اب حال اپنا اس کے ہے دل خواہ
Poet: میر تقی میر By: Rabi, Lahoreاب حال اپنا اس کے ہے دل خواہ 
 کیا پوچھتے ہو الحمدللہ 
 
 مر جاؤ کوئی پروا نہیں ہے 
 کتنا ہے مغرور اللہ اللہ 
 
 پیر مغاں سے بے اعتقادی 
 استغفر اللہ استغفر اللہ 
 
 کہتے ہیں اس کے تو منہ لگے گا 
 ہو یوں ہی یا رب جوں ہے یہ افواہ 
 
 حضرت سے اس کی جانا کہاں ہے 
 اب مر رہے گا یاں بندہ درگاہ 
 
 سب عقل کھوئے ہے راہ محبت 
 ہو خضر دل میں کیسا ہی گمراہ 
 
 مجرم ہوئے ہم دل دے کے ورنہ 
 کس کو کسو سے ہوتی نہیں چاہ 
 
 کیا کیا نہ ریجھیں تم نے پچائیں 
 اچھا رجھایا اے مہرباں آہ 
 
 گزرے ہے دیکھیں کیوں کر ہماری 
 اس بے وفا سے نے رسم نے راہ 
 
 تھی خواہش دل رکھنا حمائل 
 گردن میں اس کی ہر گاہ و بیگاہ 
 
 اس پر کہ تھا وہ شہ رگ سے اقرب 
 ہرگز نہ پہنچا یہ دست کوتاہ 
 
 ہے ماسوا کیا جو میرؔ کہیے 
 آگاہ سارے اس سے ہیں آگاہ 
 
 جلوے ہیں اس کے شانیں ہیں اس کی 
 کیا روز کیا خور کیا رات کیا ماہ 
 
 ظاہر کہ باطن اول کہ آخر 
 اللہ اللہ اللہ اللہ
پات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں کم کم باد و باراں ہے
رنگ ہوا سے یوں ٹپکے ہے جیسے شراب چواتے ہیں
آگے ہو مے خانے کے نکلو عہد بادہ گساراں ہے
عشق کے میداں داروں میں بھی مرنے کا ہے وصف بہت
یعنی مصیبت ایسی اٹھانا کار کار گزاراں ہے
دل ہے داغ جگر ہے ٹکڑے آنسو سارے خون ہوئے
لوہو پانی ایک کرے یہ عشق لالہ عذاراں ہے
کوہ کن و مجنوں کی خاطر دشت و کوہ میں ہم نہ گئے
عشق میں ہم کو میرؔ نہایت پاس عزت داراں ہے
اس راہ میں وے جیسے انجان نکلتے ہیں
کیا تیر ستم اس کے سینے میں بھی ٹوٹے تھے
جس زخم کو چیروں ہوں پیکان نکلتے ہیں
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
کس کا ہے قماش ایسا گودڑ بھرے ہیں سارے
دیکھو نہ جو لوگوں کے دیوان نکلتے ہیں
گہ لوہو ٹپکتا ہے گہ لخت دل آنکھوں سے
یا ٹکڑے جگر ہی کے ہر آن نکلتے ہیں
کریے تو گلہ کس سے جیسی تھی ہمیں خواہش
اب ویسے ہی یہ اپنے ارمان نکلتے ہیں
جاگہ سے بھی جاتے ہو منہ سے بھی خشن ہو کر
وے حرف نہیں ہیں جو شایان نکلتے ہیں
سو کاہے کو اپنی تو جوگی کی سی پھیری ہے
برسوں میں کبھو ایدھر ہم آن نکلتے ہیں
ان آئینہ رویوں کے کیا میرؔ بھی عاشق ہیں
جب گھر سے نکلتے ہیں حیران نکلتے ہیں
پیشانی پر ہے قشقہ زنار ہے کمر میں
نازک بدن ہے کتنا وہ شوخ چشم دلبر
جان اس کے تن کے آگے آتی نہیں نظر میں
سینے میں تیر اس کے ٹوٹے ہیں بے نہایت
