✕
Poetry
Famous Poets
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
More Poets
Poetry Categories
Love Poetry
Sad Poetry
Friendship Poetry
Islamic Poetry
Punjabi Poetry
More Categories
Poetry SMS
Poetry Images
Tags
Poetry Videos
Featured Poets
Post your Poetry
News
Business
Mobile
Articles
Islam
Names
Health
Shop
More
WOMEN
AUTOS
ENews
Recipes
Poetries
Results
Videos
Directory
Photos
Business & Finance
Education News
Add Poetry
Home
LOVE POETRY
SAD POETRY
FAMOUS POETS
POETRY IMAGES
POETRY VIDEOS
NEWS
ARTICLES
MORE ON POETRY
Home
Urdu Poetry
Featured Poets
Akhlaq Ahmed Khan
Search
Add Poetry
Poetries by Akhlaq Ahmed Khan
براجمان اقتدار پر ، رہزن پایا
براجمان اقتدار پر ، رہزن پایا
کیسا رہنے کو ہم نے ، چمن پایا
لفظ غدار سنا جس کے بارے میں
اکثر انہیں کو محبِ وطن پایا
فتوے کفر کے جس پر لگے اسے
ولیِ کامل و مردِ مومن پایا
آگ جس سے گھر کو لگی
وہی چراغ زینتِ انجمن پایا
بیچ کر اپنوں نے بدلے میں
دھن پایا ، بدن پایا
بنیاد تھی جس پر عمارت کی
ان جڑوں میں لگا ، گھن پایا
جس جس نے لہو سے آبیاری کی
چمن بنتے ہی اس نے ، کفن پایا
نہ کچھ کہا گیا نہ کیا گیا
کیسا ہم نے دست و ، دہن پایا
وہ منکرِ دیں کہ جس نے
صفِ پاسباں میں آکر ، امن پایا
جو ہوتا ہے یہی منصوبہِ ثانی تھا
نہ چاہ کر بھی گر ، وطن بن پایا
غداری و کفر کے کھیل میں سچ اخلاق
نہ میں کہہ پایا نہ تو ، سن پایا
Akhlaq Ahmed Khan
Copy
غاٸب کبھی چینی کبھی ، اَناج کرتے ہیں
غاٸب کبھی چینی کبھی ، اَناج کرتے ہیں
یہ کیا لوگ ہم پہ ، راج کرتے ہیں
عوام جا کر کسے سناٸیں دُکھڑے
یہاں حاکم خود ، احتجاج کرتے ہیں
کل کے حِزبِ مخالف ، طعنہ زن
سب وہی کام ، آج کرتے ہیں
ہر آنے والے نۓ چہرے یہاں
بِچھلوں سے بڑھ کر ، محتاج کرتے ہیں
گلستاں بھرا ہوا ہے پرندوں سے
جانے کیوں کم ، اندراج کرتے ہیں
باغباں بن کر غاصب یہاں
چمن کو ، تاراج کرتے ہیں
قلم اور بندوق بِک کر ”اخلاق“
ہمیں جہاں میں ، بےلاج کرتے ہیں
Akhlaq Ahmed Khan
Copy
خود کو بیج دیتے ہیں
روپے ، منصب کے ، بدلے میں خود کو بیچ دیتے ہیں
کچھ لوگ کتنا ، سستے میں خود کو بیج دیتے ہیں
شہرِ حَوس میں اِفلاس کا یہ عالم ہے
