سکون کی تلاش
Poet: اریج رفیع By: Areej Rafi, Karachiتلاش نے سکوں کو چلا تھا ایک روز کو
نفس کے پیچھے چلا تھا ایک روز وہ
اسے خبر نہیں تھی کہ سکوں ملے گا کہاں
دوسروں کے اشاروں پر نکل پڑا اک روز وہ
دولت کی ریل پیل تھی، نوکروں کی بھیڑ تھی
پھر بھی سکوں ملا نہیں، دل تھا کیوں نہ مطمئن
مسکراہٹ میں کھوٹ تھی، اداس کیوں تھی زندگی
تلاش نے جواب کو نکل پڑا اک روز وہ
پہاڑوں کی سیر کی، سمندروں کو بھی چھان لیا
آسمانوں پہ پرواز کی، جنگلوں میں بھی کھو گیا
نہ ملا کچھ تو چاند پر بھی پہنچ گیا
ساری دنیا کھنگالنے پر بھی خالی ہاتھ رہا وہ
آئینے کے سامنے پھر کھڑا ہوا اک روز
اور کہا آئینے سے کہ، تھک گیا ہوں میں اب
محبت کی تلاش میں پھر رہا تھا در بدر
بے سکونی میں کیوں کٹ رہی ہے یہ عمر
عکس نے مسکرا کے کہا، کیوں پھرتا ہے یہاں وہاں
جس کی تجھے تلاش ہے، وہ تو تیرے ہی پاس ہے
خودی میں اپنے ڈوب جا، خودی میں ہی تو ہے خدا
سکوں کو خود میں تلاش کر پھر مل جائے گا خدا
مگر سکوں نہ ملا، چاہ تھی جو آج میں نے
نظر کو جلوہ ملا، دل کو مگر جلا پایا
نگاہِ خلق کا صدقہ لیا، سناج میں نے
حسن کو آئینہ سمجھا، نفس کو راہنما
خودی کو بیچ کے چمکا ہر اک سماج میں نے
خدا سے دور رہی، عکس کو رب جانا
چھپا کے سچ کو رکھا ہر نئے رواج میں نے
جہاں کی شہرت و دولت پہ فخر کرتی رہی
بکھر گئی تھی مگر جب کھُلا مزاج میں نے
لبوں پہ ذکر تھا میرا، بدن تھا خاص تمہید
مگر سکون نہ ملا لاکھ کی معراج میں نے
غرور، فتنہ، ہوس — یہ میرے سنگ رہے
کیا خاک پا سکا دل میں وہ معراج میں نے؟
اک اشک گِرا تو بند در وا ہوئے
خُدا کو پایا جب توڑا ہر احتجاج میں نے
اب آئینہ نہیں، دل ہے مرا معیارِ جمال
بدن سے باطن تلک دیکھا نیا سماج میں نے
شاکرہ اب نئی صبحوں کی جستجو میں ہے
خودی کی روشنی میں بدلا ہر سماج میں نے
میں آئینہ ہوں، مری آنکھ ہے کمال و وصال
نہ صرف حسن کی تصویر ہوں، نہ جسم کی بات
میں اک خیالِ جلیل، اک زمانہ سوال
میں آدمی کی طرح ہوں خدا سے جُڑی ہوئی
مری وفا میں بھی پنہاں ہے ذاتِ ذوالجلال
میں کوکھ میں بھی زمانوں کی رہبَری رکھوں
مری دعاؤں سے نکلیں جہاد و انقلاب کی تال
خموشیوں میں مری شورِ کائنات بھی ہے
مرے سکوت میں چھپتے ہیں صد ہزار خیال
مجھے نہ تول ترنگوں میں، زلف و چشم سے تُو
میں نورِ فہم ہوں، جذبوں کا اک نیا زوال
اگر میں عشق کروں، تو وہ بھی خالص ہو
بدن کی سرحد سے آگے ہو جذب کی جال
میں شاکرہ بھی ہوں، نندنی بھی ہوں، تاج بھی
میں خود سے عشق میں زندہ ہوں، نہ محتاجِ وصال
ہر ایک چہرہ یہاں آئینہ خواں کیوں ہے؟
لبوں پہ ذکرِ ہُدیٰ، دل میں نفس کا شور
یہ خود فریبیٔ آدم کا جہاں کیوں ہے؟
