مسجد
Poet: اختر الایمان By: Akhtar ul Iman Nazm, Sur
دور برگد کی گھنی چھاؤں میں خاموش و ملول
جس جگہ رات کے تاریک کفن کے نیچے
ماضی و حال گنہ گار نمازی کی طرح
اپنے اعمال پہ رو لیتے ہیں چپکے چپکے
ایک ویران سی مسجد کا شکستہ سا کلس
پاس بہتی ہوئی ندی کو تکا کرتا ہے
اور ٹوٹی ہوئی دیوار پہ چنڈول کبھی
گیت پھیکا سا کوئی چھیڑ دیا کرتا ہے
گرد آلود چراغوں کو ہوا کے جھونکے
روز مٹی کی نئی تہہ میں دبا جاتے ہیں
اور جاتے ہوئے سورج کے وداعی انفاس
روشنی آ کے دریچوں کی بجھا جاتے ہیں
حسرت شام و سحر بیٹھ کے گنبد کے قریب
ان پریشان دعاؤں کو سنا کرتی ہے
جو ترستی ہی رہیں رنگ اثر کی خاطر
اور ٹوٹا ہوا دل تھام لیا کرتی ہے
یا ابابیل کوئی آمد سرما کے قریب
اس کو مسکن کے لیے ڈھونڈ لیا کرتی ہے
اور محراب شکستہ میں سمٹ کر پہروں
داستاں سرد ممالک کی کہا کرتی ہے
ایک بوڑھا گدھا دیوار کے سائے میں کبھی
اونگھ لیتا ہے ذرا بیٹھ کے جاتے جاتے
یا مسافر کوئی آ جاتا ہے وہ بھی ڈر کر
ایک لمحے کو ٹھہر جاتا ہے آتے آتے
فرش جاروب کشی کیا ہے سمجھتا ہی نہیں
کالعدم ہو گیا تسبیح کے دانوں کا نظام
طاق میں شمع کے آنسو ہیں ابھی تک باقی
اب مصلٰی ہے نہ منبر نہ مؤذن نہ امام
آ چکے صاحب افلاک کے پیغام و سلام
کوہ و در اب نہ سنیں گے وہ صدائے جبریل
اب کسی کعبہ کی شاید نہ پڑے گی بنیاد
کھو گئی دشت فراموشی میں آواز خلیل
چاند پھیکی سی ہنسی ہنس کے گزر جاتا ہے
ڈال دیتے ہیں ستارے دھلی چادر اپنی
اس نگار دل یزداں کے جنازے پہ بس اک
چشم نم کرتی ہے شبنم یہاں اکثر اپنی
ایک میلا سا اکیلا سا فسردہ سا دیا
روز رعشہ زدہ ہاتھوں سے کہا کرتا ہے
تم جلاتے ہو کبھی آ کے بجھاتے بھی نہیں
ایک جلتا ہے مگر ایک بجھا کرتا ہے
تیز ندی کی ہر اک موج تلاطم بردوش
چیخ اٹھتی ہے وہیں دور سے فانی فانی
کل بہا لوں گی تجھے توڑ کے ساحل کی قیود
اور پھر گنبد و مینار بھی پانی پانی
کیا تجھ کو شکوہ ہے تیری گویائی کی طاقت
چھین کے قدرت نے بے انصافی کی ہے؟
کیا تجھ کو احساس ہے تیرے پاس اگر گفتار کی نعمت ہوتی
تو اس چاروں جانب پھیلی ہتھیاروں کی دنیا
سینہ دہلا دینے والے طیاروں کی انساں کش آوازیں
آوازیں جن میں انساں کی روح شبانہ روز دبی جاتی ہے
محشر خیز آوازیں کل پرزوں کی جن سے نفسی نفسی کا عالم پیدا ہو کر
دن پر دن عفریت کی صورت میں بڑھتا جاتا ہے
ان آوازوں کی ہیبت ناکی پر واویلا کرتی
تو آواز اٹھاتی اس فاشی اور تعصب پھیلانے والے عنصر کو بڑھتا پا کر
جو حب الوطنی کے نام پہ انساں کش ہوتا جاتا ہے
تو ان رجحانات کی خوب مذمت کرتی
ان سے لڑتی جو اس دنیا کو پیچھے لے جانے میں کوشاں ہیں
'مذہب اور تہذیب'
'ثقافت' اور 'ترقی' کہہ کر رجعت پرور ہو جاتے ہیں
لے میں تجھ کو اپنی گویائی دیتا ہوں!
