Paikar Tha Wafa Ka Mohabbat Ka Khuda Tha
Poet: Aitbar Sajid By: asif, khiPaikar Tha Wafa Ka, Mohabbat Ka Khuda Tha
Woh Shakhss Zamaney Mein Sab Se Hi Juda Tha
Chahat Ke Khazaney They Har Lafz Mein Us Ke
Daaman Mera Us Ne Duaaon Se Bhar Tha
Mujh Ko Nahin Dekha Karri Dhoop Ne Chu Kar
Baba Mera Duniya Main Mujhe Aesa Jo Mila Tha
Fikrain Na Zamaney Ki Kabhi Paas Bhi Ayin
Hard Dard Meri Hasti Se Dartaa Hi Raha Tha
Jab Taka Raha Saanson Ka Basera Mere Baba
Tab Tak Main Ghamon Se Bachta Hi Raha Tha
Us Shaam Ki Hiddat Mere Dil Se Nahin Jati
Jis Shaam Tera Saaya Mere Sar Se Utha Tha
More Aitbar Sajid Poetry
کبھی تو نے خود بھی سوچا کہ یہ پیاس ہے تو کیوں ہے کبھی تو نے خود بھی سوچا کہ یہ پیاس ہے تو کیوں ہے
تجھے پا کے بھی مرا دل جو اداس ہے تو کیوں ہے
مجھے کیوں عزیز تر ہے یہ دھواں دھواں سا موسم
یہ ہوائے شام ہجراں مجھے راس ہے تو کیوں ہے
تجھے کھو کے سوچتا ہوں مرے دامن طلب میں
کوئی خواب ہے تو کیوں ہے کوئی آس ہے تو کیوں ہے
میں اجڑ کے بھی ہوں تیرا تو بچھڑ کے بھی ہے میرا
یہ یقین ہے تو کیوں ہے یہ قیاس ہے تو کیوں ہے
مرے تن برہنہ دشمن اسی غم میں گھل رہے ہیں
کہ مرے بدن پہ سالم یہ لباس ہے تو کیوں ہے
کبھی پوچھ اس کے دل سے کہ یہ خوش مزاج شاعر
بہت اپنی شاعری میں جو اداس ہے تو کیوں ہے
ترا کس نے دل بجھایا مرے اعتبارؔ ساجد
یہ چراغ ہجر اب تک ترے پاس ہے تو کیوں ہے
تجھے پا کے بھی مرا دل جو اداس ہے تو کیوں ہے
مجھے کیوں عزیز تر ہے یہ دھواں دھواں سا موسم
یہ ہوائے شام ہجراں مجھے راس ہے تو کیوں ہے
تجھے کھو کے سوچتا ہوں مرے دامن طلب میں
کوئی خواب ہے تو کیوں ہے کوئی آس ہے تو کیوں ہے
میں اجڑ کے بھی ہوں تیرا تو بچھڑ کے بھی ہے میرا
یہ یقین ہے تو کیوں ہے یہ قیاس ہے تو کیوں ہے
مرے تن برہنہ دشمن اسی غم میں گھل رہے ہیں
کہ مرے بدن پہ سالم یہ لباس ہے تو کیوں ہے
کبھی پوچھ اس کے دل سے کہ یہ خوش مزاج شاعر
بہت اپنی شاعری میں جو اداس ہے تو کیوں ہے
ترا کس نے دل بجھایا مرے اعتبارؔ ساجد
یہ چراغ ہجر اب تک ترے پاس ہے تو کیوں ہے
Ghani
ڈھونڈتے کیا ہو ان آنکھوں میں کہانی میری ڈھونڈتے کیا ہو ان آنکھوں میں کہانی میری
خود میں گم رہنا تو عادت ہے پرانی میری
بھیڑ میں بھی تمہیں مل جاؤں گا آسانی سے
کھویا کھویا ہوا رہنا ہے نشانی میری
میں نے اک بار کہا تھا کہ بہت پیاسا ہوں
تب سے مشہور ہوئی تشنہ دہانی میری
یہی دیوار و در و بام تھے میرے ہم راز
انہی گلیوں میں بھٹکتی تھی جوانی میری
