ہمیں خبر تھی بچانے کا اس میں یارا نہیں
Poet: Yasmeen Hameed By: bilal, khi
ہمیں خبر تھی بچانے کا اس میں یارا نہیں
سو ہم بھی ڈوب گئے اور اسے پکارا نہیں
خود آفتاب مری راہ کا چراغ بنے
مگر یہ بات مرے چاند کو گوارا نہیں
جو اس میں اتری تو طوفان ہی ملیں گے مجھے
میں جانتی ہوں کہ وہ موج ہے کنارا نہیں
عجب فضا ہے کہ رنگ نمود صبح بھی ہے
سیاہ رات نے بھی پیرہن اتارا نہیں
وجود جس کو کسی معتبر شجر نے دیا
ہوا کی زد میں بھی تنکا وہ بے سہارا نہیں
جلے گا خود بھی سحر تک مجھے بھی لو دے گا
چراغ شام کوئی بخت کا ستارا نہیں
More Yasmeen Hameed Poetry
ہمیں خبر تھی بچانے کا اس میں یارا نہیں ہمیں خبر تھی بچانے کا اس میں یارا نہیں
سو ہم بھی ڈوب گئے اور اسے پکارا نہیں
خود آفتاب مری راہ کا چراغ بنے
مگر یہ بات مرے چاند کو گوارا نہیں
جو اس میں اتری تو طوفان ہی ملیں گے مجھے
میں جانتی ہوں کہ وہ موج ہے کنارا نہیں
عجب فضا ہے کہ رنگ نمود صبح بھی ہے
سیاہ رات نے بھی پیرہن اتارا نہیں
وجود جس کو کسی معتبر شجر نے دیا
ہوا کی زد میں بھی تنکا وہ بے سہارا نہیں
جلے گا خود بھی سحر تک مجھے بھی لو دے گا
چراغ شام کوئی بخت کا ستارا نہیں
سو ہم بھی ڈوب گئے اور اسے پکارا نہیں
خود آفتاب مری راہ کا چراغ بنے
مگر یہ بات مرے چاند کو گوارا نہیں
جو اس میں اتری تو طوفان ہی ملیں گے مجھے
میں جانتی ہوں کہ وہ موج ہے کنارا نہیں
عجب فضا ہے کہ رنگ نمود صبح بھی ہے
سیاہ رات نے بھی پیرہن اتارا نہیں
وجود جس کو کسی معتبر شجر نے دیا
ہوا کی زد میں بھی تنکا وہ بے سہارا نہیں
جلے گا خود بھی سحر تک مجھے بھی لو دے گا
چراغ شام کوئی بخت کا ستارا نہیں
bilal
ہم نے کسی کو عہد وفا سے رہا کیا ہم نے کسی کو عہد وفا سے رہا کیا
اپنی رگوں سے جیسے لہو کو جدا کیا
اس کے شکستہ وار کا بھی رکھ لیا بھرم
یہ قرض ہم نے زخم کی صورت ادا کیا
اس میں ہماری اپنی خودی کا سوال تھا
احساں نہیں کیا ہے جو وعدہ وفا کیا
جس سمت کی ہوا ہے اسی سمت چل پڑیں
جب کچھ نہ ہو سکا تو یہی فیصلہ کیا
عہد مسافرت سے وہ منسوخ ہو چکی
جس رہ گزر سے تم نے مجھے آشنا کیا
اپنی شکستگی پہ وہ نادم نہیں ہوا
میری برہنہ پائی کا جس نے گلہ کیا
اپنی رگوں سے جیسے لہو کو جدا کیا
اس کے شکستہ وار کا بھی رکھ لیا بھرم
یہ قرض ہم نے زخم کی صورت ادا کیا
اس میں ہماری اپنی خودی کا سوال تھا
احساں نہیں کیا ہے جو وعدہ وفا کیا
جس سمت کی ہوا ہے اسی سمت چل پڑیں
جب کچھ نہ ہو سکا تو یہی فیصلہ کیا
عہد مسافرت سے وہ منسوخ ہو چکی
جس رہ گزر سے تم نے مجھے آشنا کیا
اپنی شکستگی پہ وہ نادم نہیں ہوا
میری برہنہ پائی کا جس نے گلہ کیا
minhaj
مثال عکس مرے آئنے میں ڈھلتا رہا مثال عکس مرے آئنے میں ڈھلتا رہا
وہ خد و خال بھی اپنے مگر بدلتا رہا
میں پتھروں پہ گری اور خود سنبھل بھی گئی
وہ خامشی سے مرے ساتھ ساتھ چلتا رہا
اجالا ہوتے ہی کیسے اسے بجھاؤں گی
اگر چراغ مرا تا بہ صبح جلتا رہا
میں اس کے معنی و مقصد کے سنگ چنتی رہی
وہ ایک حرف جو احساس کو کچلتا رہا
زمیں خلوص کی مٹی سے بے نیاز رہی
رفاقتوں کا شجر واہموں پہ پلتا رہا
وہ خد و خال بھی اپنے مگر بدلتا رہا
میں پتھروں پہ گری اور خود سنبھل بھی گئی
وہ خامشی سے مرے ساتھ ساتھ چلتا رہا
اجالا ہوتے ہی کیسے اسے بجھاؤں گی
اگر چراغ مرا تا بہ صبح جلتا رہا
میں اس کے معنی و مقصد کے سنگ چنتی رہی
وہ ایک حرف جو احساس کو کچلتا رہا
زمیں خلوص کی مٹی سے بے نیاز رہی
رفاقتوں کا شجر واہموں پہ پلتا رہا
fahad
عطائے ابر سے انکار کرنا چاہیئے تھا عطائے ابر سے انکار کرنا چاہیئے تھا