سوراخ پڑ گئے ہیں سارے مرے جگر میں
آئندہ شام کو ہم رویا کڑھا کریں گے
مطلق اثر نہ دیکھا نالیدن سحر میں
بے سدھ پڑا رہوں ہوں اس مست ناز بن میں
آتا ہے ہوش مجھ کو اب تو پہر پہر میں
سیرت سے گفتگو ہے کیا معتبر ہے صورت
ہے ایک سوکھی لکڑی جو بو نہ ہو اگر میں
ہمسایۂ مغاں میں مدت سے ہوں چنانچہ
اک شیرہ خانے کی ہے دیوار میرے گھر میں
اب صبح و شام شاید گریے پہ رنگ آوے
رہتا ہے کچھ جھمکتا خوناب چشم تر میں
عالم میں آب و گل کے کیونکر نباہ ہوگا
اسباب گر پڑا ہے سارا مرا سفر میں
شمع روشن کے منہ پہ نور نہیں
کتنی باتیں بنا کے لاؤں ایک
یاد رہتی ترے حضور نہیں
خوب پہچانتا ہوں تیرے تئیں
اتنا بھی تو میں بے شعور نہیں
قتل ہی کر کہ اس میں راحت ہے
لازم اس کام میں مرور نہیں
فکر مت کر ہمارے جینے کا
تیرے نزدیک کچھ یہ دور نہیں
پھر جئیں گے جو تجھ سا ہے جاں بخش
ایسا جینا ہمیں ضرور نہیں
عام ہے یار کی تجلی میرؔ
خاص موسیٰ و کوہ طور نہیں
پر تمامی عتاب ہیں دونوں
رونا آنکھوں کا روئیے کب تک
پھوٹنے ہی کے باب ہیں دونوں
ہے تکلف نقاب وے رخسار
کیا چھپیں آفتاب ہیں دونوں
تن کے معمورے میں یہی دل و چشم
گھر تھے دو سو خراب ہیں دونوں
کچھ نہ پوچھو کہ آتش غم سے
جگر و دل کباب ہیں دونوں
سو جگہ اس کی آنکھیں پڑتی ہیں
جیسے مست شراب ہیں دونوں
پاؤں میں وہ نشہ طلب کا نہیں
اب تو سرمست خواب ہیں دونوں
ایک سب آگ ایک سب پانی
دیدہ و دل عذاب ہیں دونوں
بحث کاہے کو لعل و مرجاں سے
اس کے لب ہی جواب ہیں دونوں
آگے دریا تھے دیدۂ تر میرؔ
اب جو دیکھو سراب ہیں دونوں
کیا پوچھتے ہو الحمدللہ
مر جاؤ کوئی پروا نہیں ہے
کتنا ہے مغرور اللہ اللہ
پیر مغاں سے بے اعتقادی
استغفر اللہ استغفر اللہ
کہتے ہیں اس کے تو منہ لگے گا
ہو یوں ہی یا رب جوں ہے یہ افواہ
حضرت سے اس کی جانا کہاں ہے
اب مر رہے گا یاں بندہ درگاہ
سب عقل کھوئے ہے راہ محبت
ہو خضر دل میں کیسا ہی گمراہ
مجرم ہوئے ہم دل دے کے ورنہ
کس کو کسو سے ہوتی نہیں چاہ
کیا کیا نہ ریجھیں تم نے پچائیں
اچھا رجھایا اے مہرباں آہ
گزرے ہے دیکھیں کیوں کر ہماری
اس بے وفا سے نے رسم نے راہ
تھی خواہش دل رکھنا حمائل
گردن میں اس کی ہر گاہ و بیگاہ
اس پر کہ تھا وہ شہ رگ سے اقرب
ہرگز نہ پہنچا یہ دست کوتاہ
ہے ماسوا کیا جو میرؔ کہیے
آگاہ سارے اس سے ہیں آگاہ
جلوے ہیں اس کے شانیں ہیں اس کی
کیا روز کیا خور کیا رات کیا ماہ
ظاہر کہ باطن اول کہ آخر
اللہ اللہ اللہ اللہ







 
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
 