آج اس کا مجھے اظہار تو کر لینے دو
پیار ہے تم سے مجھے پیار تو کر لینے دو
تم نہیں ہو تو ادھوری ہے ابھی میری حیات
آج اس بات کا اقرار تو کر لینے دو
اس کو شاید کبھی اپنا بھی خیال آتا ہو
اس بہانے ہمیں سنگھار تو کر لینے دو
عمر بھر میں نے تراشے ہیں جو پتھر کے صنم
ان سے تم پیار کا اظہار تو کر لینے دو
اپنی ہستی کو لٹایا ہے غزلؔ جس کے لئے
آج اس شخص کا دیدار تو کر لینے دو