میں صحرا تھی مجھے اقرار کرنا چاہیئے تھا
لہو کی آنچ دینی چاہیئے تھی فیصلے کو
اسے پھر نقش بر دیوار کرنا چاہیئے تھا
اگر لفظ و بیاں ساکت کھڑے تھے دوسری سمت
ہمیں کو رنج کا اظہار کرنا چاہیئے تھا
اگر اتنی مقدم تھی ضرورت روشنی کی
تو پھر سائے سے اپنے پیار کرنا چاہیئے تھا
سمندر ہو تو اس میں ڈوب جانا بھی روا ہے
مگر دریاؤں کو تو پار کرنا چاہیئے تھا
دل خوش فہم کو صبح سفر کی روشنی میں
شب غم کے لیے تیار کرنا چاہیئے تھا
شکست زندگی کا عکس بن کر رہ گیا ہے
وہی لمحہ جسے شہکار کرنا چاہیئے تھا
میں صحرا تھی مجھے اقرار کرنا چاہیئے تھا
لہو کی آنچ دینی چاہیئے تھی فیصلے کو
اسے پھر نقش بر دیوار کرنا چاہیئے تھا
اگر لفظ و بیاں ساکت کھڑے تھے دوسری سمت
ہمیں کو رنج کا اظہار کرنا چاہیئے تھا
اگر اتنی مقدم تھی ضرورت روشنی کی
تو پھر سائے سے اپنے پیار کرنا چاہیئے تھا
سمندر ہو تو اس میں ڈوب جانا بھی روا ہے
مگر دریاؤں کو تو پار کرنا چاہیئے تھا
دل خوش فہم کو صبح سفر کی روشنی میں
شب غم کے لیے تیار کرنا چاہیئے تھا
شکست زندگی کا عکس بن کر رہ گیا ہے
وہی لمحہ جسے شہکار کرنا چاہیئے تھا
kashif
اک بے پناہ رات کا تنہا جواب تھا اک بے پناہ رات کا تنہا جواب تھا
چھوٹا سا اک دیا جو سر احتساب تھا
رستہ مرا تضاد کی تصویر ہو گیا
دریا بھی بہہ رہا تھا جہاں پر سراب تھا
وہ وقت بھی عجیب تھا حیران کر گیا
واضح تھا زندگی کی طرح اور خواب تھا
پہلے پڑاؤ سے ہی اسے لوٹنا پڑا
لمبی مسافتوں سے جسے اجتناب تھا
پھر بے نمو زمین تھی اور خشک تھے شجر
بے ابر آسماں کا چلن کامیاب تھا
اک بے قیاس بات سے منسوب ہو گیا
پھیلا ہوا حروف میں جو اضطراب تھا
اپنی نگاہ پر بھی کروں اعتبار کیا
کس مان پر کہوں وہ مرا انتخاب تھا
چھوٹا سا اک دیا جو سر احتساب تھا
رستہ مرا تضاد کی تصویر ہو گیا
دریا بھی بہہ رہا تھا جہاں پر سراب تھا
وہ وقت بھی عجیب تھا حیران کر گیا
واضح تھا زندگی کی طرح اور خواب تھا
پہلے پڑاؤ سے ہی اسے لوٹنا پڑا
لمبی مسافتوں سے جسے اجتناب تھا
پھر بے نمو زمین تھی اور خشک تھے شجر
بے ابر آسماں کا چلن کامیاب تھا
اک بے قیاس بات سے منسوب ہو گیا
پھیلا ہوا حروف میں جو اضطراب تھا
اپنی نگاہ پر بھی کروں اعتبار کیا
کس مان پر کہوں وہ مرا انتخاب تھا
waqar
Darya Ki Rawani Vahi Dashat Bhi Vahi Hai Darya Ki Rawani Vahi Dashat Bhi Vahi Hai
Aur Dubtay Lamhat Ki Surat Bhi Vahi Hai
Alfaz Bhi Likhe Hain Vahi Nok E Qalam Ne
Auraq Pe Phaili Hui Ranga Bhi Vahi Hai
Kyun Us Ka Sarapa Na Hua Naqsh Ba Divar
Jab Me Bhi Vahi Hon Meri Herat Bhi Vahi Hai
Kyun Baraf Si Parti Hai Kahi Shahr E Darun Par
Jab Mazdha E Khurshid Me Hiddat Bhi Vahi Hai
Raaste Me Meri Jang Bhi Jari Hai Ab Tak
Aur Paanv Tale Zakham Ki Vashat Bhi Vahi Hai
Ta Umr Nigahon Kai Lie Ek Sa Manzar
Saae Ki Tarha Saae Ki Qimat Bhi Vahi Hai
Aur Dubtay Lamhat Ki Surat Bhi Vahi Hai
Alfaz Bhi Likhe Hain Vahi Nok E Qalam Ne
Auraq Pe Phaili Hui Ranga Bhi Vahi Hai
Kyun Us Ka Sarapa Na Hua Naqsh Ba Divar
Jab Me Bhi Vahi Hon Meri Herat Bhi Vahi Hai
Kyun Baraf Si Parti Hai Kahi Shahr E Darun Par
Jab Mazdha E Khurshid Me Hiddat Bhi Vahi Hai
Raaste Me Meri Jang Bhi Jari Hai Ab Tak
Aur Paanv Tale Zakham Ki Vashat Bhi Vahi Hai
Ta Umr Nigahon Kai Lie Ek Sa Manzar
Saae Ki Tarha Saae Ki Qimat Bhi Vahi Hai
aslam






