Add Poetry

Poetries by سرور فرحان سرورؔ

میں نہیں بتاؤں گا زیست میں جو سیکھا ہے اب نہیں بھلاؤں گا
مسکرا کے جیئوں گا، اشک کب بہاؤں گا؟
تجربات کو اپنے، جگ سے میں چھپاؤں گا
جانتا ہوں سب لیکن "میں نہیں بتاؤں گا"
کون سا ہے فیشن in, مجھ کو علم ہے سب کا
رات ہے یا جگ میں دن، مجھ کو علم ہے سب کا
پوچھتے ہیں لوگ مجھ سے، کیا انہیں سکھاؤں گا؟
جانتا ہوں سب لیکن "میں نہیں بتاؤں گا"
کس کا کس سے پھڈا ہے؟ کون ہے کس چکر میں؟
کون کس سے دبتا ہے؟ کون ہے کس ٹکر میں؟
لوگ سوچتے ہیں یہ 'پردہ کب اٹھاؤں گا؟'
جانتا ہوں سب لیکن "میں نہیں بتاؤں گا"
روس ہو یا امریکہ، چین یا افریقہ ہو
باخبر ہوں رسموں سے منگنی یا عقیقہ ہو
میں خبر کی مسند پہ گل نئے کھلاؤں گا
جانتا ہوں سب لیکن "میں نہیں بتاؤں گا"
پیٹھ میں ہے کھجلی کیوں؟ معدے میں کیوں اینٹھن ہے؟
کس بناء پہ سر درد ہے؟ کیوں بھلا انفیکشن ہے؟
اطباء کے مطب کو تالے میں لگواؤں گا
جانتا ہوں سب لیکن "میں نہیں بتاؤں گا"
شہر بھر میں کچرا ہے، صفائی کا ہے کیوں فقدان؟
کون ہے فرشتہ اور کون اندر سے شیطان؟
نوٹ کے بدلے میں اب ووٹ میں بھگتاؤں گا
جانتا ہوں سب لیکن "میں نہیں بتاؤں گا"
کھول کر نیا چینل، جہالتیں پھیلاؤں گا
روز و شب فقط اپنی بانسری بجاؤں گا
اپنی اہمیت سرور ہر جگہ جتاؤں گا
جانتا ہوں سب لیکن "میں نہیں بتاؤں گا"
Sarwar Farhan Sarwar
تب ہی سرور کہہ سکیں گے “ہاں یہ نیا سال ہے“ کل جو اپنا حال تھا، وہی تو اپنا حال ہے
ہم جیسوں کے لئے کیا خاک نیا سال ہے
جیب جس کی گرم ہے، اُس کی ہی ہستی نرم ہے
بخت اُس کے سخت ہیں، جو جیب سے کنگال ہے
جوہرِ قابل وہی، جس کی ہے پرچی بڑی
جُوتیوں میں بٹ رہی، اِس مُلک میں اب دال ہے
مسلک و فرقہ پرستی، اب حقیقت میں ہیں دیں
وحدتِ مسلم ہی یارو، مُسلماں میں خال ہے
قومیت کے بُتکدے میں، زَبان کے ہیں بُت سجے
ہر پُجاری اپنے مندر میں بڑا دجال ہے
خون ریزی، بم دھماکے، قتل و غارتگری
ارضِ پاکستان میں شیطان کا دھمال ہے
ہیں مسیحا خودغرض، ارباب سب غفلت میں ہیں
اہلِ دانش کی خرد بھی جان کا جنجال ہے
سب کے اپنے ہیں مُجاہد، سب کے اپنے ہیں شہید
قوم ہے اب مُنتشر، یک جہتی کا کال ہے
خوبیء تقدیر سے ہم کو ملا ہے وہ وطن
ماضی جس کا پُر شکوہ، تابندہ جس کا حال ہے
جس کا اک اک فرد ہے خورشید کی مانند ضیاء
اپنی ملت، جوہرِ محنت سے مالا مال ہے
ہے ضرورت کہ بدل ڈالیں ہم اپنی سوچ کو
محنتِ شاقہ میں مُضمر، قوم کا اقبال ہے
ہے جواں اُمید اب بھی، بہتری بھی آئے گی
اِک ذرا جُہدِ مسلسل کا ہی استعمال ہے
کاش کہ اِس ملک کی تقدیر بھی جائے سنور
تب ہی سرور کہہ سکیں گے “ہاں یہ نیا سال ہے“
Sarwar Farhan Sarwar
بیگم سے خوف کھاتے ہیں سُلطان وغیرہ اس میں نہیں ہے جھوٹ کا امکان وغیرہ
