Add Poetry

تو کسی اور ہی دنیا میں ملی تھی مجھ سے

Poet: تہذیب حافی By: ساجد ہمید, Karachi

تو کسی اور ہی دنیا میں ملی تھی مجھ سے
تو کسی اور ہی موسم کی مہک لائی تھی

ڈر رہا تھا کہ کہیں زخم نہ بھر جائیں میرے
اور تو مٹھیاں بھر بھر کے نمک لائی تھی

اور ہی طرح کی آنکھیں تھی تیرے چہرے پر
تو کسی اور ہی ستارے کی چمک لائی تھی

تیری آواز ہی سب کچھ تھی مجھے مونثِ جاں
کیا کروں میں کہ تو بولی ہی بہت کم مجھ سے

تیری چپ سے ہی یہ محسوس کیا تھا میں نے
جیت جائے گا کسی روز تیرا غم مجھ سے

شہر آوازیں لگاتا تھا مگر تو چپ تھی
یہ تعلق مجھے کھاتا تھا مگر تو چپ تھی

وہی انجام تھا عشق کا جو آغاز سے ہے
تجھ کو پایا بھی نہیں تھا کہ تجھ کھونا تھا

چلی آتی ہے یہی رسم کئی صدیوں سے
یہی ہوتا تھا یہی ہو گا یہی ہونا تھا

پوچھتا رہتا تھا تجھ سے کہ بتا کیا دکھ ہے
اور میری آنکھ میں آنسو بھی نہیں ہوتے تھے

میں نے اندازے لگائے کہ سبب کیا ہو گا
پر میرے تیر ترازو ہی نہیں ہوتے تھے

جس کا ڈر تھا مجھے معلوم پڑا لوگوں سے
پھر وہ خوش بخت پلٹ آیا تیری دنیا میں

جس کے جانے پہ مجھے تو نے جگہ دی دل میں
میری قسمت میں ہی جب خالی جگہ لکھی تھی

تجھ سے شکوہ بھی اگر کرتا تو کیسے کرتا ۔۔
میں وہ سبزہ تھا جسے روند دیا جاتا ہے

میں وہ جنگل تھا جسے کاٹ دیا جاتا ہے
میں وہ در تھا جسے دستک کی کمی کھاتی ہے

میں وہ منزل تھا جہاں ٹوٹی سڑک جاتی ہے
میں وہ گھر تھا جسے آباد نہیں کرتا کوئی

میں تو وہ تھا کہ جسے یاد نہیں کرتا کوئی
خیر اس بات کو تو چھوڑ بتا کیسی ہے؟؟

تو نے چاہا تھا جسے وہ تیرے نزدیک تو ہے

کون سے غم نے تجھے چاٹ لیا اندر سے
آجکل پھر تو چپ رہتی ہے سب ٹھیک تو ہے

Rate it:
Views: 6253
10 Jan, 2022
Related Tags on Tahzeeb Hafi Poetry
Load More Tags
More Tahzeeb Hafi Poetry
میں نے یہ کب کہا ہے کہ وہ مجھ کو تنہا نہیں چھوڑتا میں نے یہ کب کہا ہے کہ وہ مجھ کو تنہا نہیں چھوڑتا
چھوڑتا ہے مگر ایک دن سے زیادہ نہیں چھوڑتا
کون صحراؤں کی پیاس ہے ان مکانوں کی بنیاد میں
بارشوں سے اگر بچ بھی جائیں تو دریا نہیں چھوڑتا
دور امید کی کھڑکیوں سے کوئی جھانکتا ہے یہاں
اور میرے گلی چھوڑنے تک دریچہ نہیں چھوڑتا
میں جسے چھوڑ کر تم سے چھپ کر ملا ہوں اگر آج وہ
دیکھ لیتا تو شاید وہ دونوں کو زندہ نہیں چھوڑتا
کون و امکان میں دو طرح کے ہی تو شعبدہ‌ باز ہیں
ایک پردہ گراتا ہے اور ایک پردہ نہیں چھوڑتا
سچ کہوں میری قربت تو خود اس کی سانسوں کا وردان ہے
میں جسے چھوڑ دیتا ہوں اس کو قبیلہ نہیں چھوڑتا
طے شدہ وقت پر وہ پہنچ جاتا ہے پیار کرنے وصول
جس طرح اپنا قرضہ کبھی کوئی بنیا نہیں چھوڑتا
پہلے مجھ پر بہت بھونکتا ہے کہ میں اجنبی ہوں کوئی
اور اگر گھر سے جانے کا بولوں تو کرتا نہیں چھوڑتا
لوگ کہتے ہیں تہذیب حافیؔ اسے چھوڑ کر ٹھیک ہے
ہجر اتنا ہی آسان ہوتا تو تونسہ نہیں چھوڑتا
حسنین
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets