آج کے نوجواں سن لے میری فغاں
سوئے دشت و دمن تارکِ سائباں
تو چلا ہے کہاں چھوڑ کر گلستاں
کیوں تجھے راس آئی ہے فصلے خزاں
تو جدھر ہے رواں خار ہے بس وہاں
آج کے نوجواں سن لے میری فغاں
بال انگریز جیسے کٹائے ہوئے
مونچھ حد سے زیادہ بڑھائے ہوئے
اور ڈاڑھی کو بلکل منڈائے ہوئے
کیا مسلماں کے ہیں یہ شایان شاں
آج کے نوجواں سن لے میری فغاں
تو حسینوں کے چکر میں پھرتا ہے کیوں
تجھ کو ہرگز ملے گا نا اس میں سکوں
تجھ کو برباد کر دے گا تیرا جنوں
ہے تیرے سامنے ذلتوں کا کنواں
آج کے نوجواں سن لے میری فغاں
تجھ کو دیتا ہوں اللہ کا واسطہ
ترک کر اب تو تجویز خودساختہ
تو نے اپنا لیا غیر کا راستہ
تجھ کو بننا تھا اسلام کا پاسباں
آج کے نوجواں سن لے میری فغاں
تو جو سامان کرتا کل کے لئے
یہ بھی سوچا کبھی ایک پل کےلئے
کچھ رکھا بھی ہے اجل کے لئے
یا فقط پیاس اور یاس و محرومیاں
آج کے نوجواں سن لے میری فغاں
میں نے مانا ابھی تو معمر نہیں
موت کا وقت لیکن مقرر نہیں
دارِ فانی ہے رستہ کوئی گھر نہیں
تو مسافر دنیا ہے اک سائباں
آج کے نوجواں سن لے میری فغاں
اونچے اونچے محل جو بنائے ہیں یہ
گھر نہیں در حقیقت سرائے ہیں یہ
ہر گز اپنے نہیں ہیں پرائے ہیں یہ
بعد تیری کوئی اور ہو گا یہاں
آج کے نوجواں سن لے میری فغاں
بیٹھکوں میں نہ یوں وقت برباد کر
نفس کی قید سے خود کو آزاد کر
اپنے خلّاق کو بھی کبھی یاد کر
دیکھ تجھ پر ہے وہ کس قدر مہرباں
آج کے نوجواں سن لے میری فغاں
وقت ٹی وی بنا پاس ہوتا نہیں
دور سر سے یہ خنّاس ہوتا نہیں
تجھ کو غفلت کا احساس ہوتا نہیں
کہیں ایسا نہ ہو کے پھٹ پڑے آسماں
آج کے نوجواں سن لے میری فغاں
میں نے مانا کہ گانوں میں بھی ہے کشش
عاشقی کے فسانوں میں بھی ہے کشش
پر بتا کچھ اذانوں میں بھی ہے کشش
تجھ کو آواز دیتا ہے رب جہاں
آج کے نوجواں سن لے میری فغاں
تجھ کو شاید کہ یہ بات معلوم ہے
ٹخنے ڈھکنا شریعت میں مذموم ہے
نظر رحمت سے وہ شخص محروم ہے
جسکے ٹخنے رہیں پانچوں سے نہاں
آج کے نوجواں سن لے میری فغاں
ڈاڑھی رکھنا ہے مشکل مگر روز
محشر یہ آقاﷺ نے پوچھا اگر
میری صورت میں کیا نقص آیا نظر
کیا کہے گا جوابا بتا تو وہاں
آج کے نوجواں سن لے میری فغاں
تو جو حیلا بناتا ہے حالات کا
میں تو قائل نہیں ان خیالات کا
تجھکو شاید علم ہے اس بات کا
اہل دل خود بناتے ہیں اپنا جہاں
آج کے نوجواں سن لے میری فغاں
کرتا دنیا کی ہر بات میں پہل ہے
دین کی بات آئے تو نا اہل ہے
کارِ دنیا ترے واسطے سہل ہے
اتباعِ شریعت ہے بارِ گراں
آج کے نوجواں سن لے میری فغاں
یہ بجا ہے کہ ابلیس مردود ہے
وہ مگر وسوسوں تک ہی محدود ہے
تیرے اندر ہے ادراکِ سود وزیاں
آج کے نوجواں سن لے میری فغاں
امتِ مسلماں پر تو بن آئی ہے
اور تو گیند بلے کا شیدائی ہے
تجھ پہ کیوں اس قدر بے حسی چھائی ہے
کیوں نہیں لیتا ہاتھوں میں تیر و کماں
آج کے نوجواں سن لے میری فغاں
خود کو محفوظ کر کوئی دیوار اٹھا
اب بہت ہو چکی اب تو ہتھیار اٹھا
یہ بھی سنت ہے ہاتھوں میں تلوار اٹھا
ورنہ مٹجائے گا تیرا نام و نشاں
آج کے نوجواں سن لے میری فغاں
مثلِ کرگس نہیں باز شاہی ہے تو
سچ یہ ہے دینِ حق کا سپاہی ہے تو
اہل باطل کی حق میں تباہی ہے تو
آگے بڑھ ٹوٹ پڑ مثلِ برق تپاں
آج کے نوجواں سن لے میری فغاں
ہے توّ کال تیرا صرف اللہ پر
نقش پائے نبوت تیری رہگزر
اِبن قاسم و ٹیپو تیرے رہبر
سوئے منزل رواں ہے تیرا کارواں
آج کے نوجواں سن لے میری فغاں
رب کی نصرت ترے ساتھ ہے بالیقیں
جان کی اس لے تجھ کو پروا نہیں
تیرامسکن ہے دراصل خلدیں بریں
تیری مشتاق ہیں کب سے حورِ جناں
آج کے نوجواں سن لے میری فغاں
راہ سنت پہ چلنے کی کوشش تو کر
زیست کا رخ بدلنے کی کوشش تو کر
گر رہا ہے سبھلنے کی کوشش تو کر
تیری محنت نہیں جائے گی رائگاں
آج کے نوجواں سن لے میری فغاں
میں بتاؤ تری خستہ حالی کا حل
نفس و شیطان کے جال سے اب نکل
چھوڑ کانٹوں کا ماحول گلشن کو چل
لطف دونوں جہاں کا پائے جہاں
آج کے نوجواں سن لے میری فغاں
تو مری مان لے کجروی چھوڑ دے
یہ جو پیمانہ غفلت کاہے توڑدے
اب اثرؔ زندگانی کا رخ موڑ دے
اب ہو تیری جبیں واقفِ آستاں
آج کے نوجواں سن لے میری فغاں