بیگم سے خوف کھاتے ہیں سُلطان وغیرہ
ہوجاتے ہیں فرار بچا کر سب اپنی جاں
غصے میں پھینکتی ہیں جب سامان وغیرہ
چھوٹی سی بات پر یہ اٹھاتی ہیں آسماں
شوہر کا ہو ہی جاتا ہے نقصان وغیرہ
شادی شدہ کو جھیلنا پڑتا ہے وائے حیف
ہنس ہنس کے گھر میں آندھی و طوفان وغیرہ
ہے عافیت ہی عافیت کنوار پن میں یار
دیتے نہیں کنوارے بلیدان وغیرہ
ہر ہر مخلوق کانپے ہے بیگم کے نام سے
جنات، بھوت، پریت اور شیطان وغیرہ
گھر کے بزرگ جوانوں کو دکھلا کے چند خواب
شادی میں پورے کرتے ہیں ارمان وغیرہ
گھونگھٹ دولہا اٹھاتا ہے جس دم میرے رفیق
ہوتی ہے عقل اسی دم قربان وغیرہ
تا عمر کوستا ہے پھر بیوٹی سیلون کو
جادو نے جن کے کیا تھا حیران وغیرہ
شادی کے بعد چار دن رہتی ہے بس خوشی
پھر وقت بھُلا دیتا ہے پیمان وغیرہ
بیگم تو گھر گرہستی میں بس ہو کے ہی مگن
چولہے میں جھونک دیتی ہے رُومان وغیرہ
ہر سال آتا رہتا ہے کیلنڈر اِک نیا
بڑھتا ہی چلا جاتا ہے خاندان وغیرہ
سرور نے خبردار کیا ہر جوان کو
شادی کا جس کسی کا ہے اِمکان وغیرہ
Sarwar Farhan Sarwar
مزدور کا یوم ویلنٹائن ملی نہ فکرِ روزی سے ہمیں ذرا مہلت
سو عشق وشق کی ہم پالتے بھی کیا علّت
ضرورتوں نے ہمیں زندگی کی باندھا ہے
ہمارے واسطے بس حسرتوں کا کاندھا ہے
مُقدر کا ہے لکھا کریں فقط محنت
پھر بھی پائیں نہ ہرگز اِک ذرا راحت
صبح سے شام تک روٹی ہمیں نچاتی رہے
تمام عمر فقط روٹی یاد آتی رہے
اسی کی چاہ میں ہر روز نئی ذلّت کو سہیں
پھر بھی اشیائے لازم کی قلت کو سہیں
اپنی اولاد کو تعلیم سے محروم تکیں
سیاہ مُستقبل کے اندیشوں سے ہذیان بکیں
اپنے بیمار کو دوا بناء مرتا دیکھیں
اپنے خوابوں کو ہر لحظہ بکھرتا دیکھیں
بہرِ مزدور ہے یکساں ہر اِک روز اور شب
رقصِ بِسمل کے دیکھے سے ہے فُرصت ہی کب؟
تم کو اُلفت و محبت کی ادا خُوب رہی
میری ہستی میرے اپنوں سے ہی محجُوب رہی
مُجھ کو تہوارِ محبت نہیں بھاتا ہرگز
میری ہستی میں یہ خوشیاں نہیں لاتا ہرگز
میں جو چاہوں بھی تو یہ دِن مناسکتا نہیں
روٹی کے بدلے گھر پھول لیجا سکتا نہیں
گفٹ محبوب سے کیا تم کو ملے گا صاحب؟
فکر مجھ کو ہے میرے گھر کیا پکے گا صاحب؟
سرور فرحان سرور
کیوں کر تجدیدِ نِکاح کا نہیں امکاں، نانا؟ کیوں کر تجدیدِ نِکاح کا نہیں امکاں، نانا؟
کب تک نانی سے نِبھاؤ گے یوں پیماں، نانا؟
بچن، تم سے ہے بڑا، پھر بھی ہے ہیرو آتا
عمر میں اُس کی ہیں ہیروئینز ابھی بچیاں، نانا
کتنے بڈھوں کی ٹھَرَک دیکھ کے یاد آتا ہے
“ٹرائی“ کرنے میں ہے آخر کوئی نُقصاں، نانا؟
تم بھی کیا سادہ ہو، لوگوں کی سُن لیتے ہو
خِضاب کیا کر نہیں سکتا تمہیں جواں، نانا؟
مُوڈ بن جائے تو لکھنا اپنے نواسے کو
میری پہچان کی ہیں کئی اِک بُڈھیاں، نانا