لوگ ٹکے ٹکے ، میں خود کو بیچ دیتے ہیں
کچھ اُصول بیچ کر خرید لاتے ہیں خواہشیں
کچھ خوف کے ، غلبے میں خود کو بیچ دیتے ہیں
نام و نمود کے پردے پر دِکھنے کے لۓ
لوگ ، پردے میں خود کو بیچ دیتے ہیں
ہم یہاں راہ تکتے ہیں منزلوں پر
اور مسافر ، رستے میں خود کو بیچ دیتے ہیں
کبھی عشق ، کبھی رزق ، کبھی مجبوری کے نام پر
ہم کس کس ، دھوکے میں خود کو بیچ دیتے ہیں
جن دیواروں تلے دب کر مرے ہیں ، چلو آج
اُسی احساس کے ملبے میں خود کو بیچ دیتے ہیں
کچھ نۓ کی چاہت نے قیمت ہی گھٹاٸی ہے
چلو کہ دام ، پچھلے میں خود کو بیچ دیتے ہیں
رہ گۓ تنہا تو کوٸی مفت میں نہ لے گا
ابھی سلسلہ ہے ، سلسلے میں خود کو بیچ دیتے ہیں
اعزازِ مسلم نے ہمیں انمول کیا اور ہم
بنٹ کر ، فرقے میں خود کو بیچ دیتے ہیں
”اخلاق“ یہ بے مول دنیا اُسے کب خرید سکتی ہے
جو گِر کر ، سجدے میں خود کو بیچ دیتے ہیں
Akhlaq Ahmed Khan
Copy
غزل
دُنیا میں جو ، بگاڑ ہے میرا قصور ہے
یہ جو مصیبتوں کا ، پہاڑ ہے میرا قصور ہے
اصلاح کی کبھی سعی کی ہی نہیں میں نے
یہ جتنی بھی مار ، دھاڑ ہے میرا قصور ہے
سب نے سبھی رنگ کے گُل ہیں کِھلاۓ
چمن میں جتنا ، جھاڑ ہے میرا قصور ہے
پرندے تو اب بھی آتے جاتے ہیں بےخطر
سرحدوں پہ یہ جو ، باڑ ہے میرا قصور ہے
فَضا میں سُر سنگیت بلبل کی نَوا سے ہیں
اور جتنی چیخ و ، چنگھاڑ ہے میرا قصور ہے
ہر بندھن میں ربط تمہارے ہی دم سے ہے
رشتوں میں جو ، دراڑ ہے میرا قصور ہے
اخلاق خدا تو منتظر ہے ہر گھڑی وِصال کا
درمیاں جو اب تک ، آڑ ہے میرا قصور ہے
Akhlaq Ahmed Khan
Copy
غزل
سمندر سما کر جس کے ، سینے میں مرگیا
وہ غوطہ زن آج ، سفینے میں مر گیا
جو دیتا رہا عمر بھر اوروں کو ساٸباں
وہ ڈوب کر اپنے ہی ، پسینے میں مر گیا
جو ماہ تنخواہ دار نے عیش میں گزارا تھا
ہاں وہ دہاڑی دار اسی ، مہینے میں مر گیا
زمانے کے رنج الم تو میں ہنس کے سہ گیا
تیرے دیے ہوۓ زخم ، سینے میں مر گیا
اوقات تو نہیں گر ان ﷺ کا کرم ہوا
کیا بعید اخلاق ، مدینے میں مر گیا
Akhlaq Ahmed Khan
Copy
کچھ مُنفرد ، کچھ سادہ ، کچھ اہم تو ہو
کچھ مُنفرد ، کچھ سادہ ، کچھ اہم تو ہو
تَخیُل جہانِ قلب کا کچھ ، محترم تو ہو
علمی جوہر دِکھاٸیے کٹِھن نہ کیجیے
پیامِ قلم کار ، عام فہم تو ہو
عُروض ردیف قافیہ نہ مرکزِ مضمون
