Kisi Ka Yun Toh Hua Kaun Umar Bhar Phir Bhi
Poet: Firaq Gorakhpuri By: ali, khiKisi Ka Yun Toh Hua Kaun Umar Bhar Phir Bhi
Ye Husn-O-Ishq Ka Dhokha Hai Sab Magar Phir Bhi
Hazaar Baar Zamana Idhar Se Guzra Hai
Nayi Nayi Si Hai Kuchh Teri Rahguzar Phir Bhi
Khusha Ishara-E-Paiham Zahe Sukoot-E-Nazar
Daraaz Ho Ke Fasaana Hai Mukhtsar Phir Bhi
Jhapak Rahi Hain Zamaan-O-Makaan Ki Bhi Aankhen
Magar Hai Qaafila Aamada-E-Safar Phir Bhi
Shab-E-Firaq Se Aage Hai Aaj Meri Nazar
Ki Kat Hi Jaayegi Ye Sham-E-Be-Sehar Phir Bhi
Palat Rahe Hain Gareeb-Ul-Watan Paltana Tha
Woh Koocha Roo-Kash-E-Jannat Ho Ghar Hai Ghar Phir Bhi
Kharaab Ho Ke Bhi Socha Kiye Tere Mehzoor
Yehi Ki Teri Nazar Hai Teri Nazar Phir Bhi
Lipat Gaya Tera Deewana Garche Manzil Se
Udi Udi Si Hai Kuchh Khaaq-E-Rahguzar Phir Bhi
Teri Nigaah Se Bachne Mein Umar Guzri Hai
Utar Gaya Rag-E-Jaan Mein Ye Nashtar Phir Bhi
Khata Muaaf Tera Afav Bhi Hai Misl-E-Saza
Teri Saza Mein Hai Ek Shaan-E-Darguzar Phir Bhi
Agarche Bekhudi-E-Ishq Ko Zamana Hua
Firaq’ Karti Rahi Kaam Woh Nazar Phir Bhi
دی سزا عشق نے ہر جرم و خطا سے پہلے
آتش عشق بھڑکتی ہے ہوا سے پہلے
ہونٹ جلتے ہیں محبت میں دعا سے پہلے
فتنے برپا ہوئے ہر غنچۂ سربستہ سے
کھل گیا راز چمن چاک قبا سے پہلے
چال ہے بادۂ ہستی کا چھلکتا ہوا جام
ہم کہاں تھے ترے نقش کف پا سے پہلے
اب کمی کیا ہے ترے بے سر و سامانوں کو
کچھ نہ تھا تیری قسم ترک وفا سے پہلے
عشق بے باک کو دعوے تھے بہت خلوت میں
کھو دیا سارا بھرم شرم و حیا سے پہلے
خود بخود چاک ہوئے پیرہن لالہ و گل
چل گئی کون ہوا باد صبا سے پہلے
ہم سفر راہ عدم میں نہ ہو تاروں بھری رات
ہم پہنچ جائیں گے اس آبلہ پا سے پہلے
پردۂ شرم میں صد برق تبسم کے نثار
ہوش جاتے رہے نیرنگ حیا سے پہلے
موت کے نام سے ڈرتے تھے ہم اے شوق حیات
تو نے تو مار ہی ڈالا تھا قضا سے پہلے
بے تکلف بھی ترا حسن خود آرا تھا کبھی
اک ادا اور بھی تھی حسن ادا سے پہلے
غفلتیں ہستئ فانی کی بتا دیں گی تجھے
جو مرا حال تھا احساس فنا سے پہلے
ہم انہیں پا کے فراقؔ اور بھی کچھ کھوئے گئے
یہ تکلف تو نہ تھے عہد وفا سے پہلے
شب فرقت بہت گھبرا رہا ہوں
ترے غم کو بھی کچھ بہلا رہا ہوں
جہاں کو بھی سمجھتا جا رہا ہوں
یقیں یہ ہے حقیقت کھل رہی ہے
گماں یہ ہے کہ دھوکے کھا رہا ہوں