آخری وقت میں ہوتی ہے ضرورت سب کو
کب تک بازار کی کھاؤ گے روٹیاں، نانا؟
دوسری شادی کوئی جُرم نہیں ہے ہرگز
کب تک اس دِل میں نہاں رکھو گے ارماں، نانا؟
سدا مغرب کی ہوس، کیونکر جواں رہتی ہے؟
کیوں ہے مشرق بھلا بے طرح پشیماں، نانا؟
تھام لو ہاتھ کسی بیوہ یا مطلقہ کا
تاکہ بس جائے تمہارا بھی آشیاں، نانا
پیرانہ سالی میں اولاد ہوئی بے پرواہ
کون بنتا ہے بھلا درد کا درماں، نانا
شعر کی آڑ میں سرور یہی سمجھاتا ہے
اب تو لے آؤ خدارا نانی اماں، نانا
(نوٹ :: ہم احمد فراز صاحب کو ہماری اس تخلیق کی (ہمارے تخیل میں آنے سے پیشتر ہی) پیروڈی لکھنے پہ معاف کرتے ہیں۔ قارئین بھی نوٹ فرما لیں)
Sarwar Farhan Sarwar
خبر جھوٹی ہو تو اخبار بدل جاتے ہیں حرفِ انکار و اقرار بدل جاتے ہیں
دھن کی خاطر کئی پندار بدل جاتے ہیں
جنسِ مجبور تو بازار ہی میں رہتی ہے
ہاں فقط روز خریدار بدل جاتے ہیں
حُسنِ یوسُف اگر بے پردہ نظر آتا ہے
شربتِ دید سے بیمار بدل جاتے ہیں
ترکِ اُلفت کی قسم روز نئی کھاتے ہیں
دیکھ کر اُس کو، ہر اِک بار بدل جاتے ہیں
اہلِ منصب کے قصائد، بعد منصب ہے ہجو
آہ کس درجہ یاں اُفکار بدل جاتے ہیں
صرف اِک حال بدلنے سے بدلتا ہے جہاں
مُفلسی آنے سے سب یار بدل جاتے ہیں
وقت ہر ایک کو بے طرح بدل دیتا ہے
خوفِ طوفان سے پتوار بدل جاتے ہیں
مرگ کا خوف بدلتا نہیں دیوانوں کو
ورنہ سب لوگ سوئے دار بدل جاتے ہیں
فصل نفرت کی نہ گھر میں کبھی اُگنے دینا
کیونکہ اس فصل سے گھر بار بدل جاتے ہیں
قصہء کرب و بلا نے کیا واضح سب پر
ظلم بڑھتا ہے جب انصار بدل جاتے ہیں
سِیم و زر دے نہیں سکتے ہیں کسی کو خوشیاں
دولت ملتی ہے تو آزار بدل جاتے ہیں
تھا سمجھتا کہ میرے ساتھ ہیں ہمدرد بہت
جب نہ جانا تھا اداکار بدل جاتے ہیں
لفظ توقیر سے عاری نہ ہوں کیونکر سرور
خبر جھوٹی ہو تو اخبار بدل جاتے ہیں
سرور فرحان سرورؔ
کنجوس کی عیدِ قُرباں اِک مردِ کنجوس کی بیگم نے یہ کہا
“قربانی کے کرنے میں کیا امر مُحال ہے؟
وعدہ جو پار سال کیا تھا جناب نے
اُس وعدے کی وفا کو یہی دِن کمال ہے
بکرا ذبحہ کریں گے ہم یا دُنبہ یہ کہو؟
یا چھوٹی موٹی گائے کا دِل میں خیال ہے؟“
بولا وہ اپنی جیب کو ہاتھوں میں تھام کر
“مہنگائی کے ہاتھوں میرا جینا وبال ہے
کھانے کو ہم کو گوشت پڑوسی دے جائیں گے
ہمسائیگی کا کون سا یاں ایسا کال ہے؟“
بیگم یوں بولیں “گوشت ہی مقصد میرا نہیں
حق ہے اس میں غریب کا، حاصل جو مال ہے
اللہ کی رضا ہے کہ دیں ہم غریب کو
وسعت کے باوجود کیوں تم کو ملال ہے؟“
تنگ آ کے اس کنجوس نے بیگم سے یوں کہا
“فرمائیشوں سے بیوی کی بچنا مُحال ہے
ایسا کرو اس عید پر مجھ کو کرو ذبحہ
شوہر کے قتل کے لئے عُمدہ یہ سال ہے“
بیوی نے مُسکُرا کے کہا، “جانِ من سنو!