یہ میرے کام نہیں آئی کچھ
میں ایسا بزدل ہوں جو ہر بے انصافی کو چپکے چپکے سہتا ہے
جس نے 'مقتل' اور 'قاتل' دونوں دیکھے ہیں
لیکن دانائی کہہ کر
اپنی گویائی کو گونگا کر رکھا ہے!
ذہن نے کھولی رکتے رکتے ماضی کی پارینہ کتاب
یادوں کے بے معنی دفتر خوابوں کے افسردہ شہاب
سب کے سب خاموش زباں سے کہتے ہیں اے خانہ خراب
گزری بات صدی یا پل ہو گزری بات ہے نقش بر آب
یہ روداد ہے اپنے سفر کی اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی اس آباد خرابے میں
شہر تمنا کے مرکز میں لگا ہوا ہے میلا سا
کھیل کھلونوں کا ہر سو ہے اک رنگیں گل زار کھلا
وہ اک بالک جس کو گھر سے اک درہم بھی نہیں ملا
میلے کی سج دھج میں کھو کر باپ کی انگلی چھوڑ گیا
ہوش آیا تو خود کو تنہا پا کے بہت حیران ہوا
بھیڑ میں راہ ملی نہیں گھر کی اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی اس آباد خرابے میں
وہ بالک ہے آج بھی حیراں میلہ جوں کا توں ہے لگا
حیراں ہے بازار میں چپ چپ کیا کیا بکتا ہے سودا
کہیں شرافت کہیں نجابت کہیں محبت کہیں وفا
آل اولاد کہیں بکتی ہے کہیں بزرگ اور کہیں خدا
ہم نے اس احمق کو آخر اسی تذبذب میں چھوڑا
اور نکالی راہ مفر کی اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی اس آباد خرابے میں
ہونٹ تبسم کے عادی ہیں ورنہ روح میں زہر آگیں
گھپے ہوئے ہیں اتنے نشتر جن کی کوئی تعداد نہیں
کتنی بار ہوئی ہے ہم پر تنگ یہ پھیلی ہوئی زمیں
جس پر ناز ہے ہم کو اتنا جھکی ہے اکثر وہی جبیں
کبھی کوئی سفلہ ہے آقا کبھی کوئی ابلہ فرزیں
بیچی لاج بھی اپنے ہنر کی اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی آباد خرابے میں
کالے کوس غم الفت کے اور میں نان شبینہ جو
کبھی چمن زاروں میں الجھا اور کبھی گندم کی بو
ناقۂ مشک تتاری بن کر لیے پھری مجھ کو ہر سو
یہی حیات صاعقہ فطرت بنی تعطل کبھی نمو
کبھی کیا رم عشق سے ایسے جیسے کوئی وحشی آہو
اور کبھی مر مر کے سحر کی اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم کیسے بسر کی اس آباد خرابے میں
کبھی غنیم جور و ستم کے ہاتھوں کھائی ایسی مات
ارض الم میں خوار ہوئے ہم بگڑے رہے برسوں حالات
اور کبھی جب دن نکلا تو بیت گئے جگ ہوئی نہ رات
ہر سو مہ وش سادہ قاتل لطف و عنایت کی سوغات
شبنم ایسی ٹھنڈی نگاہیں پھولوں کی مہکار سی بات
جوں توں یہ منزل بھی سر کی اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی اس آباد خرابے میں
راہ نورد شوق کو رہ میں کیسے کیسے یار ملے
ابر بہاراں عکس نگاراں خال رخ دلدار ملے
کچھ بالکل مٹی کے مادھو کچھ خنجر کی دھار ملے
کچھ منجدھار میں کچھ ساحل پر کچھ دریا کے پار ملے
ہم سب سے ہر حال میں لیکن یوں ہی ہاتھ پسار ملے
صرف ان کی خوبی پہ نظر کی اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی اس آباد خرابے میں
ساری ہے بے ربط کہانی دھندلے دھندلے ہیں اوراق
کہاں ہیں وہ سب جن سے جب تھی پل بھر کی دوری بھی شاق
کہیں کوئی ناسور نہیں گو حائل ہے برسوں کا فراق
کرم فراموشی نے دیکھو چاٹ لیے کتنے میثاق