تو بھی اس شہر کا باسی ہے تو دل سے لگ جا
تجھ سے وابستہ ہے اک یاد پرانی میری
کربلا دشت محبت کو بنا رکھا ہے
کیا غزل گوئی ہے کیا مرثیہ خوانی میری
دھیمے لہجے کا سخنور ہوں نہ صہبا ہوں نہ جوش
میں کہاں اور کہاں شعلہ بیانی میری
خود میں گم رہنا تو عادت ہے پرانی میری
بھیڑ میں بھی تمہیں مل جاؤں گا آسانی سے
کھویا کھویا ہوا رہنا ہے نشانی میری
میں نے اک بار کہا تھا کہ بہت پیاسا ہوں
تب سے مشہور ہوئی تشنہ دہانی میری
یہی دیوار و در و بام تھے میرے ہم راز
انہی گلیوں میں بھٹکتی تھی جوانی میری
تو بھی اس شہر کا باسی ہے تو دل سے لگ جا
تجھ سے وابستہ ہے اک یاد پرانی میری
کربلا دشت محبت کو بنا رکھا ہے
کیا غزل گوئی ہے کیا مرثیہ خوانی میری
دھیمے لہجے کا سخنور ہوں نہ صہبا ہوں نہ جوش
میں کہاں اور کہاں شعلہ بیانی میری
yasir
ترے جیسا میرا بھی حال تھا نہ سکون تھا نہ قرار تھا ترے جیسا میرا بھی حال تھا نہ سکون تھا نہ قرار تھا
یہی عمر تھی مرے ہم نشیں کہ کسی سے مجھ کو بھی پیار تھا
میں سمجھ رہا ہوں تری کسک ترا میرا درد ہے مشترک
اسی غم کا تو بھی اسیر ہے اسی دکھ کا میں بھی شکار تھا
فقط ایک دھن تھی کہ رات دن اسی خواب زار میں گم رہیں
وہ سرور ایسا سرور تھا وہ خمار ایسا خمار تھا
کبھی لمحہ بھر کی بھی گفتگو مری اس کے ساتھ نہ ہو سکی
مجھے فرصتیں نہیں مل سکیں وہ ہوا کے رتھ پر سوار تھا
ہم عجیب طرز کے لوگ تھے کہ ہمارے اور ہی روگ تھے
میں خزاں میں اس کا تھا منتظر اسے انتظار بہار تھا
اسے پڑھ کے تم نہ سمجھ سکے کہ مری کتاب کے روپ میں
کوئی قرض تھا کئی سال کا کئی رت جگوں کا ادھار تھا
یہی عمر تھی مرے ہم نشیں کہ کسی سے مجھ کو بھی پیار تھا
میں سمجھ رہا ہوں تری کسک ترا میرا درد ہے مشترک
اسی غم کا تو بھی اسیر ہے اسی دکھ کا میں بھی شکار تھا
فقط ایک دھن تھی کہ رات دن اسی خواب زار میں گم رہیں
وہ سرور ایسا سرور تھا وہ خمار ایسا خمار تھا
کبھی لمحہ بھر کی بھی گفتگو مری اس کے ساتھ نہ ہو سکی
مجھے فرصتیں نہیں مل سکیں وہ ہوا کے رتھ پر سوار تھا
ہم عجیب طرز کے لوگ تھے کہ ہمارے اور ہی روگ تھے
میں خزاں میں اس کا تھا منتظر اسے انتظار بہار تھا
اسے پڑھ کے تم نہ سمجھ سکے کہ مری کتاب کے روپ میں
کوئی قرض تھا کئی سال کا کئی رت جگوں کا ادھار تھا
Rehan
تمہیں جب کبھی ملیں فرصتیں مرے دل سے بوجھ اتار دو تمہیں جب کبھی ملیں فرصتیں مرے دل سے بوجھ اتار دو
میں بہت دنوں سے اداس ہوں مجھے کوئی شام ادھار دو
مجھے اپنے روپ کی دھوپ دو کہ چمک سکیں مرے خال و خد
مجھے اپنے رنگ میں رنگ دو مرے سارے رنگ اتار دو
