Add Poetry

Allama Iqbal Nazm

Allama Iqbal Nazm is best way to express your words and emotion. Check out the amazing collection of express your feeling in words. This section is based on a huge data of all the latest Allama Iqbal Nazm that can be dedicated to your family, friends and love ones. Convey the inner feelings of heart with this world’s largest Allama Iqbal Nazm compilation that offers an individual to show the sentiments through words.

خطاب بہ جوانان اسلام کبھي اے نوجواں مسلم! تدبر بھي کيا تو نے
وہ کيا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت ميں
کچل ڈالا تھا جس نے پائوں ميں تاج سر دارا
تمدن آفريں خلاق آئين جہاں داري
وہ صحرائے عرب يعني شتربانوں کا گہوارا
سماں 'الفقر فخري' کا رہا شان امارت ميں
''بآب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روے زيبا را''
گدائي ميں بھي وہ اللہ والے تھے غيور اتنے
کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا يارا
غرض ميں کيا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشيں کيا تھے
جہاں گير و جہاں دار و جہاں بان و جہاں آرا
اگر چاہوں تو نقشہ کھينچ کر الفاظ ميں رکھ دوں
مگر تيرے تخيل سے فزوں تر ہے وہ نظارا
تجھے آبا سے اپنے کوئي نسبت ہو نہيں سکتي
کہ تو گفتار وہ کردار ، تو ثابت وہ سےارا
گنوا دي ہم نے جو اسلاف سے ميراث پائي تھي
ثريا سے زميں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
حکومت کا تو کيا رونا کہ وہ اک عارضي شے تھي
نہيں دنيا کے آئين مسلم سے کوئي چارا
مگر وہ علم کے موتي ، کتابيں اپنے آبا کي
جو ديکھيں ان کو يورپ ميں تو دل ہوتا ہے سيپارا
''غني! روز سياہ پير کنعاں را تماشا کن
کہ نور ديدہ اش روشن کند چشم زليخا را''
Faizan
روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ!
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ!
اس جلوۂ بے پردہ کو پردہ میں چھپا دیکھ!
ایام جدائی کے ستم دیکھ جفا دیکھ!
بیتاب نہ ہو معرکۂ بیم و رجا دیکھ!
ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل یہ گھٹائیں
یہ گنبد افلاک یہ خاموش فضائیں
یہ کوہ یہ صحرا یہ سمندر یہ ہوائیں
تھیں پیش نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں
آئینۂ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ!
سمجھے گا زمانہ تری آنکھوں کے اشارے!
دیکھیں گے تجھے دور سے گردوں کے ستارے!
ناپید ترے بحر تخیل کے کنارے
پہنچیں گے فلک تک تری آہوں کے شرارے
تعمیر خودی کر اثر آہ رسا دیکھ
خورشید جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں
آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہنر میں
جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں
جنت تری پنہاں ہے ترے خون جگر میں
اے پیکر گل کوشش پیہم کی جزا دیکھ!
نالندہ ترے عود کا ہر تار ازل سے
تو جنس محبت کا خریدار ازل سے
تو پیر صنم خانۂ اسرار ازل سے
محنت کش و خوں ریز و کم آزار ازل سے
ہے راکب تقدیر جہاں تیری رضا دیکھ!
Hassan
زہد اور رندی اک مولوی صاحب کی سناتا ہوں کہانی
تیزی نہیں منظور طبیعت کی دکھانی
شہرہ تھا بہت آپ کی صوفی منشی کا
کرتے تھے ادب ان کا اعالی و ادانی
کہتے تھے کہ پنہاں ہے تصوف میں شریعت
جس طرح کہ الفاظ میں مضمر ہوں معانی