نظم میں سُخن ور کوٸی ، نظم تو ہو
زندگی یوں تو گزاریے کہ کسی تلخ موڑ پر
قابلِ قبول نہ سہی ، قابلِ رحم تو ہو
دِکھاٸیں ہم بھی عشقِ گزشتہ کے جلوے
سامنے ہمارے کوٸی ویسا ، صنم تو ہو
مانا فخرِ جواں ہے اب آزادی و بانکپن
گفتار میں حیا ٕ ، دیدوں میں ، شرم تو ہو
اُجلت زدہ ، اُچاٹ ، لاچار سجدوں میں
گمانِ خدا نہیں ، تصورِ حرم تو ہو
منصبِ جہاد اب کسی عیب سے ہے کم کیا
تیغ نہیں نہ سہی ہاتھ میں ، قلم تو ہو
پاۓ گا عُہدے شہرت لیا جاۓ گا ہاتھوں ہاتھ
لبرل بن ، زہر اُگل زرا ، بے دھرم تو ہو
بے دینی و گمراہی کے طوفان آٸیں گے
اثر مُلّا کا سیاست سے ، ختم تو ہو
کورٹ کچہریوں میں انصاف پانے کو
بے گناہی نہ سہی ، رقم تو ہو
سوچے ہو حق بولے ہو سچ پھر پوچھتے ہو کہ
ہمیں ملی سزا کا کوٸی ، جُرم تو ہو
شرافت بھی ضروری ہے اس بے درد جہاں میں
جینے کو ” اخلاق “ کچھ زرا سا ، خم تو ہو
Akhlaq Ahmed Khan
Copy
اُردو
بولے پورا ، پاکستان اُردو
انجان پھر بھی ، زُبان اُردو
جَگ سارا سمجھے بولے
ہے اتنی ، آسان اُردو
بنی پہچانِ اہلِ ایمان اُردو
رکھتی ہے ربطِ ، قرآن اُردو
مَال مَتاع کیا شۓ تجھ پر
قُربان جی و جان اُردو
سبھی قوموں کے مابین
بنتی ہے ، ترجمان اُردو
ہر زُباں ہے اثاثہ اپنا
اِن اثاثوں کی ، نگران اُردو
پوچھا اپنی زباں کیا ہو
ہوا قاٸد کا ، فرمان اُردو
پستی کے اس عالَم میں
بُلندی کا ، اِمکان اُردو
طَوقِ فرنگ اتار کے پھینک
پڑھ لگا کے ، دھیان اُردو
کٸ دِلوں کے سَنگ مَدفُون ہوا
ہے وہ دیرینہ ، اَرمان اُردو
نافذ العمل یہ کیونکر ہو کہ اب
رہی نہ مرے لشکر کی، زُبان اُردو
Akhlaq Ahmed Khan
Copy
اتنا بھی نہیں ناداں یہ ، بات سمجھتا ہوں
اتنا بھی نہیں ناداں یہ ، بات سمجھتا ہوں
محبت کی بھی ہوتی ہیں ، ضروریات سمجتا ہوں
ساتھ جینے مرنے کی باتیں ہیں کتابی سب
میں اس شکمِ جہنم کے ، توہمات سمجھتا ہوں
قدرت کی کسی شۓ میں نقص دِکھتا نہیں مجھ کو
میں کاٸیں کاٸیں کو بھی ، نغمات سمجھتا ہوں
بد گوٸیاں بھی سہہ جاتا ہوں ہنس کر
دُشنامی کو تربیتی ، کلمات سمجھتا ہوں
تم محض کام سے جی مو نہ سکو گے
میں ان افسروں کی ، نفسیات سمجھتا ہوں
خوشامد ، مدح سراٸی ، چرب زبانی ، چاپلوسی
میں اِن سبھی زینوں کو ، واہیات سمجھتا ہوں
جَہل نے مَکر کو مانا ہے پیشوا
مُرشد میں تیرے ، کمالات سمجھتا ہوں