اگر ممکن ہو لے لے اپنی آہٹ
خبر دو حسن کو میں آ رہا ہوں
حدیں حسن و محبت کی ملا کر
قیامت پر قیامت ڈھا رہا ہوں
خبر ہے تجھ کو اے ضبط محبت
ترے ہاتھوں میں لٹتا جا رہا ہوں
اثر بھی لے رہا ہوں تیری چپ کا
تجھے قائل بھی کرتا جا رہا ہوں
بھرم تیرے ستم کا کھل چکا ہے
میں تجھ سے آج کیوں شرما رہا ہوں
انہیں میں راز ہیں گلباریوں کے
میں جو چنگاریاں برسا رہا ہوں
جو ان معصوم آنکھوں نے دیے تھے
وہ دھوکے آج تک میں کھا رہا ہوں
ترے پہلو میں کیوں ہوتا ہے محسوس
کہ تجھ سے دور ہوتا جا رہا ہوں
حد جور و کرم سے بڑھ چلا حسن
نگاہ یار کو یاد آ رہا ہوں
جو الجھی تھی کبھی آدم کے ہاتھوں
وہ گتھی آج تک سلجھا رہا ہوں
محبت اب محبت ہو چلی ہے
تجھے کچھ بھولتا سا جا رہا ہوں
اجل بھی جن کو سن کر جھومتی ہے
وہ نغمے زندگی کے گا رہا ہوں
یہ سناٹا ہے میرے پاؤں کی چاپ
فراقؔ اپنی کچھ آہٹ پا رہا ہوں
تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں
مری نظریں بھی ایسے قاتلوں کا جان و ایماں ہیں
نگاہیں ملتے ہی جو جان اور ایمان لیتے ہیں
جسے کہتی ہے دنیا کامیابی وائے نادانی
اسے کن قیمتوں پر کامیاب انسان لیتے ہیں
نگاہ بادہ گوں یوں تو تری باتوں کا کیا کہنا
تری ہر بات لیکن احتیاطاً چھان لیتے ہیں
طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں
ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں
خود اپنا فیصلہ بھی عشق میں کافی نہیں ہوتا
اسے بھی کیسے کر گزریں جو دل میں ٹھان لیتے ہیں
حیات عشق کا اک اک نفس جام شہادت ہے
وہ جان ناز برداراں کوئی آسان لیتے ہیں
ہم آہنگی میں بھی اک چاشنی ہے اختلافوں کی
مری باتیں بعنوان دگر وہ مان لیتے ہیں
تری مقبولیت کی وجہ واحد تیری رمزیت
کہ اس کو مانتے ہی کب ہیں جس کو جان لیتے ہیں
اب اس کو کفر مانیں یا بلندیٔ نظر جانیں
خدائے دو جہاں کو دے کے ہم انسان لیتے ہیں
جسے صورت بتاتے ہیں پتہ دیتی ہے سیرت کا
عبارت دیکھ کر جس طرح معنی جان لیتے ہیں
تجھے گھاٹا نہ ہونے دیں گے کاروبار الفت میں
ہم اپنے سر ترا اے دوست ہر احسان لیتے ہیں
ہماری ہر نظر تجھ سے نئی سوگندھ کھاتی ہے
تو تیری ہر نظر سے ہم نیا پیمان لیتے ہیں
رفیق زندگی تھی اب انیس وقت آخر ہے
ترا اے موت ہم یہ دوسرا احسان لیتے ہیں
زمانہ واردات قلب سننے کو ترستا ہے
اسی سے تو سر آنکھوں پر مرا دیوان لیتے ہیں
فراقؔ اکثر بدل کر بھیس ملتا ہے کوئی کافر
کبھی ہم جان لیتے ہیں کبھی پہچان لیتے ہیں