وہ بھی ہم کو رو بیٹھے ہیں چلو ہوا قرضہ بے باق
کھلی تو آخر بات اثر کی اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی اس آباد خرابے میں
خواب تھے اک دن اوج زمیں سے کاہکشاں کو چھو لیں گے
کھلیں گے گل رنگ شفق سے قوس قزح میں جھولیں گے
باد بہاری بن کے چلیں گے سرسوں بن کر پھولیں گے
خوشیوں کے رنگیں جھرمٹ میں رنج و محن سب بھولیں گے
داغ گل و غنچہ کے بدلے مہکی ہوئی خوشبو لیں گے
ملی خلش پر زخم جگر کی اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی اس آباد خرابے میں
خوار ہوئے دمڑی کے پیچھے اور کبھی جھولی بھر مال
ایسے چھوڑ کے اٹھے جیسے چھوا تو کر دے گا کنگال
سیانے بن کر بات بگاڑی ٹھیک پڑی سادہ سی چال
چھانا دشت محبت کتنا آبلہ پا مجنوں کی مثال
کبھی سکندر کبھی قلندر کبھی بگولہ کبھی خیال
سوانگ رچائے اور گزر کی اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی اس آباد خرابے میں
زیست خدا جانے ہے کیا شے بھوک تجسس اشک فرار
پھول سے بچے زہرہ جبینیں مرد مجسم باغ و بہار
کیا ہے روح ارض کو آخر اور یہ زہریلے افکار
کس مٹی سے اگتے ہیں سب جینا کیوں ہے اک بیگار
ان باتوں سے قطع نظر کی اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی آباد خرابے میں
دور کہیں وہ کوئل کوکی رات کے سناٹے میں دور
کچی زمیں پر بکھرا ہوگا مہکا مہکا آم کا بور
بار مشقت کم کرنے کو کھلیانوں میں کام سے چور
کم سن لڑکے گاتے ہوں گے لو دیکھو وہ صبح کا نور
چاہ شب سے پھوٹ کے نکلا میں مغموم کبھی مسرور
سوچ رہا ہوں ادھر ادھر کی اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی اس آباد خرابے میں
نیند سے اب بھی دور ہیں آنکھیں گو کہ رہیں شب بھر بے خواب
یادوں کے بے معنی دفتر خوابوں کے افسردہ شہاب
سب کے سب خاموش زباں سے کہتے ہیں اے خانہ خراب
گزری بات صدی یا پل ہو گزری بات ہے نقش بر آب
مستقبل کی سوچ، اٹھا یہ ماضی کی پارینہ کتاب
منزل ہے یہ ہوش و خبر کی اس آباد خرابے میں
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی اس آباد خرابے میں
نہ زخم ہائے دروں کو ہے جستجوئے مآل
نہ تیرگی کا تلاطم، نہ سیل رنگ و نور
نہ خار زار تمنا میں گمرہی کا خیال
نہ آتش گل لالہ کا داغ سینے میں
نہ شورش غم پنہاں نہ آرزوئے وصال
نہ اشتیاق، نہ حیرت، نہ اضطراب، نہ سوگ
سکوت شام میں کھوئی ہوئی کہانی کا
طویل رات کی تنہائیاں نہیں بے رنگ
ابھی ہوا نہیں شاید لہو جوانی کا
حیات و موت کی حد میں ہیں ولولے چپ چاپ
گزر رہے ہیں دبے پاؤں قافلے چپ چاپ
jis jagah raat ke tarik kafan ke niche
mazi o haal gunahgar namazi ki tarah
apne aamal pe ro lete hain chupke chupke
ek viran si masjid ka shikasta sa kalas
pas bahti hui naddi ko taka karta hai
aur Tuti hui diwar pe chanDol kabhi
git phika sa koi chheD diya karta hai
gard-alud charaghon ko hawa ke jhonke
roz mitti ki nai tah mein daba jate hain
aur jate hue suraj ke widai anfas
raushni aa ke darichon ki bujha jate hain
hasrat-e-sham-o-sahar baith ke gumbad ke qarib
