آرزوئے خانہ آبادی نے ویراں تر کیا کیا کروں‘ گر سایۂ دیوارِ سیلابی کرے بادشاہی کا جہاں یہ حال ہو غالب! تو پھر کیوں نہ دلی میں ہر اک ناچیز نوّابی کرے