اسی کی بوئے پریشاں وجود دنیا تھا
یہ کہہ کے کل کوئی بے اختیار روتا تھا
وہ اک نگاہ سہی کیوں کسی کو دیکھا تھا
طنابیں کوچۂ قاتل کی کھنچتی جاتی تھیں
شہید تیغ ادا میں بھی زور کتنا تھا
بس اک جھلک نظر آئی اڑے کلیم کے ہوش
بس اک نگاہ ہوئی خاک طور سینا تھا
ہر اک کے ہاتھ فقط غفلتیں تھیں ہوش نما
کہ اپنے آپ سے بیگانہ وار جینا تھا
یہی ہوا کہ فریب امید و یاس مٹے
وہ پا گئے ترے ہاتھوں ہمیں جو پانا تھا
چمن میں غنچۂ گل کھلکھلا کے مرجھائے
یہی وہ تھے جنہیں ہنس ہنس کے جان دینا تھا
نگاہ مہر میں جس کی ہیں صد پیام فنا
اسی کا عالم ایجاد و ناز بے جا تھا
جہاں تو جلوہ نما تھا لرزتی تھی دنیا
ترے جمال سے کیسا جلال پیدا تھا
حیات و مرگ کے کچھ راز کھل گئے ہوں گے
فسانۂ شب غم ورنہ دوستو کیا تھا
شب عدم کا فسانہ گداز شمع حیات
سوائے کیف فنا میرا ماجرا کیا تھا
کچھ ایسی بات نہ تھی تیرا دور ہو جانا
یہ اور بات کہ رہ رہ کے درد اٹھتا تھا
نہ پوچھ سود و زیاں کاروبار الفت کے
وگرنہ یوں تو نہ پانا تھا کچھ نہ کھوتا تھا
لگاوٹیں وہ ترے حسن بے نیاز کی آہ
میں تیری بزم سے جب ناامید اٹھا تھا
تجھے ہم اے دل درد آشنا کہاں ڈھونڈیں
ہم اپنے ہوش میں کب تھے کوئی جب اٹھا تھا
عدم کا راز صدائے شکست ساز حیات
حجاب زیست بھی کتنا لطیف پردا تھا
یہ اضطراب و سکوں بھی تھی اک فریب حیات
کہ اپنے حال سے بیگانہ وار جینا تھا
کہاں پہ چوک ہوئی تیرے بے قراروں سے
زمانہ دوسری کروٹ بدلنے والا تھا
یہ کوئی یاد ہے یہ بھی ہے کوئی محویت
ترے خیال میں تجھ کو بھی بھول جانا تھا
کہاں کی چوٹ ابھر آئی حسن تاباں میں
دم نظارہ وہ رخ درد سا چمکتا تھا
نہ پوچھ رمز و کنایات چشم ساقی کے
بس ایک حشر خموش انجمن میں برپا تھا
چمن چمن تھی گل داغ عشق سے ہستی
اسی کی نکہت برباد کا زمانہ تھا
وہ تھا مرا دل خوں گشتہ جس کے مٹنے سے
بہار باغ جناں تھی وجود دنیا تھا
قسم ہے بادہ کشو چشم مست ساقی کی
بتاؤ ہاتھ سے کیا جام مے سنبھلتا تھا
وصال اس سے میں چاہوں کہاں یہ دل میرا
یہ رو رہا ہوں کہ کیوں اس کو میں نے دیکھا تھا
امید یاس بنی یاس پھر امید بنی
اس اک نظر میں فریب نگاہ کتنا تھا
یہ سوز و ساز نہاں تھا وہ سوز و ساز عیاں
وصال و ہجر میں بس فرق تھا تو اتنا تھا
شکست ساز چمن تھی بہار لالہ و گل
خزاں مچلتی تھی غنچہ جہاں چٹکتا تھا
ہر ایک سانس ہے تجدید یاد ایامے
گزر گیا وہ زمانہ جسے گزرنا تھا
نہ کوئی وعدہ نہ کوئی یقیں نہ کوئی امید
مگر ہمیں تو ترا انتظار کرنا تھا