in pareshan duaon ko suna karti hai
jo tarasti hi rahin rang-e-asar ki Khatir
aur Tuta hua dil tham liya karti hai
ya ababil koi aamad-e-sarma ke qarib
us ko maskan ke liye Dhund liya karti hai
aur mehrab-e-shikasta mein simaT kar pahron
dastan sard mumalik ki kaha karti hai
ek budha gadha diwar ke sae mein kabhi
ungh leta hai zara baith ke jate jate
ya musafir koi aa jata hai wo bhi Dar kar
ek lamhe ko Thahar jata hai aate aate
farsh jarob-kashi kya hai samajhta hi nahin
kal-adam ho gaya tasbih ke danon ka nizam
taq mein shama ke aansu hain abhi tak baqi
ab musalla hai na mimbar na muazzin na imam
aa chuke sahab-e-aflak ke paigham o salam
koh o dar ab na sunenge wo sada-e-jibrail
ab kisi kabe ki shayad na paDegi buniyaad
kho gai dasht-e-faramoshi mein aawaz-e-Khalil
chand phiki si hansi hans ke guzar jata hai
Dal dete hain sitare dhuli chadar apni
is nigar-e-dil-e-yazdan ke janaze pe bas ek
chashm nam karti hai shabnam yahan aksar apni
ek maila sa akela sa fasurda sa diya
roz rasha-zada hathon se kaha karta hai
tum jalate ho kabhi aa ke bujhate bhi nahi
ek jalta hai magar ek bujha karta hai
tez naddi ki har ek mauj talatum-bar-dosh
chikh uthti hai wahin dur se fani fani
kal baha lungi tujhe toD ke sahil ki quyud
aur phir gumbad o minar bhi pani pani
ہماری عمر کا اک اور دن تمام ہوا
خدا کا شکر بجا لائیں آج کے دن بھی
نہ کوئی واقعہ گزرا نہ ایسا کام ہوا
زباں سے کلمۂ حق راست کچھ کہا جاتا
ضمیر جاگتا اور اپنا امتحاں ہوتا
خدا کا شکر بجا لائیں آج کا دن بھی
اسی طرح سے کٹا منہ اندھیرے اٹھ بیٹھے
پیالی چائے کی پی خبریں دیکھیں ناشتہ پر
ثبوت بیٹھے بصیرت کا اپنی دیتے رہے
بخیر و خوبی پلٹ آئے جیسے شام ہوئی
اور اگلے روز کا موہوم خوف دل میں لیے
ڈرے ڈرے سے ذرا بال پڑ نہ جائے کہیں
لیے دیے یونہی بستر میں جا کے لیٹ گئے
آتی نہیں کہیں سے دل زندہ کی صدا
سونے پڑے ہیں کوچہ و بازار عشق کے
ہے شمع انجمن کا نیا حسن جاں گداز
شاید نہیں رہے وہ پتنگوں کے ولولے
تازہ نہ رہ سکیں گی روایات دشت و در
وہ فتنہ سر گئے جنہیں کانٹے عزیز تھے
اب کچھ نہیں تو نیند سے آنکھیں جلائیں ہم
آؤ کہ جشن مرگ محبت منائیں ہم!
سوچا نہ تھا کہ آئے گا یہ دن بھی پھر کبھی
اک بار پھر ملے ہیں، ذرا مسکرا تو لیں!
کیا جانے اب نہ الفت دیرینہ یاد آئے
اس حسن اختیار پہ آنکھیں جھکا تو لیں
برسا لبوں سے پھول تری عمر ہو دراز
سنبھلے ہوئے تو ہیں پہ ذرا ڈگمگا تو لیں
اور اپنا اپنا عہد وفا بھول جائیں ہم
آؤ کہ جشن مرگ محبت منائیں ہم!
برسوں کی بات ہے کہ مرے جی میں آئی تھی
میں سوچتا تھا تجھ سے کہوں، چھوڑ کیا کہوں
اب کون ان شکستہ مزاروں کی بات لائے
ماضی پہ اپنے حال کو ترجیح کیوں نہ دوں
ماتم خزاں کا ہو کہ بہاروں کا، ایک ہے
شاید نہ پھر ملے تری آنکھوں کا یہ فسوں
جو شمع انتظار جلی تھی بجھائیں ہم
آؤ کہ جشن مرگ محبت منائیں ہم!






