آج کا دور
کربلا آج بھی درپیش ہے مظلوموں کو
شقاوت آمیز ناانصافیا ں دیکھ کلیجہ منہ کو آتا ہے
صعوبتوں کے سفر میں کاروان حسین نظر آتا ہے
اس اندھیر نگری میں اور اس بھیانک جنگل میں آج بھی
جنگل کا قانون نافذ کر کے شمر اور یزید
اپنی اندھی طاقت پر اتراتے ہیں
اہل درد ایسے میں گھبراتے ہیں
کس کے آگے جا کے پیش کریں فریاد
دیدہء گریاں اورآہ و فغاں بے اثر کر دی گئی ہے
مدعی اور منصف بن بیٹھا ہے صیاد
بڑھنے لگی ہے حد سے اب تو یہ بیداد
دانہ پانی بند کیا ہے ظالم شامیوں نے
بے رحم اور شقی ہے ابن زیاد
حریت ضمیر
یہ سوال آج بھی لمحہ فکریہ ہے کہ
میدان کربلا میں آل نبی پہ ظلم کیوں ڈھائے گئے
تشنہ لب شیر خواروں پر تیر کیوں برسائے گئے
ہے حریت ضمیر سے جینے کی ایک راہ
وہ اسوہء شبیر ہے ،نہیں اس سے کچھ سوا
آن رہ جائے ،جاں رہے نہ رہے
یہی درس حریت ہے یہی ہے درس کربلا
جبر کے سامنے سپر انداز ہونے سے بہتر ہے
کہ اپنی جان دے کر اعلائے کلمتہ الحق کی خاطر
سارا گھر راہ خدا میں قربان کر دیا جائے
حریت ضمیر سے جینا ہی کربلا کا درس ہے
تاریخ کا تسلسل
فرات تیری روانی اب تک جاری ہے
کربلا کوفہ بصرہ اور دمشق
اب تک آباد اور ہنستے بستے دکھائی دیتے ہیں
اہل درد ذرا تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں
اکسٹھ ہجری کا وہ سانحہ جب بھی یاد آتا ہے
سات محرم کا وہ دن تھا جب آل نبی پر بند ہوا تھا پانی
سوا نیزے پر سورج تھا اور پھول سارے کملانے لگے تھے
العطش العطش کی صدا خیام آل رسول سے آ رہی تھی
دریائے فرات پہ قابض شامی فوج کے شقی القلب سپاہی