اک زخمی پرندے کی طرح جال میں ھم ھیں
Poet: منور رانا By: عاقب عرفان, karachiاک زخمی پرندے کی طرح جال میں ھم ھیں
 اے عشق ابھی تک تیرے جنجال میں ھم ھیں
 
 ھنستے ھوئے چہرے نے بھرم رکھا ھمارا
 وہ دیکھنے آیا تھا کہ کس حال میں ھم ھیں
 
 اب آپ کی مرضی ھے سنبھالیں نہ سنبھالیں
 خوشبو کی طرح آپ کے رومال میں ھم ھیں
 
 میں پھوٹ کہ رونے لگا جب موت کے ڈر سے
 نیکی نے کہا نامۂ اعمال میں ھم ھیں
 
 اک خواب کی صورت ہی سہی، یاد ہے اب تک
 ماں کہتی تھی لے اوڑھ لے اس شال میں ہم ہیں
More Munawwar Rana Poetry
اک زخمی پرندے کی طرح جال میں ھم ھیں اک زخمی پرندے کی طرح جال میں ھم ھیں
اے عشق ابھی تک تیرے جنجال میں ھم ھیں
ھنستے ھوئے چہرے نے بھرم رکھا ھمارا
وہ دیکھنے آیا تھا کہ کس حال میں ھم ھیں
اب آپ کی مرضی ھے سنبھالیں نہ سنبھالیں
خوشبو کی طرح آپ کے رومال میں ھم ھیں
میں پھوٹ کہ رونے لگا جب موت کے ڈر سے
نیکی نے کہا نامۂ اعمال میں ھم ھیں
اک خواب کی صورت ہی سہی، یاد ہے اب تک
ماں کہتی تھی لے اوڑھ لے اس شال میں ہم ہیں
اے عشق ابھی تک تیرے جنجال میں ھم ھیں
ھنستے ھوئے چہرے نے بھرم رکھا ھمارا
وہ دیکھنے آیا تھا کہ کس حال میں ھم ھیں
اب آپ کی مرضی ھے سنبھالیں نہ سنبھالیں
خوشبو کی طرح آپ کے رومال میں ھم ھیں
میں پھوٹ کہ رونے لگا جب موت کے ڈر سے
نیکی نے کہا نامۂ اعمال میں ھم ھیں
اک خواب کی صورت ہی سہی، یاد ہے اب تک
ماں کہتی تھی لے اوڑھ لے اس شال میں ہم ہیں
عاقب عرفان
کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی  کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی 
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی
یہاں سے جانے والا لوٹ کر کوئی نہیں آیا
میں روتا رہ گیا لیکن نہ واپس جا کے ماں آئی
ادھورے راستے سے لوٹنا اچھا نہیں ہوتا
بلانے کے لیے دنیا بھی آئی تو کہاں آئی
کسی کو گاؤں سے پردیس لے جائے گی پھر شاید
اڑاتی ریل گاڑی ڈھیر سارا پھر دھواں آئی
مرے بچوں میں ساری عادتیں موجود ہیں میری
تو پھر ان بد نصیبوں کو نہ کیوں اردو زباں آئی
قفس میں موسموں کا کوئی اندازہ نہیں ہوتا
خدا جانے بہار آئی چمن میں یا خزاں آئی
گھروندے تو گھروندے ہیں چٹانیں ٹوٹ جاتی ہیں
اڑانے کے لیے آندھی اگر نام و نشاں آئی
کبھی اے خوش نصیبی میرے گھر کا رخ بھی کر لیتی
ادھر پہنچی ادھر پہنچی یہاں آئی وہاں آئی
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی
یہاں سے جانے والا لوٹ کر کوئی نہیں آیا
میں روتا رہ گیا لیکن نہ واپس جا کے ماں آئی
ادھورے راستے سے لوٹنا اچھا نہیں ہوتا
بلانے کے لیے دنیا بھی آئی تو کہاں آئی
کسی کو گاؤں سے پردیس لے جائے گی پھر شاید
اڑاتی ریل گاڑی ڈھیر سارا پھر دھواں آئی
مرے بچوں میں ساری عادتیں موجود ہیں میری
تو پھر ان بد نصیبوں کو نہ کیوں اردو زباں آئی
قفس میں موسموں کا کوئی اندازہ نہیں ہوتا
خدا جانے بہار آئی چمن میں یا خزاں آئی
گھروندے تو گھروندے ہیں چٹانیں ٹوٹ جاتی ہیں
اڑانے کے لیے آندھی اگر نام و نشاں آئی
کبھی اے خوش نصیبی میرے گھر کا رخ بھی کر لیتی
ادھر پہنچی ادھر پہنچی یہاں آئی وہاں آئی
تنویر آصف
لپٹ جاتا ہوں ماں سے اور موسی مسکراتی ہے لپٹ جاتا ہوں ماں سے اور موسی مسکراتی ہے
میں اردو میں غزل کہتا ہوں ہندی مسکراتی ہے
اچھلتے کھیلتے بچپن میں بیٹا ڈھونڈتی ہوگی
تبھی تو دیکھ کر پوتے کو دادی مسکراتی ہے
تبھی جا کر کہیں ماں باپ کو کچھ چین پڑتا ہے
کہ جب سسرال سے گھر آ کے بیٹی مسکراتی ہے
چمن میں صبح کا منظر بڑا دلچسپ ہوتا ہے
کلی جب سو کے اٹھتی ہے تو تتلی مسکراتی ہے
ہمیں اے زندگی تجھ پر ہمیشہ رشک آتا ہے
مسائل سے گھری رہتی ہے پھر بھی مسکراتی ہے
