آزاد ہے میرا وطن آزاد میری قوم بھی
حکام غرق عیش و مستی قوم بھوکی مر رہی
ہر گزرتا پل ہمیں کنگال کرتا جا رہا
ننگا کرتی جا رہی ہے جو گزرتی ہے گھڑی
امید کا سراب ہے اور صبر میری قوم کا
صبح کوئی خیر کی نہ شام کوئی خیر کی
قرض کی سولی پہ لٹکے باپ گھر میں جاں بلب
ننگے سر بیٹھی سڑک پہ مائیں بچے بیچتی
شہر سارا جل رہا انبار لاشوں کے لگے
گھر بنے ماتم کدے فاقے سے خلقت مر رہی
عیاش ہیں حکام کھایا بیچ کر میرا وطن
مٹی میری، بیج میرا، فصل غیروں کو ملی
کیا ہوئی غیرت ہماری مقتدر ان کو کیا
جن کا ناطہ مٹی سے نہ قوم سے ناطہ کوئی
سلسلے دارورسن کے ہم سجائیں کس قدر
سولیاں ہر کوچے میں ہر اک گلی مقتل بنی
ہر سمت ہی تو کربلا ہے ہر طرف اندلس کوئی
چھن چکے ہیں پر ہمارے طاقت پرواز بھی
روٹی کپڑے اور مکاں کو میں نہیں روتا مگر
پھر وہی عظمت مجھے لوٹا دو میری قوم کی