کسی اور کو مرے حال سے نہ غرض ہے کوئی نہ واسطہ
میں بکھرگیا ہوں سمیٹ لو میں بگڑ گیا ہوں سنوار دو
میں بہت دنوں سے اداس ہوں مجھے کوئی شام ادھار دو
مجھے اپنے روپ کی دھوپ دو کہ چمک سکیں مرے خال و خد
مجھے اپنے رنگ میں رنگ دو مرے سارے رنگ اتار دو
کسی اور کو مرے حال سے نہ غرض ہے کوئی نہ واسطہ
میں بکھرگیا ہوں سمیٹ لو میں بگڑ گیا ہوں سنوار دو
Ibrahim
رستے کا انتخاب ضروری سا ہو گیا رستے کا انتخاب ضروری سا ہو گیا
اب اختتام باب ضروری سا ہو گیا
ہم چپ رہے تو اور بھی الزام آئے گا
اب کچھ نہ کچھ جواب ضروری سا ہو گیا
ہم ٹالتے رہے کہ یہ نوبت نہ آنے پائے
پھر ہجر کا عذاب ضروری سا ہو گیا
ہر شام جلد سونے کی عادت ہی پڑ گئی
ہر رات ایک خواب ضروری سا ہو گیا
آہوں سے ٹوٹتا نہیں یہ گنبد سیاہ
اب سنگ آفتاب ضروری سا ہو گیا
دینا ہے امتحان تمہارے فراق کا
اب صبر کا نصاب ضروری سا ہو گیا
اب اختتام باب ضروری سا ہو گیا
ہم چپ رہے تو اور بھی الزام آئے گا
اب کچھ نہ کچھ جواب ضروری سا ہو گیا
ہم ٹالتے رہے کہ یہ نوبت نہ آنے پائے
پھر ہجر کا عذاب ضروری سا ہو گیا
ہر شام جلد سونے کی عادت ہی پڑ گئی
ہر رات ایک خواب ضروری سا ہو گیا
آہوں سے ٹوٹتا نہیں یہ گنبد سیاہ
اب سنگ آفتاب ضروری سا ہو گیا
دینا ہے امتحان تمہارے فراق کا
اب صبر کا نصاب ضروری سا ہو گیا
Qabeel
آنے والی تھی خزاں میدان خالی کر دیا آنے والی تھی خزاں میدان خالی کر دیا
کل ہوائے شب نے سارا لان خالی کر دیا
ہم ترے خوابوں کی جنت سے نکل کر آ گئے
دیکھ تیرا قصر عالی شان خالی کر دیا
دشمنوں نے شست باندھی خیمۂ امید پر
دوستوں نے درۂ امکان خالی کر دیا
بانٹنے نکلا ہے وہ پھولوں کے تحفے شہر میں
اس خبر پر ہم نے بھی گلدان خالی کر دیا
لے گیا وہ ساتھ اپنے دل کی ساری رونقیں
کس قدر یہ شہر تھا گنجان خالی کر دیا
ساری چڑیاں اڑ گئیں مجھ کو اکیلا چھوڑ کر
میرے گھر کا صحن اور دالان خالی کر دیا
ڈائری میں سارے اچھے شعر چن کر لکھ لیے
ایک لڑکی نے مرا دیوان خالی کر دیا
کل ہوائے شب نے سارا لان خالی کر دیا
ہم ترے خوابوں کی جنت سے نکل کر آ گئے
دیکھ تیرا قصر عالی شان خالی کر دیا
دشمنوں نے شست باندھی خیمۂ امید پر
دوستوں نے درۂ امکان خالی کر دیا
بانٹنے نکلا ہے وہ پھولوں کے تحفے شہر میں
اس خبر پر ہم نے بھی گلدان خالی کر دیا
لے گیا وہ ساتھ اپنے دل کی ساری رونقیں
کس قدر یہ شہر تھا گنجان خالی کر دیا
ساری چڑیاں اڑ گئیں مجھ کو اکیلا چھوڑ کر
میرے گھر کا صحن اور دالان خالی کر دیا
ڈائری میں سارے اچھے شعر چن کر لکھ لیے
ایک لڑکی نے مرا دیوان خالی کر دیا
Liaqat






