جس مٹی سے بنتا ہے آدمی
اسی خاک میں ملتا ہے آدمی
مر کے جینا جی کر مرنا
ہر آن یوں بدلتا ہے آدمی
اے خیمہ زن، محل نہ بنانا
لیے رسوائی نکلتا ہے آدمی
دنیا کسی کی جاگیر نہیں
پھر کس لیے روتا ہے آدمی
خود میلے سجائے اے نادان
جھوٹی خوشی پہ ہنستا ہے آدمی
میں بھی شائد آدمی ہوں عرفان
دیکھ کر مجھے جلتا ہے آدمی