جاۓ خدا میں بھی چاہتا ہے شراکت تو
اے دل میں تیری ، ترجیحات سمجھتا ہوں
پہلے کاٹیں گے اہلِ علم سے پھر گمراہ کریں گے
میں اس مادر پدر آزادی کے ، نظریات سمجھتا ہوں
وباٸیں گر اَرض سے اٹھ بھی جاٸیں تو
تادیر رہتے ہیں ان کے ، اثرات سمجھتا ہوں
جانوں اگر قہر تو توبہ کا قَصد ہو
اخلاق میں کب حالات کو ، آفات سمجھتا ہوں
Akhlaq Ahmed Khan
Copy
اِختلاف کے پردے کو ، پَھٹ جانا چاہیٸے
اِختلاف کے پردے کو ، پَھٹ جانا چاہیٸے
شِیرازہ اُمت کا اب ، سِمٹ جانا چاہیٸے
بُھلا کر أپس کی رَنجشیں سب ہی
حریف کے مُقابل میں ، ڈٹ جانا چاہیٸے
مُبرّاۓ مَسلک ، قادیانیت کے تعقب میں
مُنادیِ ختمِ نبوتﷺ پر ، جَھٹ جانا چاہیٸے
احمدِ مُجتبےٰ ﷺ کے بعد اب نبی نہیں کوٸی
سبق یہ ہر طِفل کو ، رَٹ جانا چاہیٸے
کُفر ہمیں مِٹانے کو یَک جان ہوا ہے
ہمیں ایک ہونا چاہیٸے یا ، بنٹ جانا چاہیٸے؟
نظریہِ وطن کو خطرہ ، اساسِ اسلام کو خطرہ
غفلت کے بادلوں کو اب ، چھنٹ جانا چاہیٸے
یا تو اِس فتنے کی اب جَڑ کَٹنی چاہیٸے
یا اپنا أخری سر بھی ، کَٹ جانا چاہیٸے
ناموسِ ﷺ پر پہرہ دیتے ہیں کس طرح
دیکھنے کو یہ سمتِ صحابہ ، پلٹ جانا چاہیٸے
”اخلاق“ جو غم گُسارِ عَالَم ہیں شافِعِ محشر ہیں
اک اُسی ہَستی پر ہمیں مَر ، مِٹ جانا چاہیٸے
Akhlaq Ahmed Khan
Copy
جیسے مِثل سَرفرازی ، أسماں سے ہے
جیسے مِثل سَرفرازی ، أسماں سے ہے
زُباں میں یہ مثال اُردو ، زُباں سے ہے
ادیب و مُصنف ہوں یا اربابِ سُخن ہوں
سب گُلوں میں رنگ اسی ، گلُستاں سے ہے
ہر مذہب کو جگہ دی اردو کے چمن نے
کب اس کا تعلق صرف ، مُسلماں سے ہے
یہ مِٹنے کی نہیں لاکھ زور لگا لو
فیض حاصل اِسے نظامی ، أستاں سے ہے
جو ضرب لگاٸی وہ اپنوں نے لگاٸی
ربط مرا یوسف ع کی سی ، داستاں سے ہے
تم مرے مسکن کی دیواریں نہ اٹھاٶ
اندیشہ مجھے رفیقِ ، أشیاں سے ہے
میں اہم نہیں تو کیوں ہوں نشانے پر
کچھ تو ڈر تجھے اُردو ، زُباں سے ہے
ہے دَستور میں مگر ، مَنشور میں نہیں
شرمندہ ایوان میں یہ سیاست ، داں سے ہے
” اخلاق “ اردو میں یہ جو رمق دوڑ رہی ہے
کچھ صاحبِ شوق کچھ صاحبِ ، ایماں سے ہے
Akhlaq Ahmed Khan
Copy
سونی عمارتوں کو عطا ، جمال کر
سونی عمارتوں کو عطا ، جمال کر
الہیٰ مسجدوں کی رونق ، بحال کر
کمالات کا سرچشمہ ہے اک تو ہی