لبریز مئ زہد سے تھی دل کی صراحی
تھی تہہ میں کہیں درد خیال ہمہ دانی
کرتے تھے بیاں آپ کرامات کا اپنی
منظور تھی تعداد مریدوں کی بڑھانی
مدت سے رہا کرتے تھے ہمسائے میں میرے
تھی رند سے زاہد کی ملاقات پرانی
حضرت نے مرے ایک شناسا سے یہ پوچھا
اقبالؔ کہ ہے قمرئ شمشاد معانی
پابندئ احکام شریعت میں ہے کیسا
گو شعر میں ہے رشک کلیم ہمدانی
سنتا ہوں کہ کافر نہیں ہندو کو سمجھتا
ہے ایسا عقیدہ اثر فلسفہ دانی
ہے اس کی طبیعت میں تشیع بھی ذرا سا
تفضیل علی ہم نے سنی اس کی زبانی
سمجھا ہے کہ ہے راگ عبادات میں داخل
مقصود ہے مذہب کی مگر خاک اڑانی
کچھ عار اسے حسن فروشوں سے نہیں ہے
عادت یہ ہمارے شعرا کی ہے پرانی
گانا جو ہے شب کو تو سحر کو ہے تلاوت
اس رمز کے اب تک نہ کھلے ہم پہ معانی
لیکن یہ سنا اپنے مریدوں سے ہے میں نے
بے داغ ہے مانند سحر اس کی جوانی
مجموعۂ اضداد ہے اقبالؔ نہیں ہے
دل دفتر حکمت ہے طبیعت خفقانی
رندی سے بھی آگاہ شریعت سے بھی واقف
پوچھو جو تصوف کی تو منصور کا ثانی
اس شخص کی ہم پر تو حقیقت نہیں کھلتی
ہوگا یہ کسی اور ہی اسلام کا بانی
القصہ بہت طول دیا وعظ کو اپنے
تا دیر رہی آپ کی یہ نغز بیانی
اس شہر میں جو بات ہو اڑ جاتی ہے سب میں
میں نے بھی سنی اپنے احبا کی زبانی
اک دن جو سر راہ ملے حضرت زاہد
پھر چھڑ گئی باتوں میں وہی بات پرانی
فرمایا شکایت وہ محبت کے سبب تھی
تھا فرض مرا راہ شریعت کی دکھانی
میں نے یہ کہا کوئی گلہ مجھ کو نہیں ہے
یہ آپ کا حق تھا ز رہ قرب مکانی
خم ہے سر تسلیم مرا آپ کے آگے
پیری ہے تواضع کے سبب میری جوانی
گر آپ کو معلوم نہیں میری حقیقت
پیدا نہیں کچھ اس سے قصور ہمہ دانی
میں خود بھی نہیں اپنی حقیقت کا شناسا
گہرا ہے مرے بحر خیالات کا پانی
مجھ کو بھی تمنا ہے کہ اقبالؔ کو دیکھوں
کی اس کی جدائی میں بہت اشک فشانی
اقبالؔ بھی اقبالؔ سے آگاہ نہیں ہے
کچھ اس میں تمسخر نہیں واللہ نہیں ہے
Anila
ایک گائے اور بکری اک چراگہ ہری بھری تھی کہیں
تھی سراپا بہار جس کی زمیں
کیا سماں اس بہار کا ہو بیاں
ہر طرف صاف ندیاں تھیں رواں
تھے اناروں کے بے شمار درخت
اور پیپل کے سایہ دار درخت
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں آتی تھیں
طائروں کی صدائیں آتی تھیں
کسی ندی کے پاس اک بکری
چرتے چرتے کہیں سے آ نکلی
جب ٹھہر کر ادھر ادھر دیکھا
پاس اک گائے کو کھڑے پایا
پہلے جھک کر اسے سلام کیا
پھر سلیقے سے یوں کلام کیا
کیوں بڑی بی مزاج کیسے ہیں
گائے بولی کہ خیر اچھے ہیں
کٹ رہی ہے بری بھلی اپنی
ہے مصیبت میں زندگی اپنی
جان پر آ بنی ہے کیا کہیے
اپنی قسمت بری ہے کیا کہیے
دیکھتی ہوں خدا کی شان کو میں
رو رہی ہوں بروں کی جان کو میں
زور چلتا نہیں غریبوں کا
پیش آیا لکھا نصیبوں کا
آدمی سے کوئی بھلا نہ کرے
اس سے پالا پڑے خدا نہ کرے
دودھ کم دوں تو بڑبڑاتا ہے
ہوں جو دبلی تو بیچ کھاتا ہے
ہتھکنڈوں سے غلام کرتا ہے
کن فریبوں سے رام کرتا ہے
اس کے بچوں کو پالتی ہوں میں
دودھ سے جان ڈالتی ہوں میں
بدلے نیکی کے یہ برائی ہے
میرے اللہ تری دہائی ہے
سن کے بکری یہ ماجرا سارا
بولی ایسا گلہ نہیں اچھا
بات سچی ہے بے مزہ لگتی
میں کہوں گی مگر خدا لگتی
یہ چراگہ یہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا
یہ ہری گھاس اور یہ سایہ
ایسی خوشیاں ہمیں نصیب کہاں
یہ کہاں بے زباں غریب کہاں
یہ مزے آدمی کے دم سے ہیں
لطف سارے اسی کے دم سے ہیں
