یہ جو ننگ تھے یہ جو نام تھے مجھے کھا گئے
Poet: Khurshid Rizvi By: umair, khi
یہ جو ننگ تھے یہ جو نام تھے مجھے کھا گئے
یہ خیال پختہ جو خام تھے مجھے کھا گئے
کبھی اپنی آنکھ سے زندگی پہ نظر نہ کی
وہی زاویے کہ جو عام تھے مجھے کھا گئے
میں عمیق تھا کہ پلا ہوا تھا سکوت میں
یہ جو لوگ محو کلام تھے مجھے کھا گئے
وہ جو مجھ میں ایک اکائی تھی وہ نہ جڑ سکی
یہی ریزہ ریزہ جو کام تھے مجھے کھا گئے
یہ عیاں جو آب حیات ہے اسے کیا کروں
کہ نہاں جو زہر کے جام تھے مجھے کھا گئے
وہ نگیں جو خاتم زندگی سے پھسل گیا
تو وہی جو میرے غلام تھے مجھے کھا گئے
میں وہ شعلہ تھا جسے دام سے تو ضرر نہ تھا
پہ جو وسوسے تہہ دام تھے مجھے کھا گئے
جو کھلی کھلی تھیں عداوتیں مجھے راس تھیں
یہ جو زہر خندہ سلام تھے مجھے کھا گئے
More Khurshid Rizvi Poetry
پلٹ کر اشک سوئے چشم تر آتا نہیں ہے پلٹ کر اشک سوئے چشم تر آتا نہیں ہے
یہ وہ بھٹکا مسافر ہے جو گھر آتا نہیں ہے
قفس اب آشیاں ہے خاک پر لکھی ہے روزی
کبھی دل میں خیال بال و پر آتا نہیں ہے
پہاڑوں کی سیاہی سے فزوں دل کی سیاہی
وہ حسن اب اپنی آنکھوں کو نظر آتا نہیں ہے
شجر برسوں سے نقش رائیگاں بن کر کھڑے ہیں
کوئی موسم ہو شاخوں میں ثمر آتا نہیں ہے
مرے اس اولیں اشک محبت پر نظر کر
یہ موتی سیپ میں پھر عمر بھر آتا نہیں ہے
کوئی قاتل رواں ہے میری شریانوں میں خورشیدؔ
جو مجھ کو قتل کرتا ہے نظر آتا نہیں ہے
یہ وہ بھٹکا مسافر ہے جو گھر آتا نہیں ہے
قفس اب آشیاں ہے خاک پر لکھی ہے روزی
کبھی دل میں خیال بال و پر آتا نہیں ہے
پہاڑوں کی سیاہی سے فزوں دل کی سیاہی
وہ حسن اب اپنی آنکھوں کو نظر آتا نہیں ہے
شجر برسوں سے نقش رائیگاں بن کر کھڑے ہیں
کوئی موسم ہو شاخوں میں ثمر آتا نہیں ہے
مرے اس اولیں اشک محبت پر نظر کر
یہ موتی سیپ میں پھر عمر بھر آتا نہیں ہے
کوئی قاتل رواں ہے میری شریانوں میں خورشیدؔ
جو مجھ کو قتل کرتا ہے نظر آتا نہیں ہے
ahsan
یہ جو ننگ تھے یہ جو نام تھے مجھے کھا گئے یہ جو ننگ تھے یہ جو نام تھے مجھے کھا گئے
یہ خیال پختہ جو خام تھے مجھے کھا گئے
کبھی اپنی آنکھ سے زندگی پہ نظر نہ کی
وہی زاویے کہ جو عام تھے مجھے کھا گئے
میں عمیق تھا کہ پلا ہوا تھا سکوت میں
یہ جو لوگ محو کلام تھے مجھے کھا گئے
وہ جو مجھ میں ایک اکائی تھی وہ نہ جڑ سکی
یہی ریزہ ریزہ جو کام تھے مجھے کھا گئے
یہ عیاں جو آب حیات ہے اسے کیا کروں
کہ نہاں جو زہر کے جام تھے مجھے کھا گئے
وہ نگیں جو خاتم زندگی سے پھسل گیا
تو وہی جو میرے غلام تھے مجھے کھا گئے
میں وہ شعلہ تھا جسے دام سے تو ضرر نہ تھا
پہ جو وسوسے تہہ دام تھے مجھے کھا گئے
جو کھلی کھلی تھیں عداوتیں مجھے راس تھیں
یہ جو زہر خندہ سلام تھے مجھے کھا گئے
یہ خیال پختہ جو خام تھے مجھے کھا گئے
کبھی اپنی آنکھ سے زندگی پہ نظر نہ کی
وہی زاویے کہ جو عام تھے مجھے کھا گئے
میں عمیق تھا کہ پلا ہوا تھا سکوت میں
یہ جو لوگ محو کلام تھے مجھے کھا گئے
وہ جو مجھ میں ایک اکائی تھی وہ نہ جڑ سکی
یہی ریزہ ریزہ جو کام تھے مجھے کھا گئے
یہ عیاں جو آب حیات ہے اسے کیا کروں
کہ نہاں جو زہر کے جام تھے مجھے کھا گئے
وہ نگیں جو خاتم زندگی سے پھسل گیا
تو وہی جو میرے غلام تھے مجھے کھا گئے
میں وہ شعلہ تھا جسے دام سے تو ضرر نہ تھا
پہ جو وسوسے تہہ دام تھے مجھے کھا گئے
جو کھلی کھلی تھیں عداوتیں مجھے راس تھیں
یہ جو زہر خندہ سلام تھے مجھے کھا گئے
umair






