بڑے شوق سے ١٤ اگست منا جاتا ہوں
تقریروں سے دل تمہارا بہلا جاتا ہوں
بچے بچے کو کیوں یاد ہے یہ دن ہمارا
کیونکہ چھٹی میں اس دن منا جاتا ہوں
پراڈو سے اترتا ہوں چار غنڈوں کے ساتھ
قاعد کے احسان سے چہرہ اپنا چمکا جاتا ہوں
کرپشن اور نا انصافی کو فرض سمجھتا ہوں
اور مجبوری سے فوٹو قاعد کی لگا جاتا ہوں
روٹی کپڑا مکان بجلی گیس ہیں وعدے میرے
یہ بتا کر فرض کو روشناس کروا جاتا ہوں
آزاد ہوں آزادی میں ہر کام کر جاتا ہوں
منا کے ١٤ اگست میں گھر کو چلا جاتا ہوں
تقریر شعروں سے شروح اور ختم کر کے
ملت کی حالت فقیری کو بھلا جاتا ہوں
چاند جیسی پیاری دھرتی ہے میری
یہ سنہری بات بھی تم کو بتا جاتا ہوں
حصے بخرے کرنے کی سازش میں ہوں شامل
پھر بھی حق پیدایش جتا کے آزادی منا جاتا ہوں
لاشوں پے کرتا ہوں سیاست حالت جنگ میں بھی
کیٹ واک اور میوزک شو کروا جاتا ہوں
لوگوں کو غداروں منافقوں کی کہانیاں سنا کر
خود آزادی میں میر جعفر صادق کو بھلا جاتا ہوں
حکومت میں پاکستان میں کرتا ہوں
کاروبار امریکا یورپ میں کرتا ہوں
پیسہ میرا محفوظ نہیں ہے یہاں
پیسہ باہر کے ملکوں میں رکھتا ہوں
ملک سے بڑی محبت ہے مجھ کو
بنگلہ محل باہر کے ملک رکھتا ہوں
عقلمند ہوں مظاھرہ عقلمندی کا کرتا ہوں
عزیز خوشنودی لیکچر امریکا میں کرتا ہوں
حق دار کا حق دبا کر خوش رہتا ہوں
زمین اس کی اکڑ کر اس پر میں چلتا ہوں
وعدے کا پاس میں نہیں کرتا
جھوٹ منافقت پے گزارہ کرتا ہوں
جاوید دکھ کی کہانی ہے ١٤ اگست اور آزادی
تم بہلنے کے لئے آے تھے میں تم کو جلاتا ہوں
تم آزاد ہو مناؤ آزادی جاوید تمہیں کچھ نہیں کہتا
قاعد نے جو دی آزادی اس کی تلاش میں رہتا ہوں
یارو نفرت ہے مجھے اس لفظ آزادی سے
منافقت نہیں آتی اس لئے سچ کہتا ہوں
واقعہ قصور یا ماڈل ٹاون ہو اور ہو رانا سنا اللہ
اس تبصرے تجزیہ پر بے موت مر جانا چاہتا ہوں
جاوید تو اس آزادی سے خوش نہیں یارو
تم بھی خون اپنا جلاؤ میں بھی خون اپنا جلاتا ہوں
تم دھوم دھام سے ١٤ اگست مناؤ
میں رو رو کے ١٤ اگست مناتا ہوں