قُربان کرے تُم کو یہ کس کی مجال ہے؟
اسلام نے یوں شوہر کی قُربانی حرام کی
کہ گدھوں کی تو صرف کمائی حلال ہے“
تمام عالمِ اسلام کو خصوصاً ہماری ویب کے سبھی دوستوں کو عیدِ قُرباں کی دلی مُبارکباد۔
 اللہ آپ سب کی قربانی اور ایثار کو شرفِ قبولیت بخشے۔ آمین
سرور فرحان سرورؔ
گائے کی یاد میں ۔۔۔ اِک گائے ہم بھی لائے تھے کمیٹی ڈال کے
ستر ہزار کی تھی وہ، خرچہ نکال کے
سرو سا اُس کا قد تھا اور مست چال تھی
آنکھوں میں اُس کے ڈورے تھے، یارو کمال کے
من ڈولتا تھا، کئی من گوشت دیکھ کر
منہ سے ٹپکنے لگتے تھے، قطرے بھی رال کے
کھاتے کبھی تصور میں کباب و کوفتے
دعوت کے مزے لُوٹتے، گھوڑے خیال کے
سارا پڑوس رشک سے آتا تھا دیکھنے
بچے تمام رہتے تھے، بس گھیرا ڈال کے
دو دن کے بعد گائے بہت دبلی ہو گئی
جیسے کہ اُس کو روگ ہوں کئی سال کے
جیسے کہ سامری نے کیا گوشت خرد برد
گویا کہ ہم نے پیسے دئیے تھے بس کھال کے
ڈنگر ڈاکٹر سے جو پوچھی اِس کی وجہ
بولا وہ اپنی جیب میں کچھ فیس ڈال کے
“گائے تمہاری ہو گئی ہے اِس لئے شرنک
آڑھتی نے پلایا تھا بیسن اُبال کے
اب یوں کرو کہ بیچ دو، اس گائے کو ابھی
آثار ورنہ واضح ہیں قُربِ وصال کے
دھوکہ دہی ہے آج کل منڈی میں اس قدر
کرنا یہاں بھروسہ بہت دیکھ بھال کے“
دل نے کہا کہ دھوکہ نہ دیں گے کسی کو ہم
یہ کار نہیں مومنِ خوشخصال کے
وہ گائے بقرعید سے پہلے ہی چل بسی
ہم گھومتے ہیں رسی کو گلے میں ڈال کے
سرور فرحان سرورؔ
عہدِ نو کے فیشنوں نے سب کے یوں بدلے ہیں ڈھنگ عہدِ نو کے فیشنوں نے سب کے یوں بدلے ہیں ڈھنگ
دیکھ کر اُن کی ادائیں، عقل رہ جاتی ہے دنگ
نِت نئے انداز میں یوں محو ہیں پیر و جواں
جس طرح کہ ڈولتی ہے، ڈور سے کٹی پتنگ
گھیر میں شلوار کے کوئی تو لائے پورا تھان
آدھ گز کپڑے میں کوئی سُوٹ کو کر ڈالے تنگ
کسی کے اِک سُوٹ سے، اِک خانداں ڈھانپے سِتر
جسم کے اعضاء کسی کے باہمی مصروفِ جنگ
ہائے عُنقاء ہوگئیں حسینوں کی رِدائیں اب
جن کی اِک ہلکی جھلک سے دل میں بجتے جلترنگ
وہ حیاء جو کل تلک تھی مشرقی چہرے کا نُور
لے اُڑی اُس نِکہتِ گُل کو یہ تہذیبِ فرنگ
وہ تنّوع جو کہ جّدت کو بناتا تھا حسیں
اندھا دُھند تقلیدِ مغرب سے لگا بیٹھا ہے زنگ
کوئی پھٹی جینز کو سمجھا ہے ہستی کا عروج
خواہشِ عُریاں نے ہے فیشن کا پایا عُذرِ لنگ
محو ہوتا جارہا ہے دستِ حنائی کا ذوق
مغربی یلغار سے پھیکا پڑا، مشرق کا رنگ
میں مُخالف تو نہیں جدّت پسندی کا مگر
کھا نہ جائے مشرقی اقدار کو پَچھَمی پُلنگ
مختصر اتنا کہ سرور، احتمال یہ بھی رہے
تُند صحرا کے لئے ہوتا نہیں ہرگز کَلَنگ
(کَلنگ = ہنس)
سرور فرحان سرورؔ
Famous Poets
View More Poets