بڑا گہرا تعلق ہے سیاست سے تباہی کا
کوئی بھی شہر جلتا ہے تو دہلی مسکراتی ہے
میں اردو میں غزل کہتا ہوں ہندی مسکراتی ہے
اچھلتے کھیلتے بچپن میں بیٹا ڈھونڈتی ہوگی
تبھی تو دیکھ کر پوتے کو دادی مسکراتی ہے
تبھی جا کر کہیں ماں باپ کو کچھ چین پڑتا ہے
کہ جب سسرال سے گھر آ کے بیٹی مسکراتی ہے
چمن میں صبح کا منظر بڑا دلچسپ ہوتا ہے
کلی جب سو کے اٹھتی ہے تو تتلی مسکراتی ہے
ہمیں اے زندگی تجھ پر ہمیشہ رشک آتا ہے
مسائل سے گھری رہتی ہے پھر بھی مسکراتی ہے
بڑا گہرا تعلق ہے سیاست سے تباہی کا
کوئی بھی شہر جلتا ہے تو دہلی مسکراتی ہے
فیضان تنویر
مسرتوں کے خزانے ہی کم نکلتے ہیں مسرتوں کے خزانے ہی کم نکلتے ہیں 
کسی بھی سینے کو کھولو تو غم نکلتے ہیں
ہمارے جسم کے اندر کی جھیل سوکھ گئی
اسی لیے تو اب آنسو بھی کم نکلتے ہیں
یہ کربلا کی زمیں ہے اسے سلام کرو
یہاں زمین سے پتھر بھی نم نکلتے ہیں
یہی ہے ضد تو ہتھیلی پہ اپنی جان لیے
امیر شہر سے کہہ دو کہ ہم نکلتے ہیں
کہاں ہر ایک کو ملتے ہیں چاہنے والے
نصیب والوں کے گیسو میں خم نکلتے ہیں
جہاں سے ہم کو گزرنے میں شرم آتی ہے
اسی گلی سے کئی محترم نکلتے ہیں
تمہی بتاؤ کہ میں کھلکھلا کے کیسے ہنسوں
کہ روز خانۂ دل سے علم نکلتے ہیں
تمہارے عہد حکومت کا سانحہ یہ ہے
کہ اب تو لوگ گھروں سے بھی کم نکلتے ہیں
کسی بھی سینے کو کھولو تو غم نکلتے ہیں
ہمارے جسم کے اندر کی جھیل سوکھ گئی
اسی لیے تو اب آنسو بھی کم نکلتے ہیں
یہ کربلا کی زمیں ہے اسے سلام کرو
یہاں زمین سے پتھر بھی نم نکلتے ہیں
یہی ہے ضد تو ہتھیلی پہ اپنی جان لیے
امیر شہر سے کہہ دو کہ ہم نکلتے ہیں
کہاں ہر ایک کو ملتے ہیں چاہنے والے
نصیب والوں کے گیسو میں خم نکلتے ہیں
جہاں سے ہم کو گزرنے میں شرم آتی ہے
اسی گلی سے کئی محترم نکلتے ہیں
تمہی بتاؤ کہ میں کھلکھلا کے کیسے ہنسوں
کہ روز خانۂ دل سے علم نکلتے ہیں
تمہارے عہد حکومت کا سانحہ یہ ہے
کہ اب تو لوگ گھروں سے بھی کم نکلتے ہیں
Waqas
یہاں سے جانے والا لوٹ کر کوئی نہیں آیا  کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی 
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی
یہاں سے جانے والا لوٹ کر کوئی نہیں آیا
میں روتا رہ گیا لیکن نہ واپس جا کے ماں آئی
ادھورے راستے سے لوٹنا اچھا نہیں ہوتا
بلانے کے لیے دنیا بھی آئی تو کہاں آئی
کسی کو گاؤں سے پردیس لے جائے گی پھر شاید
اڑاتی ریل گاڑی ڈھیر سارا پھر دھواں آئی
مرے بچوں میں ساری عادتیں موجود ہیں میری
تو پھر ان بد نصیبوں کو نہ کیوں اردو زباں آئی
قفس میں موسموں کا کوئی اندازہ نہیں ہوتا
خدا جانے بہار آئی چمن میں یا خزاں آئی
گھروندے تو گھروندے ہیں چٹانیں ٹوٹ جاتی ہیں
اڑانے کے لیے آندھی اگر نام و نشاں آئی
کبھی اے خوش نصیبی میرے گھر کا رخ بھی کر لیتی
ادھر پہنچی ادھر پہنچی یہاں آئی وہاں آئی
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی
یہاں سے جانے والا لوٹ کر کوئی نہیں آیا
میں روتا رہ گیا لیکن نہ واپس جا کے ماں آئی
ادھورے راستے سے لوٹنا اچھا نہیں ہوتا
بلانے کے لیے دنیا بھی آئی تو کہاں آئی
کسی کو گاؤں سے پردیس لے جائے گی پھر شاید
اڑاتی ریل گاڑی ڈھیر سارا پھر دھواں آئی
مرے بچوں میں ساری عادتیں موجود ہیں میری
تو پھر ان بد نصیبوں کو نہ کیوں اردو زباں آئی
قفس میں موسموں کا کوئی اندازہ نہیں ہوتا
خدا جانے بہار آئی چمن میں یا خزاں آئی
گھروندے تو گھروندے ہیں چٹانیں ٹوٹ جاتی ہیں
اڑانے کے لیے آندھی اگر نام و نشاں آئی
کبھی اے خوش نصیبی میرے گھر کا رخ بھی کر لیتی
ادھر پہنچی ادھر پہنچی یہاں آئی وہاں آئی
Tooba







 
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
 