جو زہر بانٹتے پھرتے ہیں حکمتوں کے نام
وہی تو فخرِ زمانہ، وہی امامان کیوں ہے؟
خموش دل ہے، نگاہوں میں اک تماشہ ہے
یہ نور چھن سا گیا، دل پریشاں کیوں ہے؟
نہ فاش گفتم و لیکن دلِ خموش نگشت
چراغ بودم و آندم کہ سوختم نگشت
کبھی جو سچ کی کرن چھو گئی دلوں کے قریب
تو جھٹ پلٹ کے وہی لوگ گمراں کیوں ہے؟
یہی وہ لمحۂ آتش، یہی وہ ساعتِ درد
کہ خود سے دور ہے انسان، یہ اماں کیوں ہے؟
بہ ہر خموشیِ شب، برقِ جنوں ہے پوشیدہ
سکوتِ دل میں بھی اک شوخ فغاں کیوں ہے؟
تُو خود چراغ ہے اے دل! تُو اپنی راہ دکھا
مگر یہ تیرگی ہر سُو نمایاں کیوں ہے؟
وہ جو صدا تھی کبھی "رُک جا، یہ راہ خطا کی ہے"
وہی صدا بھی کہیں اب گماں کیوں ہے؟
خدا نہ کرد کہ اندھیروں سے عشق ہو جائے
طلسمِ شب میں اگر دن بھی نہاں کیوں ہے؟
ترا ورد میرےآقا مری جاں بنا ہوا ہے
مرے قلب و روح پہ بھی ہوا نقش سبز گنبد
جو وہاں ضو فشاں ہے ، وہ یہاں بنا ہوا ہے
ہے خیالِ کوئے طیبہ سے عجیب ربط میرا
میں مکیں بنا ہوا ہے وہ مکاں بنا ہوا ہے
تری یاد سے جو نکلا تو رہوں گا کچھ نہ باقی
میں اسی پہ مشتمل ہوں جو دھیاں بنا ہوا ہے
تری نعت پڑھ رہا ہوں یہ کہا ہے رفعتوں نے
ذرا دیکھ لیں ٹھہر کے جو سماں بنا ہوا ہے
مجھے اک جھلک دکھاو کہ میں آ نکیں کھول پاوں
یہ مرے لئے زمانہ تو دھواں بنا ہوا ہے
کسی اور در پہ ثاقب ، بھلا کیوں صدا لگائے
جو گدا،گدائے شاہِ دو جہاں بنا ہوا ہے
تلاش کر دل میں تو پائے گا حضور کی بات
خودی کو کر بلند، مت رُک ظہور کی راہ
سکھائے گی تجھ کو بھی بادِ صبور کی بات
نہ دیکھ ظاہر کو، باطن کا راز کھلتا ہے
حقیقتوں میں چھپی ہے سُرور کی بات
جو حرفِ حق سے گریزاں ہے، وہی ہے محرومی
نظر میں رکھ کے چمک دے ظہور کی بات
یہی تو فطرت کا پیغام ہے، سن اے غافل
نہیں ہے خاموش فضا میں سکوتِ دُور کی بات
نہ خوابِ کاغذی کافی، نہ فکرِ بے عملی
اُٹھا کے رکھ دے قدم پر شعور کی بات
ہزار چہرے ہیں جو آئنے میں کھوئے ہوئے
نہ اُن میں دل کی لگن ہے، نہ نور کی بات
یہ کارواں جو رُکا، خاک ہو گیا آخر
قدم بہ قدم ہے یہاں پر عبور کی بات
شعورِ ذات ہو پیدا، تو کائنات ملے
کہ بزمِ دل میں ہی رکھی ہے حُور کی بات
یہ درد، شاکرہ، صدقِ سفر کا ہے انعام
ملے گی فردا کو منزل، ہے جُور کی بات
فقط چھوٹا سا ایک دریا ہوں الفاظ بہاتا ہوں
اقبال '' سا کچھ انداز بیان چاہتا ہوں''
میری سادگی دیکھ میں کیا چاہتا ہوں
فراز '' کو پڑھتا ہوں ، انداز ''فیض'' چراتا ہوں''
اپنے ٹوٹے الفاظوں میں ''میر '' کا درد ملتا ہوں
انشا '' جی کو سنتا ہوں ،''حفیظ'' کو سناتا ہوں''
اپنے قلم کی نوک میں ''حالی '' کو سماتا ہوں