میرے خدا تو پھر سے ، کمال کر
دل ڈوبتا ہے مسجدِ ویراں کو دیکھ کر
بہتر ہے ڈوب جاۓ خود کو اچھال ، اچھال کر
فاسق سہی فاجر سہی پر اوقات سے بڑھ کر
رکھتے ہیں ہم یارب تیرے گھر کو ، سنبھال کر
تیرے سِوا بھی کوٸی خُدا ہے کیا ہمارا ؟
کہاں جانے کو کہہ رہا ہے تو ہمیں ، نکال کر
یہ تیرے مُنکر ہمیں بےأسرا سمجھیں
الہیٰ ہمارا ایسا نہ ، حال کر
حُبِ جاہ و جہاں کو تیرے مُقابل میں
بے شک ظلم کیا سینوں میں ، پال کر
الہیٰ واسطہ احمدِ مرسلﷺ توبہ قبول کر
عطا ہمیں پھر وہی ماہ و ، سال کر
الہیٰ رو رو اخلاق دعا مانگ رہا ہے
تو ہی تو کہتا ہے بندے ، سوال کر
Akhlaq Ahmed Khan
Copy
نہ علاج اس کا نہ کوٸی ، دواٸی
نہ علاج اس کا نہ کوٸی ، دواٸی
کرونا ہے یارو وہ مرضِ ، وباٸی
ستمِ جہاں دیکھ کر ہوتا ہے گماں یہ
ناراضگی خدا کی زمیں پر اُتر ، أٸی
کہیں عصمت دری تھی کہیں لاشیں پڑی تھیں
چشمِ غیور پھر بھی نہ کوٸی ، شرماٸی
جُنٗبشِ اَنگُشت سے پیوستہ عالمِ بے حیاٸی
اتنی أسان تو کبھی نہ تھی ، براٸی
دِلوں میں کَجی تو پہلے ہی تھی پِنہاں
اب تو ہاتھ ملانے سے بھی گۓ ، بھاٸی
کیا حق ارضِ خُدا کو میلا کریں ہم
کیسے ممکن تھا جوش میں نہ أتی ، خداٸی
”اخلاق“ کرونا سے بچنے کی یہی سبیل ہے اب
سب مل کر اپناٸیں ہم اس کے دَر کی ، گداٸی
Akhlaq Ahmed Khan
Copy
ایمان کتنا ، شِکستہ ہوگیا ہے
ایمان کتنا ، شِکستہ ہوگیا ہے
گناہ پھر ، دانستہ ہوگیا ہے
جن مُنکرات کا باغی تھا کبھی دل
اُنہیں کا رَفتہ ، رَفتہ ہو گیا ہے
چلنا پُرلطف و سہل تھا جس پر
کٹھن کتنا وہ ، رَستہ ہو گیا ہے
چلو چل کر پڑھتے ہیں نماز کہ
اِسے پڑھے بھی ، ہفتہ ہو گیا ہے
بہہ کر بھی رنگ نہیں لاتا اب تو
لہو مسلماں کا کتنا ، سستا ہوگیا ہے
اخلاق وہ کفر کا تھرتھرانا لرزنا
چھوڑو یہ قصہ ، گزشتہ ہوگیا ہے
Akhlaq Ahmed Khan
Copy
اپنی زندگی میں ، اپنی بہت کرلی
اپنی زندگی میں ، اپنی بہت کرلی
اے نفس تیری ، پیروی بہت کر لی
مرے گردشِ ایام میں زکرِ غروب نہیں
میں نے اُمیدِ ، زندگی بہت کر لی
روح جلتی ہے خواہشوں کے شُعلوں میں
عارضی گھر میں ، میں نے ، روشنی بہت کرلی
اب تُو مرے لمس کو تَرسے گا
دلربا تو نے بے ، رُخی بہت کرلی
عشقِ لازوال سے خود کو أشنا کر
چل اے دل کہ دل ، لگی بہت کرلی
حَلقہ دُشمنوں کا تو بڑھنا ہی تھا