اس کے دم سے ہے اپنی آبادی
قید ہم کو بھلی کہ آزادی
سو طرح کا بنوں میں ہے کھٹکا
واں کی گزران سے بچائے خدا
ہم پہ احسان ہے بڑا اس کا
ہم کو زیبا نہیں گلہ اس کا
قدر آرام کی اگر سمجھو
آدمی کا کبھی گلہ نہ کرو
گائے سن کر یہ بات شرمائی
آدمی کے گلے سے پچھتائی
دل میں پرکھا بھلا برا اس نے
اور کچھ سوچ کر کہا اس نے
یوں تو چھوٹی ہے ذات بکری کی
دل کو لگتی ہے بات بکری کی
Talal
جبریل و ابلیس جبرئیل
ہمدم دیرینہ کیسا ہے جہان رنگ و بو
ابلیس
سوز و ساز و درد و داغ و جستجو و آرزو
جبرئیل
ہر گھڑی افلاک پر رہتی ہے تیری گفتگو
کیا نہیں ممکن کہ تیرا چاک دامن ہو رفو
ابلیس
آہ اے جبریل تو واقف نہیں اس راز سے
کر گیا سرمست مجھ کو ٹوٹ کر میرا سبو
اب یہاں میری گزر ممکن نہیں ممکن نہیں
کس قدر خاموش ہے یہ عالم بے کاخ و کو
جس کی نومیدی سے ہو سوز درون کائنات
اس کے حق میں تقنطو اچھا ہے یا لاتقنطوا
جبرئیل
کھو دیئے انکار سے تو نے مقامات بلند
چشم یزداں میں فرشتوں کی رہی کیا آبرو
ابلیس
ہے مری جرأت سے مشت خاک میں ذوق نمو
میرے فتنے جامۂ عقل و خرد کا تار و پو
دیکھتا ہے تو فقط ساحل سے رزم خیر و شر
کون طوفاں کے طمانچے کھا رہا ہے میں کہ تو
خضر بھی بے دست و پا الیاس بھی بے دست و پا
میرے طوفاں یم بہ یم دریا بہ دریا جو بہ جو
گر کبھی خلوت میسر ہو تو پوچھ اللہ سے
قصۂ آدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہو
میں کھٹکتا ہوں دل یزداں میں کانٹے کی طرح
تو فقط اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو
Faizan
طلوع اسلام دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
افق سے آفتاب ابھرا گیا دور گراں خوابی
عروق مردۂ مشرق میں خون زندگی دوڑا
سمجھ سکتے نہیں اس راز کو سینا و فارابی
مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفان مغرب نے
تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی
عطا مومن کو پھر درگاہ حق سے ہونے والا ہے
شکوہ ترکمانی ذہن ہندی نطق اعرابی
اثر کچھ خواب کا غنچوں میں باقی ہے تو اے بلبل
نوا را تلخ ترمی زن چو ذوق نغمہ کم یابی
تڑپ صحن چمن میں آشیاں میں شاخساروں میں
جدا پارے سے ہو سکتی نہیں تقدیر سیمابی
وہ چشم پاک ہیں کیوں زینت بر گستواں دیکھے
نظر آتی ہے جس کو مرد غازی کی جگر تابی
ضمیر لالہ میں روشن چراغ آرزو کر دے
چمن کے ذرے ذرے کو شہید جستجو کر دے
سرشک چشم مسلم میں ہے نیساں کا اثر پیدا
خلیل اللہ کے دریا میں ہوں گے پھر گہر پیدا
کتاب ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا
ربود آں ترک شیرازی دل تبریز و کابل را
صبا کرتی ہے بوئے گل سے اپنا ہم سفر پیدا
اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
جہاں بانی سے ہے دشوار تر کار جہاں بینی
جگر خوں ہو تو چشم دل میں ہوتی ہے نظر پیدا
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
نوا پیرا ہو اے بلبل کہ ہو تیرے ترنم سے
کبوتر کے تن نازک میں شاہیں کا جگر پیدا
ترے سینے میں ہے پوشیدہ راز زندگی کہہ دے
مسلماں سے حدیث سوز و ساز زندگی کہہ دے
خدائے لم یزل کا دست قدرت تو زباں تو ہے
یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے
پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلماں کی
ستارے جس کی گرد راہ ہوں وہ کارواں تو ہے
مکاں فانی مکیں فانی ازل تیرا ابد تیرا
خدا کا آخری پیغام ہے تو جاوداں تو ہے
