشمن ہے اس نام کے سارے رنگوں کی
وہ نام جو میرے ہونٹوں پر خوشبو کی طرح آباد ہوا
اس شہر میں کتنے چہرے تھے کچھ یاد نہیں سب بھول گئے
اک شخص کتابوں جیسا تھا وہ شخص زبانی یاد ہوا
وہ اپنے گاؤں کی گلیاں تھیں دل جن میں ناچتا گاتا تھا
اب اس سے فرق نہیں پڑتا ناشاد ہوا یا شاد ہوا
بے نام ستائش رہتی تھی ان گہری سانولی آنکھوں میں
ایسا تو کبھی سوچا بھی نہ تھا دل اب جتنا بیداد ہوا
Akbar