تو نے حاصل جو ، برتری بہت کرلی
اخلاق اب قَلمِ الم اٹھا ، سینے پر داغ
کہ تو نے شاعری ، سرسری بہت کرلی
Akhlaq Ahmed Khan
Copy
سوال اَٹی ہوٸی مٹی پر ، اُٹھایا جاۓ
سوال اَٹی ہوٸی مٹی پر ، اُٹھایا جاۓ
أگیا وقت کہ گرد کو ، اُڑایا جاۓ
بادِ باطل نے کیوں اس سے نا أشنا رکھا
کیا ہے اس کتاب میں پڑھ کے ، سنایا جاۓ
باعثِ ثواب رہی ، مقصد جانا ہی نہیں
پیامِ سحر ہے کیا مجھ کو ، بتایا جاۓ
صاحبِ علم ہوکر بھی جہالت نہ گٸ
چلو پھر سبق اَگلوں کا ، دوہرایا جاۓ
بِن خُوشبو کے گُل بھی کوٸی گُل ہے بھلا
کیوں قابلیت چھوڑ کر ڈگریوں کو ، بڑھایا جاۓ
کردو دَستور بحال بس وہی مدنی ریاست ہے
باغ کوٸی نیا نہ اب ہم کو ، دِکھایا جاۓ
پُرفتن دور ہے ، کذابوں کی منڈی ہے
ختمِ نبوتﷺ کو ہر روز پڑھایا جاۓ
اے محافظ مُخلص ہے تو کردار ادا کر اپنا
اس سے پہلے کہ سوال تجھ پر بھی ، اُٹھایا جاۓ
سانس اُکھڑتی ہے ، نظر دید کو ترستی ہے
تم چاہتے ہو سچ اب بھی ، چھپایا جاۓ
سازِ اغیار کے غوغہ سے نکلنے کے لۓ
اب فقط دین کا نغمہ ہی ، سنایا جاۓ
کُتبِ فنون کو ہاتھ میں تھام کر ”اخلاق“
رب کے قرأن کو سینوں سے ، لگایا جاۓ
Akhlaq Ahmed Khan
Copy
کوٸی امید ، بَر نہیں أتی
کوٸی امید ، بَر نہیں أتی
جمہوریت کہیں ، نظر نہیں أتی
پہلے دِکھتی تھی کبھی جھلک
اب نظر ، یکسر نہیں أتی
فوج کی حدیں تو معین ہیں
یہ حدود میں ، مگر نہیں أتی
أمریت ہی کیوں طاقت کے بل بوتے
شریعت کیوں زور ، پر نہیں اتی
کہوں سلیکٹڈ تو مراد تو ہی ہے
یہ مثال کسی اور ، پر نہیں أتی
یوں تو فوج معتبر ہے مگر
یہ بات مُنہ ، بھر نہیں أتی
خوفِ جاں نے لب سی رکھے ہیں
ورنہ کیا بات ، کر نہیں أتی
مدینہ کس مُنہ سے جاٶ گے اخلاق
مخالفت قادیانیوں کی ، گر نہیں أتی
Akhlaq Ahmed Khan
Copy
علم و داناٸی مانا کہ ، قلیل رکھتا ہوں
علم و داناٸی مانا کہ ، قلیل رکھتا ہوں
مگر میں اپنی بات میں دلیل رکھتا ہوں
جَگ ہنساٸی کیوں نہ میرا مقدر ہو
میں رہنما جو اپنے ، زلیل رکھتا ہوں
سیراب ہوتے ہیں دست و رخسار ان سے
میں أنکھوں میں اک ، سبیل رکھتا ہوں
میں مَسکنِ مہاجر ہوں ، سَو پیاسا ہوں
اگرچہ پہلو میں اپنے ، جھیل رکھتا ہوں
تم شوق سے راہ میں بِکھیرو اندھیرے
میں ہاتھوں میں اپنے ، قندیل رکھتا ہوں
بنانے والے نے بھی ہڈی نہیں رکھی اس میں