حنا بند عروس لالہ ہے خون جگر تیرا
تری نسبت براہیمی ہے معمار جہاں تو ہے
تری فطرت امیں ہے ممکنات زندگانی کی
جہاں کے جوہر مضمر کا گویا امتحاں تو ہے
جہان آب و گل سے عالم جاوید کی خاطر
نبوت ساتھ جس کو لے گئی وہ ارمغاں تو ہے
یہ نکتہ سر گزشت ملت بیضا سے ہے پیدا
کہ اقوام زمین ایشیا کا پاسباں تو ہے
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی
بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی
میان شاخساراں صحبت مرغ چمن کب تک
ترے بازو میں ہے پرواز شاہین قہستانی
گماں آباد ہستی میں یقیں مرد مسلماں کا
بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی
مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے
وہ کیا تھا زور حیدر فقر بوذر صدق سلمانی
ہوئے احرار ملت جادہ پیما کس تجمل سے
تماشائی شگاف در سے ہیں صدیوں کے زندانی
ثبات زندگی ایمان محکم سے ہے دنیا میں
کہ المانی سے بھی پایندہ تر نکلا ہے تورانی
جب اس انگارۂ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا
تو کر لیتا ہے یہ بال و پر روح الامیں پیدا
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
ولایت پادشاہی علم اشیا کی جہانگیری
یہ سب کیا ہیں فقط اک نکتۂ ایماں کی تفسیریں
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں
تمیز بندہ و آقا فساد آدمیت ہے
حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں
حقیقت ایک ہے ہر شے کی خاکی ہو کہ نوری ہو
لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرے کا دل چیریں
یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
چہ باید مرد را طبع بلندے مشرب نابے
دل گرمے نگاہ پاک بینے جان بیتابے
عقابی شان سے جھپٹے تھے جو بے بال و پر نکلے
ستارے شام کے خون شفق میں ڈوب کر نکلے
ہوئے مدفون دریا زیر دریا تیرنے والے
طمانچے موج کے کھاتے تھے جو بن کر گہر نکلے
غبار رہ گزر ہیں کیمیا پر ناز تھا جن کو
جبینیں خاک پر رکھتے تھے جو اکسیر گر نکلے
ہمارا نرم رو قاصد پیام زندگی لایا
خبر دیتی تھیں جن کو بجلیاں وہ بے خبر نکلے
حرم رسوا ہوا پیر حرم کی کم نگاہی سے
جوانان تتاری کس قدر صاحب نظر نکلے
زمیں سے نوریان آسماں پرواز کہتے تھے
یہ خاکی زندہ تر پایندہ تر تابندہ تر نکلے
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے
یقیں افراد کا سرمایۂ تعمیر ملت ہے
یہی قوت ہے جو صورت گر تقدیر ملت ہے
تو راز کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا
خودی کا رازداں ہو جا خدا کا ترجماں ہو جا
ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انساں کو
اخوت کا بیاں ہو جا محبت کی زباں ہو جا
یہ ہندی وہ خراسانی یہ افغانی وہ تورانی
تو اے شرمندۂ ساحل اچھل کر بے کراں ہو جا
غبار آلودۂ رنگ و نسب ہیں بال و پر تیرے
تو اے مرغ حرم اڑنے سے پہلے پرفشاں ہو جا
خودی میں ڈوب جا غافل یہ سر زندگانی ہے
نکل کر حلقۂ شام و سحر سے جاوداں ہو جا
مصاف زندگی میں سیرت فولاد پیدا کر
شبستان محبت میں حریر و پرنیاں ہو جا
گزر جا بن کے سیل تند رو کوہ و بیاباں سے
گلستاں راہ میں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہو جا
ترے علم و محبت کی نہیں ہے انتہا کوئی
نہیں ہے تجھ سے بڑھ کر ساز فطرت میں نوا کوئی
ابھی تک آدمی صید زبون شہریاری ہے
قیامت ہے کہ انساں نوع انساں کا شکاری ہے
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