کسی کے صبر نے بے صبر دیا سب کو
فراقؔ نزع میں کروٹ کوئی بدلتا تھا
حوصلہ کچھ نہ ہمارا نہ تمہارا نکلا
تیرا نام آتے ہی سکتے کا تھا عالم مجھ پر
جانے کس طرح یہ مذکور دوبارا نکلا
ہوش جاتا ہے جگر جاتا ہے دل جاتا ہے
پردے ہی پردے میں کیا تیرا اشارا نکلا
ہے ترے کشف و کرامات کی دنیا قائل
تجھ سے اے دل نہ مگر کام ہمارا نکلا
کتنے سفاک سر قتل گہہ عالم تھے
لاکھوں میں بس وہی اللہ کا پیارا نکلا
عبرت انگیز ہے کیا اس کی جواں مرگی بھی
ہائے وہ دل جو ہمارا نہ تمہارا نکلا
عشق کی لو سے فرشتوں کے بھی پر جلتے ہیں
رشک خورشید قیامت یہ شرارا نکلا
سر بہ سر بے سر و ساماں جسے سمجھے تھے وہ دل
رشک جمشید و کے و خسرو و دارا نکلا
عقل کی لو سے فرشتوں کے بھی پر جلتے ہیں
رشک خورشید قیامت یہ شرارا نکلا
رونے والے ہوئے چپ ہجر کی دنیا بدلی
شمع بے نور ہوئی صبح کا تارا نکلا
انگلیاں اٹھیں فراقؔ وطن آوارہ پر
آج جس سمت سے وہ درد کا مارا نکلا
وہی میل اور وہی سنگ نشاں ہے کہ جو تھا
پھر ترا غم وہی رسوائے جہاں ہے کہ جو تھا
پھر فسانہ بحدیث دگراں ہے کہ جو تھا
منزلیں گرد کے مانند اڑی جاتی ہیں
وہی انداز جہان گزراں ہے کہ جو تھا
ظلمت و نور میں کچھ بھی نہ محبت کو ملا
آج تک ایک دھندلکے کا سماں ہے کہ جو تھا
یوں تو اس دور میں بے کیف سی ہے بزم حیات
ایک ہنگامہ سر رطل گراں ہے کہ جو تھا
لاکھ کر جور و ستم لاکھ کر احسان و کرم
تجھ پہ اے دوست وہی وہم و گماں ہے کہ جو تھا
آج پھر عشق دو عالم سے جدا ہوتا ہے
آستینوں میں لیے کون و مکاں ہے کہ جو تھا
عشق افسردہ نہیں آج بھی افسردہ بہت
وہی کم کم اثر سوز نہاں ہے کہ جو تھا
نظر آ جاتے ہیں تم کو تو بہت نازک بال
دل مرا کیا وہی اے شیشہ گراں ہے کہ جو تھا
جان دے بیٹھے تھے اک بار ہوس والے بھی
پھر وہی مرحلۂ سود و زیاں ہے کہ جو تھا
آج بھی صید گہ عشق میں حسن سفاک
لیے ابرو کی لچکتی سی کماں ہے کہ جو تھا
پھر تری چشم سخن سنج نے چھیڑی کوئی بات
وہی جادو ہے وہی حسن بیاں ہے کہ جو تھا
رات بھر حسن پر آئے بھی گئے سو سو رنگ
شام سے عشق ابھی تک نگراں ہے کہ جو تھا
جو بھی کر جور و ستم جو بھی کر احسان و کرم
تجھ پہ اے دوست وہی وہم و گماں ہے کہ جو تھا
آنکھ جھپکی کہ ادھر ختم ہوا روز وصال
پھر بھی اس دن پہ قیامت کا گماں ہے کہ جو تھا
قرب ہی کم ہے نہ دوری ہی زیادہ لیکن
آج وہ ربط کا احساس کہاں ہے کہ جو تھا
تیرہ بختی نہیں جاتی دل سوزاں کی فراقؔ
شمع کے سر پہ وہی آج دھواں ہے کہ جو تھا