سَو اخلاق میں بھی زُباں میں ، ڈھیل رکھتا ہوں
Akhlaq Ahmed Khan
Copy
لُڑکتے لَوٹوں کی حکومت ہے
لُڑکتے لَوٹوں کی حکومت ہے
طِلسمی وَوٹوں کی حکومت ہے
جمہوریت کے پیرہن میں
بُوٹوں کی حکومت ہے
نظامِ قانون و عدالت میں
نوٹوں کی حکومت ہے
وزارت کے عہدوں پر
بھّدے موٹوں کی حکومت ہے
جھوٹ ، کردار کشی و بدگوٸی
سوچ کے چھوٹوں کی حکومت ہے
دفتر و ایوانِ بالا میں
فحش ہونٹوں کی حکومت ہے
جانے اب کیا ہوگا مستقبل مسلماں کا
شبہ ہے ایماں کے کھوٹوں کی حکومت ہے
لبِ صداقت سی لو ”اخلاق“
کہ جھوٹوں کی حکومت ہے
Akhlaq Ahmed Khan
Copy
چلتا ہے یہ سب پیار میں
چلتا ہے یہ سب پیار میں
سنو غصہ نہیں کرتے
کیا رکھا ہے اس تکرار میں
سنو غصہ نہیں کرتے
بات ہو چار دیواری میں
یہی تہزیب سکھاتی ہے
کہ اجنبی دیار میں
سنو غصہ نہیں کرتے
کیا اب محبت نہیں مجھ سے
جو مجھ سے دور رہتے ہو
پیار ہے تو پیار میں
سنو غصہ نہیں کرتے
یہ موسم لوٹ جاۓ گا
پھر سال بعد أۓ گا
ابھی بہار ہے بہار میں
سنو غصہ نہیں کرتے
کوٸی بات تُک کی ہو
تو میں بھی سر جھکادوں یہ
بس یونہی بیکار میں
سنو غصہ نہیں کرتے
یہ جو ہر بات پہ چِڑتے ہو
کوٸی درد ہے سینے میں
گر دل ہو قرار میں
سنو غصہ نہیں کرتے
خامیاں دور کرتے ہیں
اُنہیں غلطیاں سکھاتی ہیں
اہلِ ظرف ہار میں
سنو غصہ نہیں کرتے
سرِعام پِٹتے ہیں
کوٸی دبدبہ نہیں رہتا
جو دے کر ہاتھ تلوار میں
سنو غصہ نہیں کرتے
طاقت کے نشے میں وہ
خود اپنا سر کُچلتے ہیں
کبھی رہ کر سرکار میں
سنو غصہ نہیں کرتے
Akhlaq Ahmed Khan
Copy
جو سہارا ہے بےکسوں کا وہی ، سنبھال لے گا
جو سہارا ہے بےکسوں کا وہی ، سنبھال لے گا
پالا ہے جس نے اب تک أگے بھی ، پال لے گا
خود کو ہلاکت میں ، خود سے بھی ڈال لوں گر
مشکل میں مجھ کو پاکر بہرحال ، نکال لے گا
جانتا ہوں میں اُسی کی أغوش میں أ گِروں گا
کیا ہے جو کچھ دیر ہوا میں ، اُچھال لے گا
مجے تو اپنے دُشمنوں کا غم ستاۓ ہے اب
کیا ہوگا جب وہ میری جانب سے ، چال لے گا
اخلاق جسے خدا نے توکل عطا کیا ہو
وہ رُوبَرو خَلق کے کیا دستِ ، سوال لے گا
Akhlaq Ahmed Khan
Copy
Load More
Famous Poets
Mirza Ghalib
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
Faiz Ahmed Faiz
Munir Niazi
Jaun Elia
Gulzar
Tahzeeb Hafi
Ali Zaryoun
View More Poets