غم یاراں میں بے موت مارا گیا ہوں
غداروں کے ہاتھوں خون میں نہلایا گیا ہوں
نہ ڈپلومیسی میری نہ خارجہ پالیسی میری
اسی لئے دنیا میں تنہا لہرایا گیا ہوں
ہر روز ہوتی ہے دہشت گردی میرے اندر
دہشت گرد پھر بھی میں کہلوایا گیا ہوں
کس کے مفاد کی خاطر آگ میں کودا
چند بے سود ٹکوں سے بہلایا گیا ہوں
دست و گریبان ہیں حاکم میرے قبضے کے لئے
مہنگائی بیروزگاری کی سولی پے لٹکایا گیا ہوں
کبھی سیکورٹی رسک پر تماشا بنایا گیا ہوں
کبھی القائدہ اور طالبان سے ڈرایا گیا ہوں
رام رام کے سانپ سے بھی ڈسوایا گیا ہوں
نشہ ایسا کہ امریکی جام سے بھی بہکایا گیا ہوں
میں ہمیشہ اسلام کے نام پے للکارا گیا ہوں
افسوس کہ فرقہ پرستی کی قبر میں اتارا گیا ہوں
کالا باغ ڈیم تو میں بنا کے دکھا نہیں سکا
سیاسی داؤ پیچ کی منافقت میں الجھایا گیا ہوں
ہر ١٤ اگست کو سنتا ہے نام آزادی جاوید
بن عمل نعروں تقریروں سے بہلایا گیا ہوں