Add Poetry

Poetries by Akhlaq Ahmed Khan

خود کو بیج دیتے ہیں روپے ، منصب کے ، بدلے میں خود کو بیچ دیتے ہیں
کچھ لوگ کتنا ، سستے میں خود کو بیج دیتے ہیں
شہرِ حَوس میں اِفلاس کا یہ عالم ہے
لوگ ٹکے ٹکے ، میں خود کو بیچ دیتے ہیں
کچھ اُصول بیچ کر خرید لاتے ہیں خواہشیں
کچھ خوف کے ، غلبے میں خود کو بیچ دیتے ہیں
نام و نمود کے پردے پر دِکھنے کے لۓ
لوگ ، پردے میں خود کو بیچ دیتے ہیں
ہم یہاں راہ تکتے ہیں منزلوں پر
اور مسافر ، رستے میں خود کو بیچ دیتے ہیں
کبھی عشق ، کبھی رزق ، کبھی مجبوری کے نام پر
ہم کس کس ، دھوکے میں خود کو بیچ دیتے ہیں
جن دیواروں تلے دب کر مرے ہیں ، چلو آج
اُسی احساس کے ملبے میں خود کو بیچ دیتے ہیں
کچھ نۓ کی چاہت نے قیمت ہی گھٹاٸی ہے
چلو کہ دام ، پچھلے میں خود کو بیچ دیتے ہیں
رہ گۓ تنہا تو کوٸی مفت میں نہ لے گا
ابھی سلسلہ ہے ، سلسلے میں خود کو بیچ دیتے ہیں
اعزازِ مسلم نے ہمیں انمول کیا اور ہم
بنٹ کر ، فرقے میں خود کو بیچ دیتے ہیں
”اخلاق“ یہ بے مول دنیا اُسے کب خرید سکتی ہے
جو گِر کر ، سجدے میں خود کو بیچ دیتے ہیں
Akhlaq Ahmed Khan
کچھ مُنفرد ، کچھ سادہ ، کچھ اہم تو ہو کچھ مُنفرد ، کچھ سادہ ، کچھ اہم تو ہو
تَخیُل جہانِ قلب کا کچھ ، محترم تو ہو
علمی جوہر دِکھاٸیے کٹِھن نہ کیجیے
پیامِ قلم کار ، عام فہم تو ہو
عُروض ردیف قافیہ نہ مرکزِ مضمون
نظم میں سُخن ور کوٸی ، نظم تو ہو
زندگی یوں تو گزاریے کہ کسی تلخ موڑ پر
قابلِ قبول نہ سہی ، قابلِ رحم تو ہو
دِکھاٸیں ہم بھی عشقِ گزشتہ کے جلوے
سامنے ہمارے کوٸی ویسا ، صنم تو ہو
مانا فخرِ جواں ہے اب آزادی و بانکپن
گفتار میں حیا ٕ ، دیدوں میں ، شرم تو ہو
اُجلت زدہ ، اُچاٹ ، لاچار سجدوں میں
گمانِ خدا نہیں ، تصورِ حرم تو ہو
منصبِ جہاد اب کسی عیب سے ہے کم کیا
تیغ نہیں نہ سہی ہاتھ میں ، قلم تو ہو
پاۓ گا عُہدے شہرت لیا جاۓ گا ہاتھوں ہاتھ
لبرل بن ، زہر اُگل زرا ، بے دھرم تو ہو
بے دینی و گمراہی کے طوفان آٸیں گے
اثر مُلّا کا سیاست سے ، ختم تو ہو
کورٹ کچہریوں میں انصاف پانے کو
بے گناہی نہ سہی ، رقم تو ہو
سوچے ہو حق بولے ہو سچ پھر پوچھتے ہو کہ
ہمیں ملی سزا کا کوٸی ، جُرم تو ہو
شرافت بھی ضروری ہے اس بے درد جہاں میں
جینے کو ” اخلاق “ کچھ زرا سا ، خم تو ہو
Akhlaq Ahmed Khan
اتنا بھی نہیں ناداں یہ ، بات سمجھتا ہوں اتنا بھی نہیں ناداں یہ ، بات سمجھتا ہوں
محبت کی بھی ہوتی ہیں ، ضروریات سمجتا ہوں
ساتھ جینے مرنے کی باتیں ہیں کتابی سب
میں اس شکمِ جہنم کے ، توہمات سمجھتا ہوں
قدرت کی کسی شۓ میں نقص دِکھتا نہیں مجھ کو
میں کاٸیں کاٸیں کو بھی ، نغمات سمجھتا ہوں
بد گوٸیاں بھی سہہ جاتا ہوں ہنس کر
دُشنامی کو تربیتی ، کلمات سمجھتا ہوں
تم محض کام سے جی مو نہ سکو گے
میں ان افسروں کی ، نفسیات سمجھتا ہوں
خوشامد ، مدح سراٸی ، چرب زبانی ، چاپلوسی
میں اِن سبھی زینوں کو ، واہیات سمجھتا ہوں
جَہل نے مَکر کو مانا ہے پیشوا
مُرشد میں تیرے ، کمالات سمجھتا ہوں
جاۓ خدا میں بھی چاہتا ہے شراکت تو
اے دل میں تیری ، ترجیحات سمجھتا ہوں
پہلے کاٹیں گے اہلِ علم سے پھر گمراہ کریں گے
میں اس مادر پدر آزادی کے ، نظریات سمجھتا ہوں
وباٸیں گر اَرض سے اٹھ بھی جاٸیں تو
تادیر رہتے ہیں ان کے ، اثرات سمجھتا ہوں
جانوں اگر قہر تو توبہ کا قَصد ہو
اخلاق میں کب حالات کو ، آفات سمجھتا ہوں
Akhlaq Ahmed Khan
Famous Poets
View More Poets