آج جن جھیلوں کا بس کاغذ میں نقشہ رہ گیا
Poet: تہذیب حافی By: نعمان علی, Karachiآج جن جھیلوں کا بس کاغذ میں نقشہ رہ گیا
ایک مدت تک میں اُن آنکھوں سے بہتا رہ گیا
میں اُسے ناقابل ِ برداشت سمجھا تھا مگر
وہ مرے دل میں رہا اور اچھا خاصہ رہ گیا
وہ جو آدھے تھے تجھے مل کر مکمل ہو گئے
جو مکمل تھا وہ تیرے غم میں آدھا رہ گیا
جسم کی چادر پہ راتیں پھیلتی تو تھیں مگر
میرے کاندھے پر ترا بوسہ ادھورا رہ گیا
وہ تبسم کا تبرک بانٹتا تھا اور میں
چیختا تھا اے سخی پھر میرا حصہ رہ گیا
آج کا دن سال کا سب سے بڑا دن تھا تو پھر
جو ترے پہلو میں لیٹا تھا وہ اچھا رہ گیا
More Tahzeeb Hafi Poetry
موسموں کے تغیر کو بھانپا نہیں چھتریاں کھول دیں موسموں کے تغیر کو بھانپا نہیں چھتریاں کھول دیں
زخم بھرنے سے پہلے کسی نے مری پٹیاں کھول دیں
ہم مچھیروں سے پوچھو سمندر نہیں ہے یہ عفریت ہے
تم نے کیا سوچ کر ساحلوں سے بندھی کشتیاں کھول دیں
اس نے وعدوں کے پربت سے لٹکے ہوؤں کو سہارا دیا
اس کی آواز پر کوہ پیماؤں نے رسیاں کھول دیں
دشت غربت میں میں اور مرا یار شب زاد باہم ملے
یار کے پاس جو کچھ بھی تھا یار نے گٹھڑیاں کھول دیں
کچھ برس تو تری یاد کی ریل دل سے گزرتی رہی
اور پھر میں نے تھک ہار کے ایک دن پٹریاں کھول دیں
اس نے صحراؤں کی سیر کرتے ہوئے اک شجر کے تلے
اپنی آنکھوں سے عینک اتاری کہ دو ہرنیاں کھول دیں
آج ہم کر چکے عہد ترک سخن پر رقم دستخط
آج ہم نے نئے شاعروں کے لیے بھرتیاں کھول دیں
زخم بھرنے سے پہلے کسی نے مری پٹیاں کھول دیں
ہم مچھیروں سے پوچھو سمندر نہیں ہے یہ عفریت ہے
تم نے کیا سوچ کر ساحلوں سے بندھی کشتیاں کھول دیں
اس نے وعدوں کے پربت سے لٹکے ہوؤں کو سہارا دیا
اس کی آواز پر کوہ پیماؤں نے رسیاں کھول دیں
دشت غربت میں میں اور مرا یار شب زاد باہم ملے
یار کے پاس جو کچھ بھی تھا یار نے گٹھڑیاں کھول دیں
کچھ برس تو تری یاد کی ریل دل سے گزرتی رہی
اور پھر میں نے تھک ہار کے ایک دن پٹریاں کھول دیں
اس نے صحراؤں کی سیر کرتے ہوئے اک شجر کے تلے
اپنی آنکھوں سے عینک اتاری کہ دو ہرنیاں کھول دیں
آج ہم کر چکے عہد ترک سخن پر رقم دستخط
آج ہم نے نئے شاعروں کے لیے بھرتیاں کھول دیں
زبیر