وہ حکمت ناز تھا جس پر خرد مندان مغرب کو
ہوس کے پنجۂ خونیں میں تیغ کارزاری ہے
تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا
جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
خروش آموز بلبل ہو گرہ غنچے کی وا کر دے
کہ تو اس گلستاں کے واسطے باد بہاری ہے
پھر اٹھی ایشیا کے دل سے چنگاری محبت کی
زمیں جولاں گہہ اطلس قبایان تتاری ہے
بیا پیدا خریدا راست جان نا توانے را
پس از مدت گزار افتاد برما کاروانے را
بیا ساقی نوائے مرغ زار از شاخسار آمد
بہار آمد نگار آمد نگار آمد قرار آمد
کشید ابر بہاری خیمہ اندر وادی و صحرا
صدائے آبشاراں از فراز کوہسار آمد
سرت گردم توہم قانون پیشیں ساز دہ ساقی
کہ خیل نغمہ پردازاں قطار اندر قطار آمد
کنار از زاہداں برگیر و بیباکانہ ساغر کش
پس از مدت ازیں شاخ کہن بانگ ہزار آمد
بہ مشتاقاں حدیث خواجۂ بدرو حنین آور
تصرف ہائے پنہانش بچشم آشکار آمد
دگر شاخ خلیل از خون ما نمناک می گردد
ببازار محبت نقد ما کامل عیار آمد
سر خاک شہیرے برگ ہائے لالہ می پاشم
کہ خونش بانہال ملت ما سازگار آمد
بیا تا گل بفیشانیم و مے در ساغر اندازیم
فلک را سقف بشگافیم و طرح دیگر اندازیم
Hassan
ماں کا خواب میں سوئی جو اک شب تو دیکھا یہ خواب
بڑھا اور جس سے مرا اضطراب
یہ دیکھا کہ میں جا رہی ہوں کہیں
اندھیرا ہے اور راہ ملتی نہیں
لرزتا تھا ڈر سے مرا بال بال
قدم کا تھا دہشت سے اٹھنا محال
جو کچھ حوصلہ پا کے آگے بڑھی
تو دیکھا قطار ایک لڑکوں کی تھی
زمرد سی پوشاک پہنے ہوئے
دیے سب کے ہاتھوں میں جلتے ہوئے
وہ چپ چاپ تھے آگے پیچھے رواں
خدا جانے جانا تھا ان کو کہاں
اسی سوچ میں تھی کہ میرا پسر
مجھے اس جماعت میں آیا نظر
وہ پیچھے تھا اور تیز چلتا نہ تھا
دیا اس کے ہاتھوں میں جلتا نہ تھا
کہا میں نے پہچان کر میری جاں
مجھے چھوڑ کر آ گئے تم کہاں
جدائی میں رہتی ہوں میں بے قرار
پروتی ہوں ہر روز اشکوں کے ہار
نہ پروا ہماری ذرا تم نے کی
گئے چھوڑ اچھی وفا تم نے کی
جو بچے نے دیکھا مرا پیچ و تاب
دیا اس نے منہ پھیر کر یوں جواب
رلاتی ہے تجھ کو جدائی مری
نہیں اس میں کچھ بھی بھلائی مری
یہ کہہ کر وہ کچھ دیر تک چپ رہا
دیا پھر دکھا کر یہ کہنے لگا
سمجھتی ہے تو ہو گیا کیا اسے؟
ترے آنسوؤں نے بجھایا اسے!
Maaz
Poetry Videos
Famous Poets
View More Poets

Allama Iqbal Nazm - Express your feeling with Pakistan’s largest collection of Allama Iqbal Nazm in Urdu. Read all the love and sad Nazam written by Allama Iqbal. Latest Collection of Allama Iqbal Nazms is here. You want to read your feelings with your loved ones, and then say it all with Allama Iqbal Nazm that can be dedicated and shared easily from this online page.

User Reviews

Today's youth can neither enjoy nor understand Allama Iqbal's poetry. The deep message and wisdom in his verses are often overlooked.

  • Nadeem , Fsd
  • Wed 02 Jul, 2025

The poetry shared on Hamariweb touches the heart and reflects deep emotions.

  • Laiba , Fatehpur
  • Tue 01 Jul, 2025

Allama Iqbal was our great leader, Through his powerful poetry, he awakened our souls, And inspired us to fight for the freedom we cherish today.

  • khwaja , Fatehpur
  • Mon 30 Jun, 2025