ہم کو سیرت سے ہے مطلب
Poet: ابنِ مُنیب By: ابنِ مُنیب, سکاکا(معروف مصرعے "اِس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں" کے ساتھ ایک تازہ غزل)
ہم کو سیرت سے ہے مطلب، رُخ کے سودائی نہیں
"اِس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں"
عاشقِ ناکام کی حالت نہ ہرگز پوچھیئے
زندگی رخصت ہوئی ہے، اور قضا آئی نہیں
ناز ہے تیری غلامی پر مگر تُو ہی بتا
فائدہ زنجیر کا جب کوئی شنوائی نہیں؟
سَر اُٹھائے پھر رہے ہیں شہر میں مَیں اور رقیب
تیرے در کی ٹھوکروں میں کوئی رسوائی نہیں
یار ہو دل میں بسا تو شامِ ہجراں بھی مُنیبؔ
محفلِ صد رنگ و بو ہے بزمِ تنہائی نہیں
- ابنِ مُنیبؔ
-----------------------------------
پس نوشت:
انٹرنیٹ پر یہ مصرع ("اِس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں") ایک "قصے" کی صورت میں ملتا ہے۔
مَیں البتہ فی الحال قصے اور مصرعے کے خالق کا سراغ نہیں لگا پایا۔ قصہ کچھ یوں مِلتا ہے:
ایک بادشاہ کے سامنے چار آدمی بیٹھے تھے۔ اندھا، فقیر ، عاشق اور عالمِ دین۔
بادشاہ نے ایک مصرع کہا اور چاروں کو حکم دیا کہ اس پر گرہ بندی کریں ۔ مصرع تھا:
"اِس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں"
اِس پر اندھے نے کہا:
مجھ میں بینائی نہیں اور اُس میں گویائی نہیں
اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں
فقیر نے کہا:
مانگتے تھے زر مصور جیب میں پائی نہیں
اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں
عاشق نے کہا:
ایک سے جب دو ہوئے پھر لطفِ یکتائی نہیں
اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے بنوائی نہیں
اور عالمِ دین کہا:
بت پرستی دین احمد ﷺ میں کبھی آئی نہیں
اس لیے تصویر جاناں ہم نے بنوائی نہیں
ہمیں دَردِ دِل کی سزا تو دے، مگر اپنے لَب کبھی کہہ نہ دے۔
یہ چراغِ اَشک ہے دوستو، اِسے شوق سے نہ بُجھا دینا،
یہی ایک ہمدمِ بے وفا، ہمیں بے خبر کبھی کہہ نہ دے۔
مجھے زَخم دے، مجھے رَنج دے، یہ گلہ نہیں مرے چارہ گر،
مگر اپنے فیض کی ایک گھڑی مرا مُستقل کبھی کہہ نہ دے۔
مرے عَزم میں ہے وہ اِستقامت کہ شرر بھی اپنا اَثر نہ دے،
مجھے ڈر فقط ہے نسیم سے کہ وہ خاکِ چمن کبھی کہہ نہ دے۔
وہ جو بیٹھے ہیں لبِ جام پر، وہ جو مَست ہیں مرے حال پر،
انہی بزم والوں سے ڈر ہے مظہرؔ کہ وہ میرا نشاں کبھی کہہ نہ دے۔
مجھے توڑنے کی ہوس نہ ہو، مجھے آزمانے کی ضِد نہ ہو،
مجھے قرب دَشت کا شوق ہے، کوئی کارواں کبھی کہہ نہ دے۔
یہ جو صَبر ہے یہ وَقار ہے، یہ وَقار میرا نہ لُوٹ لینا،
مجھے زَخم دے کے زمانہ پھر مجھے بے اَماں کبھی کہہ نہ دے۔
مرے حوصلے کی ہے اِنتہا کہ زمانہ جُھک کے سَلام دے،
مگر اے نگاہِ کرم سنَبھل، مجھے سَرکشی کبھی کہہ نہ دے۔
جو چراغ ہوں مرے آستاں، جو اُجالہ ہو مرے نام کا،
کسی بَدزبان کی سازشیں اُسے ناگہاں کبھی کہہ نہ دے۔
یہی عَرض مظہرؔ کی ہے فقط کہ وَفا کی آنچ سَلامت ہو،
کوئی دِلرُبا مرے شہر میں مجھے بے وَفا کبھی کہہ نہ دے۔
دل کی خوشی چھن گئی اور آنکھوں میں خاری بن گئی ہے۔
یادوں کے طوفاں چلے اور نیندیں بھی ساری بن گئی ہے،
غم کی وہ زنجیر جس کو توڑی تھی، بھاری بن گئی ہے۔
جس کو سمجھتے تھے راحتوں کی سواری بن گئی ہے،
زندگی سچ کہہ رہی، محض ایک مجبوری بن گئی ہے۔
ہر دن نئی اِک کسک دل میں بیداری بن گئی ہے،
سانسوں کی ڈوری بھی اب تو اِک مجبوری بن گئی ہے۔
خوابوں کا عالم بھی اب محض بیقراری بن گئی ہے،
چاہت تھی جو روشنی، اب تو تاریکی بن گئی ہے۔
کل جو تھا دلکش بہت، آج وہ بیزاری بن گئی ہے،
رنگوں کی دنیا بھی مظہرؔ سنساری بن گئی ہے۔
لمحے جو تھے خوشنما، اب تو عیاری بن گئی ہے،
حالات کی موج ہر پل اِک دشواری بن گئی ہے۔
یادوں کا طوفان اب دل پہ سرکاری بن گئی ہے،
پہلے جو راحت تھی وہ زخمِ کاری بن گئی ہے۔
مظہرؔ جو کل تک دل میں تھی ایک چنگاری بن گئی ہے،
اب تو محبت ہر سمت کی بازار داری بن گئی ہے۔
دل کو تیری نظر لُٹا دیں گے
جس کو چاہا تھا اپنی دنیا میں
ہم وہی درد اب لگا دیں گے
خود سُنے گا زمانہ قصّہ اپنا
غم کی محفل میں یہ سُنا دیں گے
خاک ہونے کا کب گِلہ ہم کو
اپنے ارمان سب جلا دیں گے
وقت کی گرد میں چھپا ہر زخم
پھر کسی دن تمہیں چُبھا دیں گے
زندگی کا ہر اِک فسانہ ہم
دھوپ میں اپنے نام مِٹا دیں گے
میرے مظہرؔ نہ پوچھ دردِ دل
جو کمایا ہے سب اُڑا دیں گے






